یہ نصف صدی پہلے کی بات ہے۔ 70 ء کی دہائی میں جو بائیڈن ایک نوجوان آدمی تھے۔ وہ تازہ تازہ امریکی سینیٹ کے ممبر منتخب ہوئے تھے اور بطور ایک جونیئر سینیٹر انہوں نے اپنے کام کا آغاز کیا ہی تھا کہ ان کو پیئر ٹروڈو سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ ٹروڈو اُس وقت کینیڈا کے وزیراعظم تھے۔ وہ جون 1968ء میں وزیراعظم منتخب ہوئے تھے لیکن بات صرف وزیراعظم منتخب ہونے کی نہیں تھی‘ پیئر ٹروڈو اس وقت ایک سیاستدان اور دانشور کی حیثیت سے ایک عالمی اساطیری کردار بن چکے تھے‘ جو دنیا بھر کے سیاسی اور دانشور حلقوں میں بہت مقبول تھے اور زیر بحث رہتے تھے۔ شمالی امریکہ کی سیاست میں وہ ایک گھریلو نام بن چکے تھے۔ اس کی وجہ سرد جنگ کے اس دور میں امریکہ کی جنگ باز پالیسیوں سے ہٹ کر ان کی آزاد و خود مختار سوچ اور عالمی امن کے لیے واضح اور کھلے خیالات کا اظہار تھا۔
ٹروڈو نے کینیڈا کا وزیراعظم بننے سے بہت پہلے عالمی سیاست میں ایک جاندار کردار ادا کرنا شروع کر دیا تھا۔ انہوں نے 1949ء میں عین اس وقت چین کا دورہ کیا تھا جب چینی رہنما ماؤ زے تنگ کی قیادت میں چینی انقلاب اپنے عروج پر تھا۔ وہ 1960ء میں دوبارہ چین گئے۔ چین کے دوروں کے بعد انہوں نے اپنے ایک دوست جیکس ہیوبرٹ کے ساتھ مل کر ''سرخ چین میں دو معصوم‘‘ نامی کتاب لکھی جس نے مغرب میں چین کے بارے میں نئی بحث کا آغاز کیا۔ 1968ء میں وہ کینیڈا کے وزیراعظم بنے تو چین کے ساتھ سفارتی تعلقات کا قیام ان کے عالمی سفارتی ایجنڈے میں سر فہرست تھا۔ انہوں نے اپنے اس ایجنڈے پر برق رفتاری سے عمل کیا اور اکتوبر 1970ء میں چین کے ساتھ باقاعدہ سفارتی تعلقات قائم کیے۔ یہ شمالی امریکہ کی سیاست میں بڑا نازک وقت تھا۔ امریکہ ویتنام کی دلدل سے نکلنے کی کوشش کر رہا تھا اور چین کے ساتھ اس طرح سفارتی تعلقات قائم کرنے کے سوال پر امریکہ اور کینیڈا میں حالات ساز گار نہیں تھے۔ امریکہ میں چین کے خلاف مخاصمانہ جذبات پائے جاتے تھے۔ ٹروڈو کے اس قدم نے شمالی امریکہ کی سیاست میں ہلچل مچا دی اور اس خطے کی سیاست میں ایک بڑا نام بن گیا۔ ان حالات میں جو بائیڈن جیسے جونیئر اور جوان سال سینیٹر کے لیے ایسے لیجنڈری کردار سے ملاقات واقعی اعزاز کی بات تھی۔ بائیڈن نے 2016ء میں اپنی ایک تقریر میں نصف صدی بعد اس ملاقات کا ایک بار پھر ممنونیت سے ذکر کیا‘ جب وہ پیئر ٹروڈو کے بیٹے اور نوجوان کینیڈین وزیراعظم جسٹن ٹروڈو سے مل رہے تھے۔ اپنی تقریر میں جو بائیڈن نے اس ملاقات کی یادیں تازہ کرتے ہوئے کہا کہ ٹروڈو ایک مہذب اور معزز آدمی تھا‘ جس نے ایک کامیاب بیٹے کی پرورش کی۔
یہ شمالی امریکہ کے دو خاندانوں کے درمیان تعلقات کا قصہ ہے۔ انہی قدیم خاندانی تعلقات کے سائے میں گزشتہ جمعہ کو جو اور جسٹن کے درمیان ایک اور ملاقات ہوئی۔ ان کے ایجنڈے پر کینیڈا امریکہ کے درمیان موجود کئی مسائل تھے۔ ان مسائل میں یوکرین اور روس کی جنگ‘ ظاہر ہے‘ سر فہرست تھی جس میں بظاہر امریکہ اور کینیڈا میں ہم آہنگی موجود ہے لیکن تفصیلات میں اختلاف بھی ہے۔ دوسرا بڑا مسئلہ ماحولیاتی تبدیلی ہے لیکن دونوں کے درمیان سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ چین کے بارے میں کیا پالیسی اختیار کی جائے۔ یہ سوال ان کے ایجنڈے کا ایک انتہائی اہم ترین نکتہ رہا ہے۔ یہ دونوں ممالک چین کے بارے میں ایسے وقت میں اپنی پالیسی پر بات چیت کر رہے ہیں جب چین پر یہ الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ اس نے کینیڈا کے انتخابات پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی ہے۔ اس الزام پر کینیڈا میں بحث ہو رہی ہے اور صورتحال اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ ایک منتخب نمائندے کو بھی اس الزام کے تحت اپنی ممبر شپ سے مستعفی ہونا پڑا۔ بائیڈن‘ٹروڈو ملاقات میں دونوں کے درمیان جس مسئلے پر اتفاق ہوا ہے‘ وہ کینیڈا اور امریکہ کے درمیان تارکین وطن کی آمدو رفت سے متعلق ہے۔ اس معاہدے کے تحت امریکہ اور کینیڈا نے دونوں ممالک کے درمیان تارکینِ وطن کی نقل و حرکت کے بارے میں نئی شرائط پر اتفاق کیا ہے۔ اس معاہدے کے تحت کینیڈا کی امیگریشن کو یہ اختیار ہو گا کہ وہ امریکہ سے کینیڈا میں داخل ہونے والے تارکینِ وطن کو واپس امریکہ بھیج سکے اور انہیں کہے کہ وہ واپس جا کر امریکہ میں اپنی پناہ کی درخواست داخل کریں‘ جو اس مقصد کے لیے ایک محفوظ ملک ہے۔ اسی طرح امریکی حکام کو بھی یہ اختیار ہو گا کہ وہ کینیڈا سے امریکہ آنے والے تارکینِ وطن کو واپس کینیڈا ڈیپورٹ کر سکیں۔ یہ معاہدہ ایک طرح سے جسٹن ٹروڈو کی کامیابی سمجھا جا رہا ہے‘ جس کی کینیڈا بہت عرصے سے کوشش کر رہا تھا۔ کینیڈا اور امریکہ کے درمیان اس معاملے میں پہلے سے ایک معاہدہ موجود تھا مگر تارکینِ وطن بڑی تعداد میں پناہ کی تلاش میں امریکہ سے کینیڈا داخل ہوتے تھے اور ان کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا تھا۔ ان پناہ گزینوں کی رہائش‘ خوراک اور دیگر ضروریات کینیڈا کے لیے ایک مسئلہ بن رہا تھا۔
تارکینِ وطن کی ایک بہت بڑی تعداد لاطینی اور جنوبی امریکہ سے آ رہی تھی‘ جن کا کہنا تھا کہ وہ اپنے اپنے ممالک میں سیاسی جبر اور نا انصافی کا شکار ہوئے ہیں اور اس وجہ سے ترکِ وطن کر کے یہاں پناہ لینے کے لیے آئے ہیں۔ اس معاہدے میں مسئلہ یہ تھا کہ جو لوگ غیر سرکاری راستوں سے سرحد پار کرتے تھے‘ کینیڈا ان کو واپس امریکہ نہیں بھیج سکتا تھا۔ اس سلسلے میں راکس ہیم نامی سڑک بہت مشہور ہوئی تھی۔ یہ وہ اَن آفیشل نیم پختہ راستہ ہے‘ جو امریکی ریاست نیویارک کو کینیڈا کے صوبے کیوبک سے جوڑتا ہے۔ اس مشہور سڑک کے ذریعے پناہ گزین کینیڈا میں داخل ہو کر سیاسی پناہ کی درخواست کرتے تھے۔ کووڈ وائرس کے بعد جب راستے کھلے تو یہ سلسلہ اتنا عام ہوگیا کہ مقامی حکام کے لیے ان لوگوں کو سہولتیں فراہم کرنا مشکل ہو گیا۔ یہ کینیڈا کے صوبے کیوبک کا ایک بڑا مسئلہ بن گیا۔ جسٹن ٹروڈو چونکہ اسی صوبے سے منتخب ہوتے ہیں‘ اس لیے ان کے لیے یہ مسئلہ فوری اور ذا تی دلچسپی کا باعث بن گیا‘ لیکن انہوں نے بائیڈن کے ساتھ ذاتی خاندانی تعلق اور دوستی کی بنیاد پر یہ پیچیدہ مسئلہ بڑی آسانی سے حل کر دیا اور اس نئے معاہدے کا اعلان کر دیا۔ نئے معاہدے پر فوری عمل درآمد بھی شروع کر دیا گیا۔ اس کے بدلے میں کینیڈا نے پندرہ ہزار ایسے تارکینِ وطن کو بطور پناہ گزین قبول کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے جو وسطی اور جنوبی امریکہ سے سیاسی تشدد یا معاشی نا انصافی کا شکار ہوکر آتے ہیں۔ اس معاہدے کے ساتھ پریس کے سامنے جن ہنستے مسکراتے چہروں کی تصاویر دکھائی گئیں‘ ان میں بائیڈن‘ جسٹن اور ان کی بیگمات شامل تھیں۔
اُدھر غریب الوطن‘ تارکینِ وطن پناہ گزینوں کے حامیوں کے نزدیک یہ معاہدہ ایک بری خبر ہے۔ یہ انسانی حقوق اور کئی عالمی معاہدوں اور وعدوں سے پہلو تہی کا راستہ ہے جو ان لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے سے کترا رہا ہے جن کو ان خوشحال ممالک کی مدد کی ضرورت ہے۔ یہ لوگ کسمپرسی کی حالت میں ان ممالک تک پہنچتے ہیں۔ اس مقصد کیلئے وہ ایک پُر خطر سفر کرتے ہیں۔ خطرناک جنگلات اور دریا پار کرتے ہیں۔ ایجنٹوں کے ہاتھوں لٹتے ہیں۔ اس لیے منزل پر پہنچ کر یہ لوگ انسانی ہمدردی اور نرم سلوک کے مستحق ہیں۔