امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان زور پکڑتی سرد جنگ اور معاشی و عسکری میدان میں خوفناک مقابلے کا گزشتہ کسی کالم میں ذکر کیا تھا۔ اس باب میں 1953ء کا سال ماسکو اور کمیونزم کے لیے حیرت انگیز کامیابیوں کا سال تھا۔ اس سال نہ صرف کمیونزم دنیا بھر میں تیزی سے پھیل رہا تھا بلکہ سرمایہ دارانہ دنیا میں عدم استحکام اور بحران بھی گہرے سے گہرا تر ہوتا جا رہا تھا۔ اس سال امریکہ مخالف مظاہروں میں حیرت انگیز اضافہ ہوا۔ یہ مظاہرے لاطینی امریکہ سے لے کر یورپ‘ مشرقِ وسطیٰ اور ایشیا تک پھیل گئے۔ اس سال ماسکو نے اپنا پہلا تھرمو نیوکلیئر ہتھیار ٹیسٹ کیا۔ دوسری طرف نہر سویز کے تنازع پر برطانیہ اور مصر جنگ کے دہانے پر پہنچ چکے تھے۔ ایران میں کمیونسٹ تحریک تیزی سے زور پکڑ رہی تھی اور سوشلسٹ نواز ''تودہ پارٹی‘‘ ایک طاقتور تنظیم کے طور پر ابھر چکی تھی۔ کوریا کی جنگ‘ چینی انقلاب‘ ڈاکٹر مصدق کا قتل اور دوسرے ایسے واقعات کی وجہ سے صورتحال تیزی سے کمیونزم کے حق میں ہموار ہو رہی تھی لیکن ان سب میں نمایاں ترین بات یہ تھی کہ سوویت یونین کی معیشت حیرت انگیز تیز رفتاری سے ترقی کر رہی تھی۔ اس سال سوویت ترقی کی شرح چھ فیصد سالانہ کو چھو رہی تھی جو امریکہ کے مقابلے میں دوگنا تھی۔ سوویت سائنسدان کامیابی پر کامیابی حاصل کر رہے تھے۔ وہ بلندی پر پرواز کرنے والا دنیا کا پہلا ریڈار اور ہائیڈروجن بم تک بنا چکے تھے۔ سائنسی ترقی میں آگے بڑھتے ہوئے وہ خلا تک پہنچ چکے تھے‘ مدار میں پہلا جانور پہنچا چکے تھے اور چاند کے ارد گرد چکر لگانے کا اعلان کر چکے تھے۔ عسکری محاذ پر وہ امریکہ کے مقابلے کی فوج بنا چکے تھے۔
1953ء میں سٹالن کی موت کے باوجود سوویت یونین کی خارجہ پالیسی میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی تھی‘ سوائے اس کے کہ سوشلسٹ انقلاب کو دوسرے ممالک تک پھیلانے کی لینن کی پالیسی کے احیا پر دوبارہ غور ہو رہا تھا۔ اس پالیسی کے تحت سوویت یونین کئی ممالک کو مالی‘ فوجی اور ٹیکنالوجی کے میدان میں مدد فراہم کر رہا تھا۔ خصوصی طور پر مصر‘ شام‘ بھارت‘ افغانستان‘ انڈونیشیا اور یوگوسلاویہ کو بھاری امداد فراہم کی جا رہی تھی۔ مختصر عرصے میں صرف افغانستان کو اس وقت سو ملین ڈالر سے زائد مدد فراہم کی گئی تھی جو اُن وقتوں میں ایک خطیر رقم تصور کی جاتی تھی۔ بھارت کو مالی مدد‘ سٹیل اور جدید ٹیکنالوجی کے علاوہ کئی عرب اور افریقی ممالک کو بھی معاشی اور فوجی امداد دی جا رہی تھی۔ چین کو 1.5 بلین ڈالر سے زائد مد د دی گئی تھی۔ اس وقت سوویت سخاوت کا یہ عالم تھا کہ برما (میانمار) جیسے ملک نے اس سے استفادہ کرتے ہوئے امریکہ کو کہا تھا کہ وہ برما سے اپنے امدادی مشن کو بند کر دے کیونکہ ان کو مزید امریکی امداد کی ضرورت نہیں ہے۔ اس طرح پچاس کی دہائی کے نصف تک سوویت یونین دنیا میں کئی ممالک کو ٹیکنیکل اور معاشی امداد دے رہا تھا۔ دوسری طرف امریکہ نے اس صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لیے روایتی پالیسی میں تبدیلی کا فیصلہ کیا۔
صدر آئزن ہاور نے ہیری ٹرومین کی پالیسی سے ایک قدم آگے بڑھ کر کمیونزم کی روک تھام سے بھی آگے ان ممالک کو ''آزاد‘‘ کرانے کی پالیسی کا اعلان کیا جو سوویت یونین کے زیر اثر آ چکے تھے۔ پالیسی میں اس جارحانہ انداز کے باوجود آئزن ہاور نے بظاہر مصالحت آمیز لہجہ اپناتے ہوئے کمیونزم کے ساتھ پُرامن بقائے باہمی کے تحت زندہ رہنے کی بات کی۔ اس نے کورین جنگ کے خاتمے اور امریکی فوج میں کمی کا اعلان کیا۔ اس نے امریکی سپاہیوں کو جنگ میں نہ جھونکنے اور دفاعی بجٹ میں کٹوتی کا اعلان کیا۔ نئی پالیسی میں اس بات پر زور دیا گیا کہ امریکہ کی نیو کلیئر صلاحیت سوویت یونین سے بہتر ہے اور سٹالن کی موت کے بعد سوویت یونین کی جارحانہ پالیسی میں کچھ تبدیلی آئی ہے۔ جنوبی ایشیا کے تناظر میں آئزن ہاور نے پاکستان امریکہ فوجی اتحاد کو آگے بڑھانے کی طرف تیزی سے پیش قدمی کی۔
