گزشتہ دنوں بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ نے بھارت کا دورہ کیا۔ اس دورے کے دوران دونوں ممالک میں کئی اہم معاہدے ہوئے اور دونوں ملکوں کے درمیان قریبی تعلقات اور باہمی اعتماد کا اظہار ہوا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ مسائل بھی ابھر کر سامنے آئے جو دونوں ملکوں کے درمیان متنازع اور حل طلب ہیں۔ ان میں پانی کی تقسیم کا معاملہ اہم ترین ہے۔ بنگلہ دیش اور بھارت کے مابین تقریباً 75 سے زائد دریاؤں کے پانی کی تقسیم کا معاملہ حل طلب ہے۔ پانی کے اس حل طلب تنازع کے علاوہ دونوں ملکوں کے تعلقات کافی حد تک نارمل ہیں۔ بنگلہ دیش اس وقت اس خطے کا تیز ترین ترقی کرنے والا ملک ہے۔ چند دہائیاں قبل اس کو خطے کا غریب ترین ملک سمجھا جاتا تھا۔ عام آدمی کے ذہن میں بنگلہ دیش کی جو تصویر بنتی تھی‘ اس میں سیلاب میں بہتے ہوئے لوگ‘ پانی میں ڈوبتے ہوئے گھر‘ قحط سالی اور بھوک کے مارے ہوئے بچے‘ غربت زدہ اور بیماریوں کی شکار عورتیں نظر آتیں تھیں۔ پھر 2000ء کے اوائل سے صورت حال بڑی تیزی سے بدلنا شروع ہوئی۔ 2006ء میں یہ خبر آئی کہ بنگلہ دیش میں ترقی کی شرح پاکستان سے زیادہ ہوگئی ہے۔ اس کے بعد اس ملک کی معاشی ترقی کی شرح میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا۔ یہاں تک کہ ایک دن یہ خبر آئی کہ بھارت کی ترقی کی رفتار میں کمی کی وجہ سے بنگلہ دیش ایک دن اس خطے میں تیز ترین ترقی کرنے والا ملک بن جائے گا۔ اس بڑی تبدیلی کے پیچھے کوئی ایک عنصر نہیں ہے‘ بلکہ کئی عناصر کار فرما ہیں۔ مگر کچھ فیصلہ کن عناصر ایسے ہیں‘ جن کے بغیر بنگلہ دیش سمیت کوئی بھی ملک ترقی نہیں کر سکتا۔ ایک بڑا عنصر سماجی سوچ میں تبدیلی ہے‘ جس کی وجہ سے بنگلہ دیش میں سماجی تبدیلی کا عمل شروع ہوا۔ روایتی طور پر ایک پسماندہ سماج ہونے کی وجہ سے بنگلہ دیش میں رجعت پسند قوتوں‘ شدت پسندوں اور قدامت پسند سوچ کا غلبہ رہا ہے۔ اس سوچ کی وجہ سے عورتوں کی آزادی‘ ان کی تعلیم اور سماجی سرگرمیوں میں ان کی شرکت نہ ہونے کے برابر رہی ہے۔ لیکن اس صدی کے آغاز میں سماجی سوچ میں تبدیلی شروع ہوئی۔ سوچ میں آنے والی تبدیلی کی وجہ سے عورت کا گھر اور سماج میں کردار اور شراکت داری تسلیم کرنے کے رجحانات کا آغاز ہوا۔ اس سماجی تبدیلی کی وجہ سے بڑے پیمانے پر عورتیں گھروں سے باہر نکلنا شروع ہوئیں اور انہوں نے سماج کی معاشی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنا شروع کر دیا۔ معاشی سرگرمی میں عورت کی شرکت کی ایک شاندار مثال بنگلہ دیش کی کپڑے کی صنعت ہے۔ کورونا بحران سے پہلے تقریباً چالیس لاکھ لوگ اس صنعت سے وابستہ تھے۔ ان میں خواتین کی تعداد تقریباً بتیس لاکھ کے قریب تھی۔ معاشی سرگرمیوں میں عورتوں کی وابستگی کھیت مزدوری سے لے کر‘ کپڑے کی ملوں اور کارخانوں سے ہوتی ہوئی سلائی کڑھائی‘ فیشن ڈیزائننگ‘ کپڑے کی دکانوں اور کپڑے کی ایکسپورٹ تک پھیل گئی۔ اس طرح بنگلہ دیشی کپڑے کو پوری دنیا کی منڈیوں میں سستی اور معیاری مصنوعات کے طور پھیلانے میں بنگالی عورت نے بنیادی کردار ادا کرنا شروع کیا۔
