دنیا عجب ہنگامہ خیز حالات سے گزر رہی ہے۔ اس ہیجان خیزی میں بہت سی اہم خبروں سے صرفِ نظر کر لیا جاتا ہے۔ اس عمل میں کچھ ایسی خبریں بھی نظر انداز ہو جاتی ہیں جو عام حالات میں ہر خاص و عام کے لیے گہری دلچسپی کا باعث ہو سکتی ہیں۔ پاکستان میں ایک خاص ماحول ہے۔ سیاست میں غیرمعمولی صورتحال ہے۔ سڑکوں پر طوفانی سیاست ہو رہی ہے۔ اس ماحول میں ذرائع ابلاغ کی توجہ کا مرکز مقبولِ عام اور ریٹنگ بڑھانے والی خبریں ہیں۔ ایسی فضا میں ایسی خبروں کے لیے وقت اور جگہ کم ہے جو عام حالات میں بہت اہم ہوتی ہیں۔ اس خاص ماحول کے اثرات عالمی خبروں پر بھی پڑے ہیں۔ روس اور یوکرین کی لڑائی بارے آنے والی بڑی بڑی خبریں کہیں سنائی یا دکھائی نہیں دیتیں۔ کچھ دن پہلے انٹرنیشنل کریمنل کورٹ (آئی سی سی)نے روسی صدر پوتن کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے ہیں۔ انٹرنیشنل کریمنل کورٹ نے یہ وارنٹ گرفتاری اس الزام کی بنیاد پر جاری کیے ہیں کہ صدر ولادیمیر پوتن یوکرین کی جنگ کے دوران جنگی جرائم کے مرتکب ہوئے ہیں۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے یوکرینی بچوں کو غیرقانونی طریقے سے روس منتقل کیا ہے۔ عدالت نے کہا کہ یہ سنگین جرائم صدر پوتن نے فروری 2022ء میں کیے ہیں۔
یہ بڑے سنگین الزامات ہیں‘ جو عام حالات میں دنیا کو ہلا کر رکھ دیتے لیکن اس وقت دنیا جس قسم کے معاشی اور سیاسی بحرانوں سے گزر رہی ہے‘ اس کے پیش نظر ان الزامات کو تقریباً نظر انداز کر دیا گیا۔ اس معاملے پر یوکرینی حکام کا موقف اور الزام یہ ہے کہ روس نے تقریباً 16 ہزار یوکرینی بچوں کو غیر قانونی طریقے سے روس یا یوکرین کے مقبوضہ علاقوں میں منتقل کیا ہے۔ یوکرین کے علاوہ دیگر ممالک اور اداروں کی طرف سے بھی اس موضوع پر کئی رپورٹس آئی ہیں۔ ان میں ایک اہم رپورٹ امریکہ کی مشہور ییل یونیورسٹی کی بھی ہے۔ اس یونیورسٹی کی ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق روس نے چھ ہزار یوکرینی بچوں کو کریمیا منتقل کیا ہے۔ اس رپورٹ میں 43کیمپوں کی نشاندہی کی گئی ہے‘ جہاں ان بچوں کو رکھا گیا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق یہ کیمپ ایک بڑے نیٹ ورک کا حصہ ہیں۔ یہ نیٹ ورک روس نے یوکرین پر حملے کے بعد تشکیل دیا ہے۔ یہ کیمپ فروری 2022ء سے روس کی براہِ راست نگرانی میں چل رہے ہیں۔ یہ معاملہ بہت پہلے اٹھایا گیا تھا‘ تب سے یہ بچوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی مختلف تنظیموں اور اداروں میں زیرِ بحث رہا ہے لیکن کافی دیر بعد اب یہ معاملہ سست رفتاری سے چلتے چلتے بالآخر آئی سی سی تک پہنچا۔ ایک برس قبل اس عدالت نے اس معاملے پر تحقیقات کا آغاز کیا تھا۔ تحقیقات کا مقصد یہ دیکھنا تھا کہ آیا روس یوکرین میں جنگی جرائم‘ انسانیت کے خلاف جرائم یا قتلِ عام میں ملوث ہے۔ حالانکہ سب واقعات سر عام ہو رہے ہیں‘ جن کو مختلف دستاویزی ذرائع سے محفوظ کیا جا رہا ہے۔ بظاہر روس یوکرین جنگ میں جو ہو رہا ہے‘ اس میں کوئی چیز خفیہ نہیں جس کے لیے تحقیقات کی ضرورت پڑے لیکن قاعدے و ضابطے پورے کرنے اور رسمِ دنیا کے لیے با قاعدہ تحقیقات کا عمل شروع کیا گیا تاکہ جنگی جرائم کے بارے میں قانونی مقدمہ تیار کیا جا سکے۔
