چین کو لے کر امریکہ کو سخت تشویش ہے۔ وہ اس تشویش کا اظہار ہر محاذ پر کر چکا ہے۔ یوکرین کے خلاف روس کو فوجی امداد فراہم کرنے کے امکانات سے لے کر چین کی طرف سے دوسرے ممالک کو قرض دینے کے سوال پر امریکہ وقتاً فوقتاً اپنے خدشات کا اظہار کر چکا ہے۔ رائٹرز کی ایک تفصیلی رپورٹ کے مطابق امریکہ کو پاکستان اور دیگر ممالک کی طرف سے چین پر واجب الادا قرضوں پر جو گہری تشویش ہے‘ اس کا کھلا اظہار امریکی محکمہ خارجہ کے قونصلر ڈیرک شولٹ نے گزشتہ دنوں اسلام آباد کے دورے کے دوران کیا ہے۔
شولٹ نے پاکستانی حکام سے ملاقات کے بعد اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے میں صحافیوں کو بتایا کہ ہمیں نہ صرف یہاں پاکستان میں‘ بلکہ پوری دنیا میں چینی قرضوں کے بارے میں سخت خدشات ہیں۔ پاکستان کے ذمے چین کے واجب الادا قرضوں کے بارے میں گزشتہ سال ستمبر میں جاری ہونے والی بین الاقو امی مالیاتی فنڈ کی رپورٹ کے مطابق چین اور چینی کمرشل بینکوں کے پاس پاکستان کے تقریباً 100بلین ڈالر کے کل بیرونی قرضوں کا تقریباً 30فیصد حصہ ہے۔ اور اس قرض کا زیادہ تر حصہ چین پاکستان اقتصادی راہداری کے تحت آیا ہے جو بیجنگ کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کا حصہ ہے۔ بیجنگ کے بیلٹ اینڈ روڈ اقدام سے منسلک ممالک کے ساتھ چین کے مالیاتی انتظامات کا احاطہ کرنے والے 100معاہدوں کا ایک تجزیہ ظاہر کرتا ہے کہ قرض دینے کے یہ معاہدے غیرمعمولی طور پر خفیہ ہوتے ہیں۔ ایسے قرضوں کے لیے سرکاری بینکوں کو ترجیح دی جاتی ہے اور ایسے قرضے بنیادی طور پر قرض لینے والے ملک میں چین کی پوزیشن کو مضبوط کرنے کے لیے ڈیزائن کیے گئے ہیں۔ 'چین قرض کیسے دیتا ہے‘ نامی ایک مشہور رپورٹ کے مصنفین کا کہنا ہے کہ ہمیں خود مختار قرض داروں اور چین کے سرکاری اداروں کے درمیان قرض کے معاہدوں میں پریشان کن شرائط ملتی ہیں۔ چین کی طرف سے قرض دینے کا سب سے بڑا منصوبہ سال 2013ء میں بہت دھوم دھام سے شروع کیا گیا تھا۔ چینی پالیسی سازوں کے بقول چین کا بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو ایشیا‘ یورپ اور افریقہ کے ساتھ چین کے روابط کو بہتر بنانے کے لیے بہتر زمینی اور سمندری تجارتی راستوں کے نیٹ ورک کے طور پر ڈیزائن کیا گیا تھا۔ چینی منصوبے میں بہت سارے ضرورت مند ملکوں کو جو چیز اچھی لگ رہی تھی‘ وہ ایک بہتر انفراسٹرکچر کی تعمیر اور معاشی فوائد کا وعدہ تھا لیکن آگے چل کر بہت سی قوموں کو چینی ملکیت والے بینکوں کا قرض ادا کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ کالج آف ولیم اینڈ میری‘ کیل انسٹیٹیوٹ فار دی ورلڈ اکانومی اور سنٹر فار گلوبل ڈویلپمنٹ میں ریسرچ لیب ایڈ ڈیٹا کی ایک مشترکہ کاوش میں‘ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبوں کے تحت دیے جانے والے 100قرضوں کے معاہدوں کا جائزہ لیا گیااور ان کا موازنہ دوسرے دو طرفہ منصوبوں سے کیا گیا۔ ان رپورٹس پر مبنی تجزیوں کے مطابق ان قرضوں میں شفافیت کا فقدان ہے۔ وہ ضمانت سے جڑے ہوئے ہیں اور مجموعی طور پر وہ مقروض ممالک کے لیے قرض کے بحران پر دوبارہ گفت و شنید یا انتظام کرنا مشکل بنا دیتے ہیں۔ اس لیے چین دوسرے ملکوں کو ایسا قرض دے رہا ہے‘ جس کی واپسی کا امکان نہیں ہے۔ اس بات کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ چین جان بوجھ کر کچھ ممالک کو قرضوں میں پھنسانے کے لیے نکلا ہے لیکن اس کے باوجود اس نے فائدہ اٹھایا ہے‘ جسے وہ اہم اثاثوں یا دیگر جغرافیائی سیاسی فوائد حاصل کرنے کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔
بات یہ ہے کہ ڈیٹ بک ڈپلومیسی‘ جسے ڈیٹ ٹریپ ڈپلومیسی بھی کہا جاتا ہے‘ ایک طویل مدتی عمل ہے لیکن یہ حقیقت ہے‘ کوئی افسانہ نہیں ہے۔ یہ رپورٹ تین اہم نتائج اخذ کرتی ہے۔ پہلا نتیجہ یہ ہے کہ چینی معاہدوں میں راز داری کی غیر معمولی شقیں ہوتی ہیں جو قرض لینے والوں کو قرض کی شرائط کو ظاہر کرنے سے روکتی ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ چائنا ڈویلپمنٹ بینک کے تمام کنٹریکٹس اور ایکسپورٹ امپورٹ بینک آف چائنا کے 43فیصد معاہدوں میں ایسی شقیں شامل ہیں۔ ان دونوں بینکوں کو سرکار کی طرف سے صنعت‘ غیر ملکی تجارت‘ معیشت اور غیر ملکی امداد میں سرکاری پالیسی کو آگے بڑھانے کے لیے چارٹر کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مصنفین میں سے ایک مصنف جارج ٹاؤن میں قانون کی پروفیسر اینا گیلپرن ہیں۔ ان کے مطابق راز داری کی یہ سخت شقیں قرض لینے والوں کو سخت مشکل میں ڈالتی ہیں۔ راز داری کی یہ شرائط بالآخر مقروض ملکوں کی چین کے علاوہ دوسرے ممالک سے قرض حاصل کرنے کی صلاحیت کو محدود کر دیں گی‘ جس سے ان ملکوں کا بیجنگ پر انحصار بڑھ جائے گا۔ اسی طرح آکسفورڈ یونیورسٹی میں چائنا سٹڈیز میں ڈاکٹریٹ کے امیدوار Eyck Freymann نے لکھا کہ راز داری کی شق بیجنگ کو قرضوں کے شکار ان ممالک پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے کی اجازت دیتی ہے۔ ان کی تحقیق اس بات پر مرکوز ہے کہ جمہوری ممالک چین سے قرض کیوں لیتے ہیں اور چینی میگا پروجیکٹس ان کی ملکی سیاست پر کیسے اثر انداز ہوتے ہیں۔ رپورٹ کا دوسرا نتیجہ یہ ہے کہ ان معاہدوں کے تحت قرض لینے والوں کو دوسرے قرض دہندگان سے پہلے بیجنگ یا چینی سرکاری بینکوں کو اپنے قرض کی ادائیگی کو ترجیح دینا پڑتی ہے۔ چین کے ساتھ قرض کے معاہدے قرض لینے والے ممالک میں زیادہ مالی مشکلات کا باعث بن سکتے ہیں اور ان کی ترقی کی صلاحیت کو محدود کر سکتے ہیں۔ جب راز داری کے معاہدے کے تحت قرض لینے والی قومیں چین پر اور بھی زیادہ انحصار کرتی ہیں۔ رائٹرز کے مطابق‘ ورلڈ بینک کے ایک مطالعے سے ظاہر ہوا ہے کہ جی 20ممالک کے غریب ترین ممالک کے سرکاری دو طرفہ قرضے 2019ء میں 178بلین ڈالر تک پہنچ گئے جس کا 63فیصد چین کو واجب الادا ہے۔
رپورٹ کا تیسرا نکتہ یہ ہے کہ ان معاہدوں کی شقیں ممکنہ طور پر چین کو قرض لینے والوں کی ملکی اور غیرملکی پالیسیوں پر اثر انداز ہونے کی اجازت دیتی ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جن 100معاہدوں کی جانچ کی گئی‘ ان میں سے 90فیصد سے زائد ایسی شقیں ہیں جو قرض دہندہ کو معاہدہ ختم کرنے کی اجازت دیتی ہیں اور قرض دہندہ یا قرض دارملک میں اہم قانون یا پالیسی میں تبدیلی کی صورت میں فوری ادائیگی کا مطالبہ کرنے کا اختیار دیتی ہیں۔ اس طرح پوری ادائیگی کا مطالبہ پورا نہ کرنے کی صورت میں قرض دہندہ اپنی سودے بازی کی طاقت کو دوسری قسم کی رعاتیں حاصل کرنے کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔ اس کی ایک مثال 2011ء میں سامنے آئی‘ جب امداد کے بدلے تاجکستان نے اپنی ایک ہزار مربع کلومیٹر زمین چین کے حوالے کر دی اور ایک صدی پرانا سرحدی تنازع طے کر لیا۔ ہم جانتے ہیں کہ امریکی خدشات امریکہ کے سیاسی اور معاشی مفادات کے تابع ہیں جو چین کے ساتھ بڑھتی ہوئی سرد جنگ کا شاخسانہ ہیں۔ اس طرح ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ اس طرح کی رپورٹس کو کچھ قوتوں کی طرف سے سپانسرز کیا جاتا ہے۔ لیکن پاکستان جیسے ملکوں کے لیے اس تلخ حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ وہ اپنی حکمران اشرافیہ کی عاقبت نا اندیشی کی وجہ سے ڈیٹ ٹریپ یعنی قرضوں کے جال میں بری طرح پھنس چکے ہیں۔ اور اس جال سے نکلنے کے بجائے مزید قرضے لینے کی پالیسی جاری ہے۔