وزیراعظم کی دوحہ کانفرنس میں شرکت کو کچھ حلقے حیرت اور افسوس سے دیکھ رہے ہیں۔ اس کانفرنس کی وجہ تسمیہ اور پس منظر یہ ہے کہ 1960ء کی دہائی کے اواخر میں اقوام متحدہ نے دنیا میں بہت ہی کم ترقی والے یعنی غریب ترین ممالک پر خصوصی توجہ دینے کا اصولی فیصلہ کیا تھا۔ سب سے پہلے اس عالمی ادارے نے دنیا کے کچھ ممالک کو بین الاقوامی برادری میں ترقی کے اعتبار سے سب سے زیادہ کمزور اور غریب ترین ممالک کے طور پر تسلیم کیا۔ اس کے بعد 1970ء کی دہائی میں ان کم ترقی والے غریب ترین ممالک کو ترقی کے راستے پر ڈالنے اور ان کی غربت کم کرنے کے عزم کا اظہار کیا گیا۔ اس عزم کے پیش نظر 1971ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے با ضابطہ طور پر ان ممالک کو اقوام متحدہ کے سب سے زیادہ کمزور اور پسماندہ ترین ممبران کے طور پر تسلیم کیا اور ان کی حالتِ زار بدلنے اور خصوصی بین الاقو امی تعاون کیلئے تیز رفتار اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا۔ ان ممالک کی سماجی و اقتصادی حالت کے مسلسل بگاڑ کو روکنے کے لیے بین الاقوامی توجہ حاصل کرنے اور اس مقصد کے لیے مؤثر عالمی کارروائی کے لیے 1981ء میں پیرس میں اقوام متحدہ کی پہلی کم ترقی یافتہ ممالک کی کانفرنس منعقد ہوئی۔
اس کانفرنس میں ایک طویل ایجنڈے پر بحث کی گئی۔ عالمی سطح پر ترقی یافتہ اور امیر ممالک کا معاشی اور تکنیکی تعاون حاصل کرنے کے لیے مختلف تجاویز پر غور کیا گیا۔ ان ممالک میں بنیادی انفراسٹرکچر کی تعمیر میں مدد سے لے کر معاشی اور سماجی ترقی کے آغاز اور اس کی رفتار کو برقرار رکھنے کے لیے ترقی یافتہ اور خوشحال ممالک کا تعاون ناگزیر قرار دیا گیا۔ ان ممالک کے لیے خصوصی اقدامات کی ضرورت پر عالمی توجہ مرتکز رکھنے اور عالمی تعاون جاری رکھنے کے لیے اقوام متحدہ کی کم ترقی یافتہ ممالک کی دوسری کانفرنس 1990ء میں پیرس میں ہوئی۔
اس کانفرنس کی کارروائی کسی بھی طرح پہلی کانفرنس سے مختلف نہیں تھی؛ تاہم اس کانفرنس میں پیرس اعلامیہ جاری کیا گیا۔ اس اعلامیہ میں غریب ترین ملکوں کی مدد کے لیے ایک ایکشن پروگرام شروع کرنے کا اعلان کیا گیا۔ اقوام متحدہ کی کم ترقی یافتہ ممالک کے لیے تیسری کانفرنس 2001ء میں برسلز میں منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس کی میزبانی یورپی یونین نے کی۔ اس کانفرنس میں 2001ء سے 2010ء کی دہائی کے لیے برسلز ڈیکلریشن جاری کیا گیا۔ اس کانفرنس کے اعلامیے میں برسلز پروگرام آف ایکشن کو اپنانے کا اعلان کیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ کے دفتر برائے کم ترقی یافتہ ممالک‘ لینڈ لاکڈ ڈویلپنگ کنٹریز اور سمال آئی لینڈ ڈویلپنگ سٹیٹس والے ممالک کے لیے جنرل اسمبلی نے خصوصی اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس سلسلے کی اگلی کڑی کے طور پر اس کے بعد 2008ء میں اقوام متحدہ نے چوتھی عالمی کانفرنس بلانے کا فیصلہ کیا۔ یہ کانفرنس تین سال بعد 2011ء میں‘ استنبول میں منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس کا بڑا مقصد یہ بیان کیا گیا کہ سب سے کم ترقی یافتہ اور غریب ممالک اور ان کے ترقی یافتہ شراکت داروں کے درمیان برسلز پروگرام آف ایکشن کے تحت ہونے والی پیش رفت کا جائزہ لیا جائے گا۔ آگے چل کرکم ترقی یافتہ ممالک کے بارے میں اقوام متحدہ کی پانچویں کانفرنس چار سے نو مارچ کے درمیان دوحہ میں منعقد ہو رہی ہے، جس کا مقصد غریب ترین ممالک کے لیے ایک نیا پرجوش پروگرام تشکیل دینا ہے اور 2030ء تک ایسا ایجنڈا ترتیب دینا ہے جو ان ممالک کی حالتِ زار بدل دے۔ اقوام متحدہ کے اس پروگرام میں شامل ہونے والے کچھ ممالک نے اس ادارے کے تعاون سے بڑا فائدہ اٹھایا۔ پروگرام میں شامل ہونے کے کچھ عرصہ بعد کچھ ممالک آہستہ آہستہ سماجی اور معاشی ترقی کر کے غریب ترین ممالک کی فہرست سے نکل گئے۔ اقتصادی اور سماجی کونسل کی ذیلی تنظیم کمیٹی برائے ترقیاتی جائزہ کے مطابق چھ ممالک اب تک غریب ترین ممالک کی فہرست سے نکل چکے ہیں۔ ان ممالک میں 1994ء میں بوٹسوانا، 2007ء میں کیپ وردے، 2011ء میں مالدیپ، 2014ء میں ساموا، 2017ء میں استوائی گنی اور 2020ء میں وانواتو جیسے ممالک شامل ہیں۔ اس پروگرام میں شامل موجودہ غریب ترین ممالک کی کل آبادی تقریباً 880ملین افراد پر مشتمل ہے‘اور آج کل اس فہرست میں چھیالیس ممالک شامل ہیں جو دنیا کی آبادی کا 12فیصد ہیں۔ اس فہرست میں شامل ممالک کو ترقی کی راہ میں شدید رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ ان ممالک کا دنیا کی معیشت میں حصہ عالمی جی ڈی پی کے دو فیصد سے کم اور عالمی تجارت کا تقریباً ایک فیصد ہے۔ کمیٹی ہر تین سال بعد کم ترقی یافتہ ممالک کی فہرست کا جائزہ لیتی ہے۔ اس وقت غریب ترین ممالک کی فہرست میں جو 46 ممالک شامل ہیں‘ ان میں زیادہ تر ممالک افریقہ سے ہیں۔ اس کے بعد ایشیا کا نمبر ہے‘ جن میں افغانستان اور بھوٹان جیسے ممالک شامل ہیں۔ اس فہرست میں بنگلہ دیش بھی شامل ہے۔
یاد رہے کہ بنگلہ دیش 1971ء میں غریب ترین ممالک کی اس فہرست میں شامل کیا گیا تھا لیکن بعد میں اس نے آہستہ آہستہ ترقی کی منازل طے کیں۔ اور اب بنگلہ دیش اس فہرست سے نکل جائے گا۔ 1971ء میں پاکستان اور نائیجیریا بھی کم ترقی یافتہ اور غریب ممالک کی فہرست میں آتے تھے لیکن بظاہر ان ممالک کو اس فہرست میں اس لیے نہیں شامل کیا گیا کہ ان کی معیشتیں بہت بڑی تھیں۔
اقوام متحدہ کے اس فورم کا بنیادی مقصد سب سے کم ترقی یافتہ اور غریب ترین ممالک میں تیز رفتار اقتصادی ترقی اور پائیدار ترقیاتی اہداف حاصل کرنا ہے۔ غریب ترین ممالک کے اس گروپ میں نہ صرف غربت اور غذائیت کی کمی کے واقعات سب سے زیادہ ہیں بلکہ ان مسائل پر قابو پانے کے لیے مؤثر پالیسیوں کا انتخاب اور ان پر عمل درآمد بھی وہاں سب سے بڑا چیلنج ہے۔ اقوام متحدہ کے اہداف میں ان ممالک میں آمدنی میں اضافہ‘ روزگار کی تخلیق اور صنعت کاری وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے ساتھ جڑے دیگر تمام اہداف کا حصول بھی اقتصادی محاذ پر ہونے والی پیش رفت پر منحصر ہے۔ کچھ اہداف کم سے کم ترقی یافتہ ممالک کے لیے قومی ترقی کی حکمت عملیوں کو تشکیل دینے کے لیے اہم حوالہ جاتی نکات ہیں۔ مختصر الفاظ میں اس فورم کا مقصد دنیا کے امیر ترین اور غریب ترین ممالک کے درمیان ایک ایسا تعلق پیدا کرنا ہے جس کے ذریعے امیر ترین ممالک ان غریب ترین ممالک کے ساتھ اس طرح تعاون کریں‘ جو ان کو غربت کی اس بدترین حالت سے نکالنے میں مدد دے سکے۔ اس لیے عام لوگوں کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہونا فطری بات ہے کہ پاکستان جیسے معاشی بحران اور سیاسی ہیجان کے شکار ملک کے لیے وزیراعظم کی سطح پر ایک ایسی کانفرنس میں شامل ہونا کیوں ضروری تھا جس میں امیر ترین اور ایک باقاعدہ فہرست میں شامل غریب ترین ممالک کے درمیان مکالمہ ہو رہا ہے جبکہ پاکستان نہ تو ترقی یافتہ اور خوشحال ممالک کی فہرست میں آتا ہے اور نہ ہی ان غریب ترین ممالک کی فہرست میں شامل ہے جن کی معاشی اور سماجی ترقی یہاں زیر بحث ہے۔ غریبوں کی اس چیخ و پکار میں یہاں پاکستان نہ تو اپنا دکھڑا سنا سکتا ہے اور نہ ہی اس کانفرنس میں کوئی معاشی یا انٹلیکچول کنٹری بیوشن کر سکتا ہے۔