دریں اثنا پاکستان کی اندرونی صورتحال میں بہت بڑی تبدیلی رونما ہوئی۔ اپریل 1953ء میں ایک سافٹ انقلاب کے ذریعے حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔ گورنر جنرل غلام محمد نے وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کو برخاست کر دیا۔ خواجہ ناظم الدین کی جگہ محمد علی بوگرا کو وزیراعظم بنا دیا گیا۔ بوگرا اس سے پہلے امریکہ میں پاکستان کے سفیر رہ چکے تھے اور بعض امریکی حلقوں میں پسندیدگی کی نظر سے دیکھے جاتے تھے۔ حکومت میں اس تبدیلی کا عام طور پر یہ مطلب لیا گیا کہ پاکستان کی حکمران اشرافیہ دائیں بازو کی مذہبی قوتوں سے دور ہٹنے کی کوشش کر رہی ہے اور ریاست کے تمام اہم معاملات زیادہ تر مغربی پاکستان کی حکمران اشرافیہ اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کر رہی ہے۔ مشرقِ وسطیٰ کے ساتھ اُس وقت جو بھی جغرافیائی اور ثقافتی رشتے ظاہر کیے جا رہے تھے‘ وہ مغربی پاکستان تک محدود تھے۔ مشرقی پاکستان کی لیڈر شپ اس سے دور تھی۔ سول اور عسکری نوکر شاہی میں اُس وقت دو مضبوط گروہ تھے۔ دونوں مغرب کے بارے میں نرم گوشہ رکھتے تھے۔ وہ پاکستان کو امریکی اتحادی بنانے اور ایک سیکولر ریاست بنانے کے خواہشمند تھے۔ حکومت کی اس تبدیلی کی امریکیوں نے کھلے عام تعریف کی۔ امریکی سفارت خانے نے اس تبدیلی کو ترقی پسند قوتوں کی فتح قرار دیا۔ اس کے فوراً بعد مئی میں سیکرٹری آف سٹیٹ ڈولس پاکستان پہنچا۔ اُس کے دورے میں پاکستان کے علاوہ سعودی عرب‘ مصر‘ اسرائیل‘ ترکی اور لیبیا جیسے ممالک شامل تھے۔ ڈولس اپنے ساتھ جو پر کشش پیکیجز لے کر آیا تھا‘ اُن میں پاکستان کے لیے فوجی امداد اور بھارت کے لیے مالی اور تکنیکی امداد میں بھاری اضافے کا پیکیج بھی شامل تھا۔ ڈولس نے اعلان کیا کہ پاکستان کو مشرقِ وسطیٰ کا حصہ تصور کیا جا رہا ہے اور اس بنیاد پر پاکستان اجتماعی سکیورٹی کا حق دار قرار پاتا ہے۔ پاکستان کا بیک وقت مشرقِ وسطیٰ اور جنوبی ایشیا سے تعلق ہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں تو ہماری دلچسپی ہے ہی لیکن ہم جنوبی ایشیا میں بھی سیاسی سماجی استحکام کے خواہاں ہیں‘ اس لیے پاکستان کی اہمیت واضح ہے۔ اس نے پاکستان پر امریکی امداد کے ساتھ جڑے حقائق کو واضح کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے لیے امریکی کانگرس سے فوجی امداد کے پیکیج کی منظوری کے لیے ضروری ہوگا کہ پاکستان یہ دکھائے کہ وہ بھارت کے ساتھ امن قائم کرنے کا خواہشمند ہے۔ جواب میں پاکستان کی حکمران اشرافیہ نے یہ بات دہرائی کہ ان کو تشویش کی اصل وجہ بھارت نہیں بلکہ کمیونزم ہے اور وہ بھارت کے ساتھ امن قائم کرنے کے خلاف نہیں ہیں۔
مئی 1954ء میں بالآخر پاکستان اور امریکہ نے ملٹری پیکٹ پر دستخط کر دیے‘ جس میں پاکستان کو فوجی اور مالی مدد دینے کا عہد کیا گیا۔ اس سے اگلے سال پاکستان جنوب مشرقی ایشیائی ٹریٹی آرگنائزیشن یعنی ''سیٹو‘‘ میں شامل ہو گیا۔ اس تنظیم میں امریکہ‘ برطانیہ‘ فرانس‘ تھائی لینڈ‘ فلپائن‘ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ شامل تھے۔ اس سے اگلے سال پاکستان نے بغداد پیکٹ میں شمولیت اختیار کی‘ جو بعد ازاں سنٹرل ٹریٹی آرگنائزیشن ''سینٹو‘‘ بن گیا۔ اس میں برطانیہ‘ ترکی‘ ایران اور عراق شامل تھے۔ اس طرح پاکستان نے صرف تین سال کے عرصے میں مغربی طاقتوں کے ساتھ یکے بعد دیگرے تین معاہدوں پر دستخط کر لیے۔ اس طرح اُس وقت دنیا میں سوویت یونین اور سوشلزم کے خلاف مغربی اثر میں ایسا کوئی فوجی یا مالی فورم نہیں رہا جس میں پاکستان شامل نہ ہو۔ حالات نے آگے چل کر کیا رخ اختیار کیا‘ اس کا احوال آئندہ کسی کالم میں بیان کیا جائے گا۔