حکمران اشرافیہ کے کچھ افراد کو یہ سوال کرتے سنا گیا ہے کہ ڈیفالٹ کو اُردو میں کیا کہتے ہیں۔ تو جواب عرض ہے کہ اُردو میں ڈیفالٹ کا آسان مطلب ''نا دہندہ‘‘ ہے۔ اور اس سے مراد ایک ایسا شخص‘ گروہ‘ تنظیم یا ملک ہے‘ جو اپنا واجب الادا قرض یا اس کا کوئی حصہ برقت ادا کرنے سے انکار کردے‘ یا وہ طے شدہ ادئیگی سے قاصر ہو۔ جیسا کہ ظاہر ہے‘ ڈیفالٹ کا ترجمہ اور تعریف کرنے کے لیے بہت سے عربی‘ فارسی لفظوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ اردو زیادہ تر شعر و شاعری اور مذہبی بیانات کی زبان ہے‘ معاشی اصطلاحات تلاش کرنے میں تھوڑی محنت کرنا پڑتی ہے۔ اشرافیہ کے یہ سوال پوچھنے پر مجھے یہ مقولہ یاد آتا ہے کہ جن لوگوں نے غربت صرف تصویروں میں اور سردی صرف کھڑکی سے دیکھی ہو وہ عوام کے مسائل کے بارے میں کیا جانتے ہیں۔ کچھ لوگ اس مقولے کو کارل مارکس سے منسوب کرتے ہیں۔ اشرافیہ کا معاملہ بھی یہی ہے۔ اگر وہ ڈیفالٹ کا اردو ترجمہ جان بھی لیں تو پھر بھی وہ اس اصطلاح کے معنی اور تعریف کا گہرا ادارک نہیں کرسکتے کیونکہ ان کو کبھی ڈیفالٹ سے واسطہ نہیں پڑا۔ ڈیفالت تو عام زندگی میں جہاں قرض کا لین دین ہو عام استعمال ہوتا ہے‘ لیکن یہاں بات ہو رہی ہے ''ساورن ڈیٹ ڈیفالٹ‘‘ کی یعنی سرکاری اور خود مختار قرضے کی جو ریاستوں اور حکومتوں کے درمیان ہوتا ہے۔
ہماری حکمران اشرافیہ کو اس ڈیفالٹ کا ترجمہ اس لیے بھی شاید نہ آتا ہو کہ خودمختار قرضوں کے ڈیفالٹ نسبتاًکم ہوتے ہیں‘ لیکن کچھ ممالک وقتاً فوقتاً اپنے خودمختار قرضوں پر ڈیفالٹ کرنے کی بات کرتے رہتے ہیں۔ ایسا اس وقت ہوتا ہے جب کسی ملک کی حکومت قرض دہندگان کو ادائیگی کرنے میں یا تو قاصر ہوتی ہے یا اس کے لیے تیار نہیں ہوتی۔ ارجنٹائن‘ لبنان اور یوکرین ان ممالک میں شامل ہیں جو ماضی میں اپنے قرضوں میں ڈیفالٹ کر چکے ہیں یعنی نادہندہ قرار پائے ہیں۔ ڈیفالٹ کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ان میں زیادہ اہم قرضوں کا زیادہ بوجھ‘ معاشی جمود اور سیاسی عدم استحکام ہوتا ہے۔ پاکستان میں ڈیفالٹ کی باتوں کے پس منظر میں یہ تینوں وجوہات ہیں‘ جن سے پاکستان ان دنوں گزر رہا ہے۔ سابق حکمران ڈیفالٹ کی بار بار وارننگ دے رہے ہیں اور موجودہ حکمران اس کی تردید پر بضد ہیں۔
مسلسل معاشی جمود کسی ملک کی قرض ادا کرنے کی صلاحیت کو مجروح کرتا ہے اور اس کی معیشت کو کساد بازاری یا وبائی امراض جیسے جھٹکے سے زیادہ خطرے میں ڈال دیتا ہے۔ یہ غیر ملکی اور ملکی قرض دہندگان کے اعتماد کو بھی ختم کرتا ہے‘ جس سے قرضوں کو دوبارہ فنانس کرنا زیادہ مشکل اور مہنگا ہوتا ہے۔ ملکوں کی کریڈٹ ریٹنگ کرنے والی عالمی ایجنسی موڈیز کے مطابق1998ء میں روس اور یوکرین‘ 2001ء میں ارجنٹائن اور 2017 ء میں وینزویلا کی طرف سے خودمختار قرضوں کے ڈیفالٹ کی بنیادی وجہ یہی دائمی جمود تھا۔ اس کے علاوہ ایک بڑا فیکٹر تجارت اور بجٹ کا خسارہ بھی ہوتا ہے۔ تجارت اور بجٹ کے خسارے کے درمیان جمع ہونے والے زیادہ قرض بھی ادائیگی کے بوجھ کو بڑھا کر نا قابل ادائیگی بنا دیتے ہیں۔ اس کی بد ترین مثالوں میں 2012ء میں یونان اور 2020ء میں لبنان شامل ہیں۔ لیکن اس ساری کہانی میں سب سے بنیادی کردار سیاسی عدم استحکام اور مالیاتی بد انتظامی اور لوٹ کھسوٹ کا ہوتا ہے۔ سیاسی عدم استحکام اور مالیاتی بدانتظامی ساورن یا سرکاری ڈیفالٹ کی سب سے بڑی وجہ بنتا ہے۔ یہ وجوہات 2014ء اور 2019ء میں ارجنٹائن‘ 2015ء میں یوکرین اور 2008ء اور 2020ء میں ایکواڈور کے ڈیفالٹ کا بنیادی عنصر بنی تھیں۔ ماضی میں یورو زون کرنسی یورپی یونین کے کچھ ملکوں کے قرضوں کے بحران میں ایک اہم عنصر ثابت ہوئی کیونکہ یورو استعمال کرنے والے ممالک کے پاس بڑھتے ہوئے قرضوں اور بین الاقوامی مسابقت کے نقصان کے جواب میں اپنی کرنسی کی قدر میں کمی کرنے کی صوابدید نہیں تھی۔ ماضی میں یہ عام خیال تھا کسی ملک کو لوٹنے والی غیر جمہوری اور بدعنوان حکومتیں آخرکا ڈیفالٹ ہو جاتی ہیں‘ تاہم ہمارے زمانے کی جمہوریتیں بھی اس سے محفوظ نہیں ہیں۔ بار بار حکومتوں کی تبدیلی اور جمہوریت کے نام پر آمریت پسند حکومتوں کے قیام سے خود مختار قرضوں کے نادہندگان میں اضافہ ہوتا ہے۔ بقول شخصے بہت سے ڈیفالٹس بدقسمتی اور بدانتظامی کے امتزاج سے پیدا ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ بار بار حکومتوں کی تبدیلی اور سیاسی عدم استحکام کو بنیاد بنا کر قرضوں سے جان چھرانے کے لیے ڈیفالٹ کا اعلان کر دینا چاہیے مگر اس میں یاد رکھنے کی بات یہ ہے ایک منتخب حکومت سے دوسری منتخب حکومت میں باضابطہ منتقلی سابقہ حکومتوں کے ذریعے خزانے کی ذمہ داریوں کو تبدیل نہیں کرسکتی۔ تاہم جب فوجی بغاوت یا انقلابی صورتحال کی وجہ سے حکومت کی تبدیلی واقع ہوتی ہے تو آنے والی حکومت پچھلی حکومت کی طرف سے لیے گئے قرضوں کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھا سکتی ہے اور موجودہ قرضوں کی واپسی بند کر سکتی ہے۔ ماضی میں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ بین الاقوامی قانون کے مطابق کچھ عالمی قرضوں کو ناجائزقرار دیا گیا یعنی یہ سابقہ حکومت کے ذاتی قرضے ہیں نہ کہ ریاست کے۔ اس سلسلے میں‘ اس طرح کے قرضے قابل ِادئیگی نہیں تصور کیے جاتے تھے۔ مثال کے طور پر‘ جب سوویت حکومت 1917ء میں اقتدار میں آئی تو روسی سلطنت کے تمام قرضوں کو ناجائز قرار دے دیا تھا اور نئی حکومت نے مزید ادائیگیوں کو روک دیا تھا۔ بہرحال ہمارے زمانے میں خود مختار یا ساورن ڈیفالٹ کے نتائج حالات و واقعات کے مطابق مختلف ہو سکتے ہیں۔ جب خود مختار ڈیفالٹ ہوتا ہے‘ تو قرض دہندگان اور ریاست کے لیے مختلف نتائج ہوں گے۔ سب سے زیادہ اور فوری اثر قرض دہندگان پر ہوتا ہے۔ قرض دہندگان پر خود مختار ڈیفالٹ کا فوری اثر یہ ہوتا ہے حکومت کو دی گئی اصل رقم اور قرض پر واجب الادا سود ڈوب جاتا ہے۔ دوسری طرف نادہندہ ریاست پر یہ اثر پڑتا ہے کہ جب کوئی ریاست اپنے خودمختار قرضوں میں ڈیفالٹ کرتی ہے تو وہ کچھ قرض دہندگان پر واجب الادا اپنے قرض کی ذمہ داریوں کو ختم کر دیتی ہے۔ اس عمل سے ریاست واجب الادا کل قرضہ یعنی اصل اور اس کے سود سے آزاد ہوجاتی ہے۔ اس کا فوری نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جب کوئی ریاست اپنے قرضوں میں ڈیفالٹ کرتی ہے تو یہ سرمایہ کاروں کے لیے کم پرکشش ہو جاتی ہے اور ریاست کے لیے بین الاقوامی بانڈ مارکیٹ سے نئے فنڈز تک رسائی مشکل ہو جاتی ہے۔
اگر ماضی کے ڈیفالٹس کا جائزہ لیا جائے تو ان کے نتائج سے پتا چلتا ہے کہ ایسے ممالک جو خودمختار قرض پر ڈیفالٹ کرتے ہیں انہیں دوبارہ قرض لینے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اگر انہیں کہیں سے قرض لینے کا موقع ملتا بھی ہے تو انہیں زیادہ شرحِ سود ادا کرنا پڑتی ہے۔ لیکن اس کے برعکس ایسی مثالیں بھی موجود ہیں جن سے پتا چلا ہے کہ ڈیفالٹ کرنے والے خود مختار مارکیٹ تک فوری رسائی حاصل کرلیتے ہیں اور جرمانے کی شرح ادا نہیں کرتے ہیں۔ اس کا کافی انحصار کسی ملک کی عالمی سیاست اور سفارتی صف بندیوں میں اس کی پوزیشن پر ہے۔ جب کوئی ملک ڈیفالٹ کرتا ہے تو کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیاں اس کی مالی حالت کا جائزہ لیتی ہیں اور اسے ایک خودمختار کریڈٹ ریٹنگ تفویض کرتی ہیں۔ تفویض کردہ درجہ بندی مختلف عوامل پر منحصر ہو گی‘ جیسا کہ ڈیفالٹس کا طریقہ کار‘ قرض کی شرائط و ضوابط کی پابندی کرنے میں ناکامی کی شکل اور خودمختار ادارے کے سود کے اخراجات وغیرہ۔ مگر اس کے بعد اس ملک کی قرض لینے کی صلاحیت اس ریٹنگ پر منحصر ہوتی ہے۔