آئین کسی بھی ملک کا سب سے بڑا قانون ہوتا ہے۔ ملک کا کوئی بھی قانون‘ جو آئین سے متصادم ہو‘ اسے غیر آئینی اور ناجائز سمجھا جاتا ہے۔ جن ممالک میں آئین کی حکمرانی ہے وہاں اگر کوئی ایسی درخواست ملک کی سپریم کورٹ کے پاس آئے‘ جس میں کسی قانون کو آئین سے متصادم قرار دیا گیا ہو تو عدالت کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ اس درخواست کا جائزہ لے‘ جسے عام طور پر جوڈیشل ریویو کہا جاتا ہے۔ گزشتہ کالموں میں کئی ایسی مقدمات کا حوالہ دیا گیا جن میں عدالتوں نے جوڈیشل ریویو کے دوران انصاف کے تقاضے پورے نہیں کیے جس کی وجہ سے ملک میں آئین و قانون کی حکمرانی کا تصور کمزور ہوا‘ وسیع پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہوئیں‘ مطلق العنان حکومتیں قائم ہوئیں‘ اور جمہوریت کو کمزور کیا گیا۔ جوڈیشل ریویو کا بنیادی مقصد ہی آئین کی بالادستی اور انسانی حقوق کے تصورات کی حفاظت ہے۔ ملکی تاریخ میں ایسے بے شمار مواقع آئے جب جوڈیشل ریویو کے مسلمہ اصولوں کی پیروی میں آئین کی حکمرانی قائم کی جا سکتی تھی مگر ان مواقع کو ضائع کر دیا گیا۔ کامیاب اور ترقی یافتہ دنیا میں ایسے مواقع سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے آئین کی حکمرانی اور انسانی حقوق کے تحفظ کی راویات قائم کی گئیں۔ ماربری بنام میڈیسن ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے آئینی قانون میں ایک ایسا ہی مشہور تاریخی مقدمہ ہے۔ اس کیس کا فیصلہ امریکی سپریم کورٹ نے 1803ء میں کیا تھا۔ اس مقدمے نے امریکہ اور آگے چل کر دیگر کئی ترقی یافتہ ممالک میں ''جوڈیشل ریویو‘‘ یعنی عدالتی جائزہ کا اصول قائم کیا۔ یہ اصول ملک کی عدالتوں کو ان قوانین کو غلط قرار دینے کا اختیار دیتا ہے جو عدالتی جائزے میں غیرآئینی قرار دیے جاتے ہیں۔ امریکہ کی تاریخ میں یہ پہلا مقدمہ تھا جس نے امریکی حکومت کی تین شاخوں کے درمیان طاقت کے توازن کو نمایاں طور پر متاثر کیا۔ اس کیس کے پس منظر میں 1800ء کے انتخابات شامل ہیں‘ جس میں تھامس جیفرسن‘ ایک ڈیموکریٹک ریپبلکن نے اس وقت کے صدر جان ایڈمز کو شکست دی تھی‘ جو ایک فیڈرلسٹ تھے۔ ایڈمز کی صدارت کے آخری دنوں میں اس نے ولیم ماربری سمیت متعدد ججوں کو جسٹس آف پیس مقرر کیا؛ تاہم رسمی دفتری کارروائی میں تاخیر کی وجہ سے ماربری کو جیفرسن کا عہدہ سنبھالنے سے پہلے ان تقریریوں کی سرکاری دستاویزات یعنی تقرر نامے یا کمیشن موصول نہیں ہوئے۔ جب جیفرسن نے عہدہ سنبھالا تو اس نے اپنے سیکرٹری آف سٹیٹ جیمز میڈیسن کو حکم دیا کہ وہ ماربری سمیت باقی ماندہ ججوں کو تقرری کی دستاویزات فراہم نہ کریں۔ اس طرح ماربری اور کئی دوسرے ججوں کے تقرری کے کاغذات روک دیے گئے۔ ماربری اور دوسرے تقرر شدہ افراد نے سپریم کورٹ سے درخواست کی کہ وہ میڈیسن کو تقرری کی دستاویزات دینے کا حکم جاری کرے۔ یہ معاملہ چیف جسٹس جان مارشل کی سربراہی میں سپریم کورٹ میں پہنچا۔ مارشل کی رائے میں عدالت کو دو مرکزی سوالات کا سامنا کرنا پڑا: کیا ماربری اپنے عہدے کا حقدار تھا؟ اور اگر ایسا ہے تو کیا عدالت کے پاس حکم جاری کرنے کا اختیار تھا؟ عدالت نے یہ طے کیا کہ ماربری واقعتاً اپنے کمیشن کا حقدار تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ عدالت کا خیال تھا کہ 1789ء کے جوڈیشری ایکٹ کی شق‘ جس نے عدالت کو مینڈیمس کی رِٹ یعنی حکم جاری کرنے کا اختیار دیا تھا‘ غیر آئینی تھا۔ یہ اس مقدمے کا کلیدی پہلو ہے جس نے عدالتی نظرثانی کا اصول قائم کیا۔ چیف جسٹس مارشل کے فیصلے میں کہا گیا کہ آئین کی تشریح اور اس کے مفہوم کا تعین کرنا عدالتوں کا کام ہے۔ انہوں نے قرار دیا کہ آئین ملک کا سب سے بڑا قانون ہے اور کوئی بھی قانون‘ جو اس سے متصادم ہو‘ اسے غیر آئینی اور ناجائز سمجھا جانا چاہیے۔ اس سے عدلیہ کو مقننہ کے منظور کردہ قوانین کی آئینی حیثیت کا جائزہ لینے اور اگر ضروری ہو تو انہیں کالعدم قرار دینے کا اختیار ملا۔ ماربری بمقابلہ میڈیسن نے جوڈیشل ریویو کا اصول قائم کیا۔ سپریم کورٹ کے آئین سے مطابقت نہ رکھنے والے قوانین کا جائزہ لینے اور ان کو ختم کرنے کے اختیار کو مستحکم کیا۔ اس فیصلے نے عدلیہ کی حکومت کی ایک الگ اور مساوی شاخ کے طور پر طاقت میں بہت اضافہ کیا جو عوام کے حقوق کے تحفظ اور حکومتی اقدامات پر آئینی حدود کو یقینی بنانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس کے بعد سے یہ مقدمہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں جوڈیشل ریویوکے لیے ایک مثال کے طور پر کام کرتا رہا اور اس نے آئین کی تشریح میں بنیادی کردار ادا کیا۔
اس مقدمے نے جوڈیشل ریویو کے بنیادی اصول طے کیے۔ عدالتی جائزے کا بنیادی اصول یہ قرار دیا گیا کہ آئین ملک کا سپریم قانون ہے۔ یہ وہ بنیادی قانون ہے جو دوسرے تمام قوانین اور حکومتی اقدامات کو کنٹرول کرتا ہے۔ عدالتی جائزہ اختیارات کی علیحدگی کے اصول پر مبنی ہے جو حکومتی اختیارات کو مقننہ‘ ایگزیکٹو اور عدالتی شاخوں میں تقسیم کرتا ہے۔ عدلیہ ان کے بنائے ہوئے قوانین کی آئینی حیثیت کا جائزہ لے کر ان پر چیک رکھنے کا کام کرتی ہے۔ اس مقدمے سے آئین کی بالادستی کا یہ اصول قائم ہوا کہ آئین حتمی اتھارٹی ہے اور کسی بھی متضاد قانون یا عمل پر غالب ہے۔ اگر کوئی قانون یا حکومتی عمل آئین کے منافی پایا جاتا ہے تو اسے ناجائز اور ناقابلِ نفاذ تصور کیا جاتا ہے۔ اس مقدمے نے یہ اصول بھی طے کیا کہ عدالتوں کو آئین کی تشریح کا اختیار اور ذمہ داری حاصل ہے۔ وہ اس کے معنی اور دائرہ کار کا تعین کرنے کے لیے آئین کے اندر موجود زبان‘ ارادے اور اصولوں کا تجزیہ کر سکتی ہیں۔ اس مقدمے نے یہ اصول بھی طے کیا کہ آئین ایک زندہ دستاویزہے۔ ''زندہ آئین‘‘ کا اصول تسلیم کرتا ہے کہ آئین کی تشریح بدلتی ہوئی معاشرتی اقدار اور حالات کی روشنی میں ہونی چاہیے۔ عدالتیں آئینی حقوق کی مسلسل مطابقت اور تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ارتقائی تشریحات استعمال کرتی ہیں۔ عام طور پر پارلیمنٹ قانون سازی کرتی ہے یا حکومت بذریعہ آرڈیننس کوئی قانون بناتی ہے تو اس کی آئینی حیثیت کی درستگی پر قیاس کیا جاتا ہے کہ یہ قانون درست ہی ہوگا۔ عدالتیں عام طور پر یہ خیال کرتی ہیں کہ مقننہ کے پاس کردہ قوانین آئینی ہیں لیکن اس اصول میں طے کیا گیا کہ اگر آئینی دفعات کی صریح خلاف ورزی ہو تو اس مفروضے کو رَد کیا جا سکتا ہے کہ مقننہ کا تشکیل کردہ قانون درست خیال کیا جائے۔ عدالتی جائزے میں مداوا اور ازالہ کرنے کا اختیار شامل ہے۔ اگر کوئی قانون یا عمل غیرآئینی پایا جاتا ہے تو عدالتیں اسے ختم کر سکتی ہیں یا آئین کے مطابق لانے کے لیے اس میں ترمیم کی سفارش کر سکتی ہیں۔
عدالتی جائزے کا اصول غیر جانبدارانہ فیصلے دینے کے لیے عدلیہ کی آزادی پر انحصار کرتا ہے۔ اور یہ بات واضح کرتا ہے کہ قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھنے کے لیے ججوں کو سیاسی یا بیرونی دباؤ سے آزاد ہونا چاہیے۔ اس سے یہ اصول بھی طے ہوا کہ اگرچہ عدالتوں کے پاس عدالتی جائزے کا اختیار ہے لیکن ایسا کرتے وقت ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ تحمل کا مظاہرہ کریں اور ایسے معاملات میں مداخلت سے گریز کریں جو حکومت کی دوسری شاخوں پر چھوڑے جا سکتے ہیں۔ اس طرح جوڈیشل ایکٹوازم اور جوڈیشل ریویو کی ذمہ داری کو الگ الگ دیکھنا ضروری ہے۔ ترقی یافتہ اور کامیاب جمہوریتوں میں جوڈیشل ایکٹوازم کا تصور تقریباً ختم ہوتا جا رہا ہے اور اس عمل کو عام طور پر عدلیہ کے مناسب کردار کے طور پر نہیں دیکھا جاتا۔ لیکن جہاں تک جوڈیشل ریویو کا تعلق ہے تو یہ جمہوری ممالک میں ایک مسلمہ روایت بن چکی ہے‘ جس کے ذریعے آئین کی بالا دستی اور انسانی حقوق کی حفاظت کو یقینی بنایا جاتا ہے۔