عام طور پر اس جنگ کے دوران روس پر جو الزامات لگائے جاتے رہے ہیں‘ وہ جنیوا کنونشن کے تحت جنگی جرائم کی فہرست میں شامل ہیں۔ ان جرائم میں جن اقدامات کو شامل کیا گیا ہے‘ ان میں جنگ کے دوران کسی عام شہری کو جان بوجھ کر قتل کرنا‘ گرفتار شدہ لوگوں کو ایذا پہنچانا‘ ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک روا رکھنا‘ کسی شہری کو یرغمال بنانا‘ کسی شہری کو غیر قانونی طور پر قید کرنا‘ زبردستی جلاوطن کرنا‘ شہری آبادیوں پر حملے اور املاک کو بغیر فوجی مقاصد اور جواز کے نقصان پہنچانا شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ظاہر ہے قصبوں‘ شہروں‘ ہسپتالوں اور مذہبی مقامات وغیرہ پر حملے بھی جنگی جرائم کا حصہ ہیں۔ جنگی جرائم کی یہ ایک طویل فہرست ہے اور شاید ہی اس فہرست میں کوئی ایسا جرم شامل نہ ہو جو عملی طور پر ہر خوفناک جنگ میں استعمال ہوتا رہا ہے۔ ان جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو کیا سزا ملی؟ یہ ایک طویل موضوع ہے لیکن پھر بھی ان الزامات کی باضابطہ تحقیقات کے لیے عدالت کی طرف سے مقرر کردہ پراسیکیوٹر نے یوکرین کے کئی دورے کیے‘ جس میں اس نے بچوں کے خلاف جنگی جرائم یا سول آبادی کے خلاف مبینہ کارروائیوں کا جائزہ لیا۔ اس کے بعد آئی سی سی نے ایک بیان جاری کیا جس میں صدر پوتن پر جنگی جرائم کے ارتکاب کا الزام عائد کیا گیا تھا اور اس کے نتیجے میں اب ان کے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے ہیں۔
صدر پوتن کے ساتھ ساتھ روس میں بچوں کے حقوق کی کمشنر ماریا لیووا بیلوا کے خلاف بھی وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے ہیں۔ عام حالات میں روس اس طرح کے الزامات کو نظر انداز کرتا رہا ہے مگر اب کی بار پوتن کے وارنٹ گرفتاری جاری ہونے پر روس نے سخت ردِ عمل دیا ہے۔ اس نے ان وارنٹ گرفتاری کو اشتعال انگیز قرار دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ ان وارنٹ کا مذاق بھی اڑایا گیا۔ سابق روسی وزیر اعظم دمتری میدو دیف نے ان وارنٹ کو کاغذ کا ایسا ٹکڑا قرار دیا جس کی حیثیت ٹوائلٹ پیپر سے زیادہ نہیں ہے۔ اس کے باوجود اگرچہ ان تحقیقات اور وارنٹ گرفتاری کی اپنی ایک اہمیت ہے لیکن یہ سارا سلسلۂ عمل آئی سی سی کے دائرۂ اختیار اور اس کی حیثیت پر سوال اٹھاتا ہے۔
نیدر لینڈ کے شہر ہیگ میں قائم اس عدالت کو اب پچیس سال کے قریب ہو چکے ہیں۔ اس دوران اس میں کئی مشہور مقدمات زیر سماعت رہے۔ گوکہ کچھ ہائی پروفائل شخصیات کے خلاف کارروائیاں ہوئی ہیں لیکن اس عدالت کودنیا میں وہ حیثیت حاصل نہ ہو سکی جس کی ایک عام مؤثر عدالت کو ضرورت ہوتی ہے۔ اس عدالت کی رکنیت کسی ملک پر لازم نہیں بلکہ صوابدیدی ہے۔ آج تک امریکہ اور چین جیسے ممالک نے بھی خود اس عدالت کی رکنیت حاصل کرنے سے گریز کیا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اس عدالت کے پاس کوئی پولیس فورس یا قانونی طاقت نہیں ہے جس کے ذریعے یہ ملزمان کی گرفتاری یا اپنے فیصلوں کا عملی اطلاق کر سکے۔ اس وقت اس عدالت کی تقریباً 123ممالک نے رضا کارانہ طور پر رکنیت اختیار کر رکھی ہے لیکن روس اور یوکرین دونوں اس کے ممبر نہیں ہیں؛ البتہ یوکرین نے اس عدالت کے دائرہ اختیار کو تسلیم کیا ہوا ہے۔ یہ دائرہ اختیار تسلیم کیے جانے کے بعد عدالت یوکرین سے جڑے معاملات کی تحقیقات کرنے کی قانونی طور پر مجاز ہو جاتی ہے۔ دوسری طرف روس اس عدالت کا رکن نہیں ہے اور جیسا کہ ظاہر ہے‘ یہ عدالت صرف رکن ممالک تک اپنا دائرہ اختیار رکھتی ہے۔ یا پھر کوئی ملک جب اسے اپنا دائرہ اختیار بڑھانے کی خود رضامندی دیتا ہے۔ ان سب کمزوریوں کے باوجود البتہ صدر پوتن کے خلاف اس عدالت کی تحقیقات یا ان تحقیقات کے نتیجے میں ہونے والے فیصلے دیگر کئی طریقوں سے صدر پوتن کو متاثر کر سکتے ہیں۔ ان طریقوں میں عالمی سفری پابندیوں سمیت کئی اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔ اس بات کا دارومدار کئی دوسرے ممالک کے ردِ عمل اور رویے پر بھی ہے۔ اس ردِ عمل کا تعین بڑی حد تک چینی صدر شی جن پنگ کے حالیہ دورۂ روس اور ان کے امن منصوبے کے سلسلے میں ہونے والی پیشرفت پر بھی ہے۔