گزشتہ کچھ عرصہ سے بھارت میں مسلمان حکمرانوں سے منسوب تاریخی عمارات‘ سڑکوں اور باغات وغیرہ کے نام بدلنے کا سلسلہ جا ری ہے۔ اس بات کو لے کر بھارت کے عوام میں قدیم حکمرانوں‘ بالخصوص مسلمان حکمرانوں کے بارے میں ایک نئی دلچسپی پیدا ہو رہی ہے۔ لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ یہ حکمران کون تھے‘ کہاں سے آئے تھے‘ ان کا طرزِ حکمرانی کیا تھا۔ مقامی زبانوں‘ مذاہب اور طرزِ زندگی کے بارے میں ان کے کیا رویے اور پالیسیاں تھیں۔
ہندوستان کے ان قدیم حکمرانوں یا حملہ آوروں کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ ہم ان حکمرانوں کی طرزِ حکومت کو موجودہ دور کی طرزِ حکمرانی کے جدید اصولوں کی کسوٹی پر رکھ کر نہیں پرکھ سکتے۔ موجودہ دور میں ریاستوں کا تصور بدل گیا ہے۔ اب بیشتر ریاستیں کثیر الثقافتی اور کثیر النسلی ریاستیں ہیں۔ ان ریاستوں کے ساتھ سیکولرازم‘ جمہوریت‘ مساوات اور سماجی انصاف جیسے جدید ترین تصورات جڑے ہوئے ہیں لیکن ہم جس زمانے کی بات کر رہے ہیں‘ اس میں مذہب ہر جگہ نہ سہی لیکن اکثر سلطنتوں اور ریاستوں میں ایک اہم ترین عنصر رہا ہے۔ ان زمانوں میں مذہب صرف لوگوں کی ذاتی زندگیوں ہی نہیں بلکہ اجتماعی زندگی میں حکومتی کاروبار کے علاوہ تجارت‘ سرکاری نظامِ ٹیکس اور زندگی کے دیگر کئی شعبوں میں اہم کردار ادا کرتا رہا ہے۔ یہ بات صرف قدیم ہندوستان تک ہی محدود نہیں‘ اگر ہم یورپ کے آٹھویں سے بارہویں صدی کے عجیب و غریب دور کو ایک طرف رکھ کر صرف سولہویں اور سترہویں صدی کی تاریخ ہی دیکھیں تو ہمیں مذہب ہر جگہ کاروبارِ سلطنت میں ایک غالب عنصر کے طور پر نظر آتا ہے۔ اُس زمانے میں جو قوانین بنائے گئے یا ریاستوں کی طرف سے امن اور جنگ کے سوال پر جو بڑے بڑے فیصلے کیے گئے‘ وہ زیادہ تر مذہبی خیالات اور نظریات کے زیر اثر تھے۔ اس زمانے میں کئی ریاستوں میں یہ خیال بھی عام تھا کہ بادشاہ کا جو مذہب ہے وہی رعایا کا مذہب بھی ہونا چاہیے۔ اس خیال کو لے کر یورپ میں اس سے اختلاف کرنے والے لوگوں کے ساتھ بہت زیادہ ظلم روا رکھا گیا۔ ان کو قید و بند کی صعوبتیں اٹھانا پڑیں۔ اقلیتوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے۔ اس کی ایک کلاسیکل مثال بادشاہ ہنری چہارم کی ہے‘ جس نے باضابطہ طور پر یہ حکم جاری کیا تھا کہ یہودیوں کو اس کی سلطنت سے نکال دیا جائے۔ اس طرح یورپ میں ریاست اور حکومت کی سرپرستی میں جو فرقہ وارا نہ فسادات اور قتل و غارت گری ہوئی‘ حکمرانوں کی سرپرستی میں کیتھولک اور پروٹسٹنٹ کے درمیان جو خون خرابہ ہوا‘ وہ بھی اس کی اہم مثالیں ہیں۔ اسی طرح کی مثالیں ہندوستان میں بھی موجود ہیں لیکن اس میں اہم بات یہ ہے کہ ہر حکمران کا طرزِ عمل اور پالیسی مختلف رہی ہے۔ کچھ حکمرانوں نے ہندوستان میں مذہبی رواداری اور درگزر کی پالیسی اپنائی۔ کچھ نے سخت گیر پالیسیوں کو اختیار کیا۔ ہندوستان میں ان حکمرانوں کو لے کر جو ردِعمل سامنے آ یا‘ اُس میں اِن پالیسیوں کا بڑا عمل دخل رہا ہے۔
قدیم ہندوستان اور آج کے برصغیر پاک و ہند میں جب باہر سے آنے والوں کی بات ہوتی ہے تو اس سے مراد وہ عام لوگ نہیں جو مختلف وجوہات کی بنا پر ترکِ وطن کرکے دوسرے ممالک میں جا کر آباد ہونے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ہندوستان میں بھی ایسے لوگ بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں‘ جو دوسرے ممالک سے آکر آباد ہوئے۔ آج کل کی فضا میں لیکن جب سیاسی سطح پر باہر سے آنے والوں کا ذکر ہوتا ہے تو اس سے مراد دو قسم کے لوگ ہیں۔ یہ وہ طاقتور گروہ ہیں جو مختلف مقاصد اور عزائم لے کر ہندوستان میں آئے۔ ان میں پہلی قسم ان لوگوں کی ہے جو یہاں پر بطور حملہ آور داخل ہوئے۔ ان لوگوں نے یہاں مختصر لڑائیاں اور جنگیں لڑیں۔ مالِ غنیمت سمیٹا اور واپس اپنے اپنے علاقوں میں چلے گئے۔ دوسرے وہ لوگ ہیں جو ہندوستان میں داخل ہوئے۔ یہاں کئی چھوٹی بڑی لڑائیاں لڑیں۔ مقامی حکمرانوں سے تخت و تاج چھیننے اور اس کے بعد واپس جانے کے بجائے مستقل طور پر یہاں رہنے کا فیصلہ کر لیا۔ ان لوگوں نے یہاں کے مقامی طور و اطوار اپنائے۔ اپنے رسم و رواج اور زبان و ادب کو یہاں متعارف کروایا اور رفتہ رفتہ یہاں کی تہذیب و ثقافت کا حصہ بن گئے۔ مسلمانوں کی برصغیر میں آمد کا آغاز تو 712ء میں سندھ اور ملتان کی فتح سے ہو گیا تھا۔ یہ بنو اُمیہ کی سلطنت کے عروج کا زمانہ تھا‘ جب فتوحات کی وجہ سے یہ رقبے کے اعتبار سے دنیا کی ایک بڑی سلطنت بن گئی تھی۔ بنو اُمیہ کے زمانے میں سندھ اور ملتان فتح ہوئے لیکن ہندوستان میں پہلی باقاعدہ مسلم حکومت معزالدین محمد غوری نے قائم کی‘ جنہیں شہاب الدین غوری کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ اس نے افغانستان سے اپنی عملداری کو مشرق کی طرف پھیلایا اور آگے چل کر برصغیر میں مسلم حکمرانی کی داغ بیل ڈالی۔ سلطان محمد غوری ترک نژاد تھے‘ جنہوں نے 1192ء میں دلّی فتح کیا تھا۔ غوری کی اس کامیابی نے راجپوت فوج کو شکست دی جس کے بعد ہندوستان کے پہلے حکمران قطب الدین ایبک کی حکمرانی کے لیے راہ ہموار ہوئی۔ سلطان محمد غوری کو جہلم کے ایک نواحی قصبے دھمیاک میں 15مارچ 1206ء میں قتل کر دیا گیا۔ یہ وہ مقام ہے جہاں ڈاکٹر عبدالقدیر نے غوری کی یاد گار تعمیر کی تھی۔ اس یاد گار کا انتظام اب پنجاب آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے پاس ہے۔ کہتے ہیں 1990ء تک یہاں غوری کی ایک سادہ سی قبر تھی‘ جس پر کچھ مقامی لوگ دیے جلاتے تھے۔ اس گاؤں کا ایک آدمی 1994ء میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا ڈرائیور بھرتی ہوا۔ اس نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو شہاب الدین غوری کی اس گاؤں میں آمد اور تین افراد کے ہاتھوں اس کے قتل کی کہانی سنائی‘ جس کے بعد ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے یہ یاد گار تعمیر کرانے کا فیصلہ کیا۔ اس زمین کی ملکیت ریٹائرڈ میجر جنرل نواب زادہ شیر علی خان پٹودی کے پاس تھی‘ ان کا تعلق بالی وُڈ سٹار سیف علی خان کے خاندان سے ہے۔ سلطان محمد غوری کے نام پر پاکستان کے تین میڈیم رینج میزائلوں کا نام بھی رکھا گیا۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا‘ سلطان محمد غوری کی وجہ سے قطب الدین ایبک بھارت کا پہلا مسلمان بادشاہ بنا۔ قطب الدین بنیادی طور پر ایک غلام تھا‘ جس کو بچپن میں اغوا کر کے فروخت کیا گیا۔ قطب الدین کو ایک وقت میں غوری نے خرید لیا جو ترقی کر کے ہندوستان میں اس کی فوج کا جرنیل اور اس کا سب سے قابلِ اعتماد شخص بن گیا۔ اس نے قدیم انڈیا میں خاندانِ غلاماں کی شاہی سلطنت قائم کی۔ دلّی کی فتح کے بعد غوری نے ہندوستان کو اپنی سلطنت میں شامل کیا لیکن یہاں اس نے اپنی براہِ راست عملداری کے بجائے تمام تر اختیارات قطب الدین ایبک کو سونپ دیے جس کی وجہ سے وہ ہندوستان کا پہلا مسلم حکمران بن گیا۔ اس نے شہاب الدین غوری کی وفات کے بعد غزنی اور غور سے قطع تعلق کرکے ہندوستان میں اپنی مکمل خود مختار حکومت قائم کی۔ قطب الدین ایبک کو مگر ہندوستان پر لمبا عرصہ حکمرانی کا موقع نہیں ملا۔ جو وقت بھی اسے میسر آیا وہ اس نے اپنی خود مختاری برقرار رکھنے کی فکر میں گزارا۔ وہ شمال مغرب کے بارے میں زیادہ فکر مند تھا‘ یہی وجہ ہے کہ اس نے اپنا زیادہ تر وقت دلّی کے بجائے لاہور میں گزارا۔ قطب الدین ایبک 1210ء میں ایک حادثے کا شکار ہو کر وفات پا گیا۔ اس کا مقبرہ لاہور میں انار کلی بازار میں ہے۔