گھر سے باہر نکل کر‘ سماجی و معاشی سرگرمی میں حصہ لینے سے اپنی بچیوں کے بارے میں بنگالی عورت کے رویے میں بنیادی تبدیلی آئی۔ اس کی وجہ سے لڑکیوں کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی گئی۔ یہ تعلیم کی برکت تھی جس کی وجہ سے سماجی سوچ میں تبدیلی کا آغاز ہوا‘ گھر اور سماج میں عورت کی آواز کو زیادہ جگہ ملنا شروع ہوئی۔ بنگلہ دیش کی معیشت اور اس کی ترقی پر گہری نظر رکھنے والے کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ بنگلہ دیش کی تیز رفتار ترقی کی ایک وجہ سستے مزدور اور اُن کا معاشی استحصال ہے۔ خصوصاً گار منٹس انڈسٹری کی تیز رفتار ترقی کی وجہ ہی یہی ہے۔ ایسا اس لیے ہے کہ اس ملک کی کپڑے کی صنعت میں محنت کش اور مزدوروں کے حقوق کے تحفظ‘ اوقات کار اور معاوضے کے بارے میں واضح‘ منصفانہ اور مناسب قانون سازی نہیں ہوئی؛ چنانچہ اس صنعت سے جڑی زمینوں‘ ملوں اور کارخانوں کے مالکان نے اس صورتحال سے ناجائز فائدہ اٹھایا‘ مزدور کے مناسب اوقات کار کا خیال نہیں رکھا گیا۔ ان کو کام کی جگہ پر مناسب سہولتیں نہیں مہیا کی گئیں۔ ان کو مناسب معاوضہ نہیں دیا گیا۔ اس طرح ضروری اور ناگزیر اخراجات کیے بغیر زیادہ سے زیادہ منافع کمایا گیا۔ اس ناانصافی کی بنیاد پر صنعت کاروں اور کاروباری لوگوں نے پیسہ بنایا‘ جس کی وجہ سے ملک میں ترقی کے اشاریے بھی اوپر جاتے دکھائی دیے۔ اس طرح بنگلہ دیش ایک تیزی سے ترقی کرتا ہوا ملک نظر آنے لگا‘ مگر اس ترقی سے عام آدمی اور غریب محنت کش کی زندگی میں کوئی قابلِ ذکر تبدیلی نہیں آئی۔ ماضی میں بنگلہ دیش میں صنعتی حادثات کی خبریں بھی عام رہی ہیں۔ فیکٹریوں اور کارخانوں میں آگ لگنے کے کئی المناک واقعات وہاں پیش آ چکے ہیں۔ یہ صورتِ حال مل مزدوروں کی حفاظت کے لیے مناسب بندو بست نہ ہونے کی وجہ سے ان کو لاحق خطرات کی نشاندہی کرتی ہے۔ اس صورتِ حال کا کچھ انسان دوست مغربی ممالک نے اور کچھ ایسی مغربی تجارتی کمپنیوں نے نوٹس لیا‘ جو بنگلہ دیش کے ساتھ کپڑے کا کاروبار کرتی تھیں۔ ان کے دباؤ کی وجہ سے اس صورتِ حال میں کچھ بہتری آنا شروع ہوئی مگر مزدوروں اور انسانی حقوق پر نظر رکھنے والے لوگوں کا خیال ہے کہ ابھی تک بنگلہ دیش میں روز گار سے متعلق قوانین بین الاقو امی معیار کے مطابق نہیں ہیں۔
ترقی کے راستے پر گامزن ہونے کے باوجود‘ جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک کی طرح بنگلہ دیش کو کئی ایسے سیاسی اور سماجی مسائل کا سامنا ہے‘ جو اس کے پاؤں کی زنجیر بنے ہوئے ہیں۔ ان میں ایک سماجی مسئلہ کرپشن ہے۔ کرپشن کی تمام اقسام پاکستان‘ بھارت اور بنگلہ دیش میں مشترک ہیں۔ اس مشترکہ ورثے میں رشوت‘ سفارش اور اقربا پروری جیسے سنگین مسائل شامل ہیں۔ ان مسائل کی وجہ سے سماج میں معاشی انصاف موجود نہیں ہے۔ معیشت کی تیز رفتار ترقی کے ساتھ ساتھ معاشی عدم مساوات میں بھی اسی تیز رفتاری سے اضافہ ہو رہا ہے‘ جس کی وجہ سے امیر امیر تر ہو رہے ہیں‘ مگر غریب کو اس کا وہ حصہ نہیں مل رہا‘ جس کا وہ حق دار ہے۔ یہ غیر منصفانہ عمل منفی اثرات مرتب کرتا ہے اور زیادہ دیر نہیں چل سکتا‘ چونکہ اس کی وجہ سے ترقی کا عمل بالآخر رُک جاتا ہے اور سماج زوال کی طرف چل پڑتا ہے۔
اس وقت دنیا کے کچھ دیگر ممالک کی طرح ایکسپورٹ میں کمی کی وجہ سے بنگلہ دیش کی معیشت مشکلات کا شکار ہے۔ شیخ حسینہ واجد کا دورۂ بھارت اس صورت حال سے نمٹنے کی ایک کوشش ہے مگر حالیہ تیز رفتار ترقی کے عمل میں بنگلہ دیش نے ثابت کیا ہے کہ ترقی کرنے کے لیے سماج میں عورت کی شراکت داری ناگزیر ہے۔ یہ شراکت داری گھر کے اندر اور باہر‘ دونوں جگہوں پر ضروری ہے۔ اور دوسرا عامل یہ ثابت کیا ہے کہ سماج میں انتہا پسندی جب فروغ پا جائے تو یہ ترقی کے راستے کی دیوار بن جاتی ہے۔ ریاست کی طرف سے انتہا پسندی سے خوف زدہ ہو کر اس کو کھلی چھٹی دے دینا ایک خطرناک عمل ہے‘ جس کے خوفناک نتائج نکلتے ہیں۔ امن و ترقی کے لیے انتہا پسندی کو روکنا اور سماج میں اعتدال پسند سوچ کو فروغ دینا لازم ہے۔