گزشتہ کالم میں عرض کیا تھا کہ چالیس کی دہائی کے آخر تک امریکہ مشرق وسطیٰ کو جنوبی ایشیا کی طرح برطانوی ذمہ داری تصور کرتا تھا۔ یہ صورتحال 1951 ء کے موسم سرما تک برقرار رہی جب جوائنٹ چیف آف سٹاف نے اپنی رپورٹ میں اصرار کیا کہ مشرق وسطیٰ کی سکیورٹی اور ڈیفنس بنیادی طور پر برطانیہ کی ذمہ داری ہے۔ یہ سوچ اس وقت بدلنی شروع ہوئی جب برطانیہ کے ساتھ ایک طرف مصر اور دوسری طرف ایران کے ساتھ حالات انتہائی کشیدہ ہوتے ہوئے تصادم کی شکل اختیار کرنے لگے۔ اس گمبھیر صورتحال نے امریکہ کو اپنی سوچ پر از سر نو غور کرنے پر مجبور کر دیا۔ کچھ امریکی اور برطانوی ماہرین کے ساتھ ساتھ دانشوروں نے لکھنا شروع کر دیا کہ مشرقِ وسطیٰ کی حفاظت کے لیے برطانیہ کے پاس کافی وسائل نہیں ہیں۔ اس کی تفصیل ایچ ڈبلیو برانڈز نے اپنی کتاب ''Into The Labyrinth: The U.S. and The Middle East 1945-1993‘‘ میں بیان کی ہے۔ اس معاملے میں برطانیہ پر بھروسا کرنے کی وجہ سے امریکہ پہلے ہی کافی دیر کر چکا تھا۔ 1952ء کی جنوری میں چرچل اور ایدن کے درمیان گفتگو کی رپورٹنگ پر مشتمل ایک پیپر سامنے آیا۔ اس پیپر میں ایران کے بارے میں امریکی پالیسی کے ابتدائی خدو خال پر بات کی گئی۔ اس گفتگو میں اتفاق کیا گیا کہ ایران کے بارے میں امریکہ کے تین بنیادی مقاصد ہیں:پہلا مقصد ایران کو ''آزاد دنیا‘‘ کا حصہ بنانا ہے۔ دوسرا مقصد اس امر کو یقینی بنانا ہے کہ مغرب کو ایران کے تیل تک رسائی حاصل ہو۔ اور تیسرا بڑا مقصد یہ ہے کہ سوویت یونین کی ایران کے تیل تک رسائی کو روکا جائے۔ اس دوران مشرق وسطیٰ میں پے درپے کچھ ایسے واقعات رونما ہوئے کہ امریکہ کے لیے ضروری ہو گیا کہ وہ مشرق وسطیٰ میں برطانیہ اور فرانس پر اپنا انحصار کم کرے اور اپنی پالیسیوں کو برطانیہ اور فرانس سے الگ کرے۔ ان میں ایک بڑا درد ناک واقعہ مصر میں ہوا‘ جہاں برطانیہ کی سکیورٹی فورسز نے پچاس سے زائد مصریوں کو قتل کر دیا۔ اس واقعہ کی وجہ سے ملک میں ہنگامے پھوٹ پڑے۔ ان ہنگاموں نے اتنا زور پکڑا کہ مصر کی حکومت گر گئی۔ اسی طرح کا دوسرا المناک واقعہ تیونس میں بھی ہوا۔ تیونس میں فرانس کی سکیورٹی فورسز کی طرف سے قوم پرست قوتوں کے خلاف طاقت استعمال کی گئی۔ اس وحشیانہ طاقت کے استعمال کے خلاف شدید رد عمل ہوا۔ اس تحریک کا مراکش تک پھیلنے کے خطرہ پیدا ہوگیا‘ جہاں اس وقت امریکہ اپنے فوجی اڈے بنا رہا تھا۔ اس صورتحال پر امریکی ماہرین کی رائے تھی کہ اس خطے میں برطانیہ اور فرانس جیسی نوآبادیاتی طاقتوں کے ساتھ اپنے آپ کو شناخت کرنے سے امریکہ کے لیے مشکلات پیدا ہو رہی ہیں۔ اور اس طرح امریکہ اس خطے مین اپنے اثرو رسوخ کو محدود کر رہا ہے۔ جبکہ نیشنل سکیورٹی کونسل کے الفاظ میں امریکہ کا اس خطے میں موجودگی کا مقصد مغربی مفادات کے لیے موجود خطرات کو کم کرنا اور خطے میں کمیونسٹ مخالف حکومتوں کو استحکام بخشنا تھا۔ امریکہ کا مقصد اس خطے کی لیڈرشپ کو اپنے ہاتھ میں لینا اور برطانیہ اور فرانس کو اپنے ساتھ لے کر چلنا ہونا چاہیے۔ اس سلسلے میں ایک مقبول تجویز یہ سامنے آئی کہ امریکہ اس خطے کے لیے '' شمالی ڈیفنس شیلڈ‘‘ تیار کرے جس میں ترکی اور پاکستان کو شامل کیا جائے۔ اس شیلڈ کے بارے میں یہ تجویز کیا گیا کہ اس میں کچھ عرب ریاستوں کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے مگر آخر میں صرف ترکی ایران اور پاکستان ہی مشرق وسطیٰ کے لیے ایک حقیقی ڈیفنس شیلڈ بن سکتے ہیں۔ اس شیلڈ کے ساتھ امریکی ایئر فورس کی موجودگی میں امریکہ کو اپنے فوجی مشرق وسطیٰ میں نہیں رکھنے پڑیں گے۔ اس شیلڈ کے لیے امریکی کافی عرصہ تک چرچل کو بھی قائل کرتے رہے کہ برطانیہ مشرق وسطیٰ کے اس سکیورٹی بندوبست میں شامل ہو لیکن برطانیہ کا مسئلہ یہ تھا کہ پاکستان کے ساتھ اس اتحاد میں شامل ہونے سے بھارت ناراض ہوگا‘ مگر امریکیوں کی دلیل یہ تھی کہ ہم بھارت کی ناراضی کے خوف سے پاکستان کی پیشکش سے فائدہ نہ اٹھا کر غلطی کر رہے ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں حالات دن بدن بگڑ رہے ہیں اور انڈیا کے ''نیوٹرل‘‘ رہنے کے اصرار کی وجہ سے مغرب مشرق وسطیٰ کی سکیورٹی سے غافل نہیں ہو سکتا۔ ان حالات میں 1952 ء کا سال پاکستان کے لیے خوش قسمت سال ثابت ہوا۔ اس سال جوں جوں مشرق وسطیٰ کے حالت خراب ہونے شروع ہوئے امریکیوں کے نزدیک پاکستان کی افادیت میں اضافہ ہوتا گیا۔ دوسری طرف اس صورتحال کے پیش نظر پاکستان نے بھی اپنے دباؤ میں خاطر خواہ اضافہ کر دیا۔ جولائی میں لئیق علی (مشیر دفاع ) نے ایک بار پھر امریکی سیکرٹری آف ڈیفنس رابرٹ لیوٹ سے ملاقات کی اور مطالبہ کیا کہ پاکستان کو آرمی اور ایئر فورس کے لیے دو سو ملین کا فوجی سازو سامان چاہیے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ یہ سامان بھارت کے خلاف نہیں بلکہ کمیونزم کے خلاف استعمال ہو گا۔ پاکستان کے عوام سوویت یونین کے عزائم کے بارے میں اتنے حساس ہیں کہ ہمیں خطرہ ہے کہ اگر امریکہ نے امداد نہ دی تو یہ ایک بڑا نفسیاتی سرنڈر ہوگا۔ پاکستان سوویت کمیونزم کے خلاف امریکہ کے ساتھ ایک مثبت اور سرگرم اتحاد کا خواہشمند ہے۔ پاکستان کی اس خواہش کو اس وقت کے مشرق وسطیٰ کے حالات تقویت دیتے تھے۔ اس کا اظہار برٹش کامن ویلتھ اور شمالی یورپ کے معاملات کے ڈپٹی ڈائریکٹر انڈریو فاسٹر کے ایک میمورنڈم سے بھی ہوتا تھا۔ فاسٹر نے 16 اپریل 1952 ء کے میمورنڈم میں لکھا تھا کہ اس وقت حالات پاکستان کی خواہش کے حق میں جا رہے تھے۔ عرب دنیا میں قوم پرستی عدم استحکام کو ہوا دے رہی تھی۔ برطانیہ اور مصر کا تنازع عروج پر تھا۔ عرب اسرائیل تصادم میں تیزی سے اضافہ ہو رہا تھا۔ مصدق اور اس کے مخالفین کی جنگ خطرناک موڑ اختیار کر چکی تھی۔ جنوبی ایشیا کے حالات بھی بدل رہے تھے۔ پاکستان کشمیر کے معاملے پر سخت سے سخت موقف اختیار کرتا جا رہا تھا۔ برطانیہ اور فرانس اس خطے میں اپنی اہمیت کھو رہے تھے۔ اس طرح کے تیز رفتار واقعات فوری فیصلے کے متقاضی تھے۔ مشرق وسطیٰ کے معاملے میں پاکستان کی پوزیشن امریکیوں کے نزدیک بڑھ رہی تھی۔ ٹرومین کے اقتدار کے آخری دنوں میں انتظامیہ نے نیشنل سکیورٹی کونسل کو ایک رپورٹ فائل کی جس میں کہا گیا تھا کہ امریکہ اگر نئی پالیسی پر عمل درآمد نہیں کرتا تو اس کو مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا میں سخت قسم کے نقصانات اٹھانا پڑیں گے۔ امریکہ کو مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا میں ان ممالک کی مدد کے لیے فوری آگے آنا چاہیے جو مغرب کے ڈیفنس کے لیے رضامند ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ بھارت کے ساتھ کوئی سنجیدہ مسئلہ پیدا کیے بغیر مشرق وسطیٰ کے ڈیفنس کیلئے پاکستان کی سرگرم حمایت لی جا سکتی ہے۔ امریکی فوجی امداد کی پہلی قسط جتنا جلدی ممکن ہو پاکستان کو دی جائے بشرطیکہ یہ امداد ایسے انداز میں دی جائے کہ بھارت کے ساتھ کوئی بڑا مسئلہ نہ پید ا ہو۔
ٹرومین انتظامیہ اس بات پر قائل ہو چکی تھی کہ نیوٹرل بھارت اور مشرق وسطیٰ کے ریڈیکل عناصر کے مقابلے میں پاکستان مغرب دوست اور اعتدال پسند ملک ہے۔ امریکہ کا یہ فیصلہ اپنی سٹرٹیجک ضروریات کے پیش نظر تھا‘ جس کی روشنی میں امریکہ پاکستان کو مشرق وسطیٰ کے ڈیفنس میں ایک کلیدی حیثیت دے رہا تھا۔ آگے چل کر حالات نے جو رخ اختیار کیا اس کی تفصیل آئندہ کسی کالم میں بیان کی جائے گی۔