مسئلہ کشمیر کا حل کیا ہے؟ یہ سوال ہر دوسرا آدمی پوچھتا ہے۔ گزشتہ سات دہائیوں سے مسلسل یہ سوال پوچھا جا رہا ہے۔ اقتدار کے ایوانوں سے لے کر کھیتوں اور کھلیانوں تک اور کھیل کے میدانوں سے لے کر آرٹ‘ فلم‘ سکولوں اور کالجوں میں ہر جگہ کہیں نہ کہیں یہ سوال سنائی دیتا ہے۔ اس سوال کے کئی جواب ہیں۔ ہر آدمی کے پاس مسئلہ کشمیر کا ایک اپنا حل ہے۔ پہلے اس مسئلے اور اس کے حل کی باتیں سیاسی پارٹیاں کیا کرتیں تھیں۔ یہ مسئلہ تھِنکرز فورمز اور تھِنک ٹینکس میں زیر بحث آتا تھا۔ سفارت کاروں‘ سیاست دانوں اور دانشوروں کا سر درد تھا۔ لیکن اب جوں جوں سماج میں ابلاغ کے ذرائع عام ہو رہے ہیں‘ ٹیکنالوجی کا پھیلاؤ عام ہو رہا ہے تو یہ مسئلہ عام آدمی تک پہنچ گیا ہے اور عام لوگ اس پر اپنی رائے دے رہے ہیں۔ رہا سوال اس مسئلے کے حل کا تو مسئلہ کشمیر کا ایک نہیں کئی حل موجود ہیں۔
تاریخ میں آج تک کوئی ایسا سوال اٹھا ہی نہیں جس کا جواب نہ ہو اور نہ ہی کوئی ایسا مسئلہ پیدا ہوا ہے جس کا حل نہ ہو۔ مگر مسئلہ کشمیر کے ساتھ یہ ہوا کہ اس مسئلے کو لے کر جو عسکری‘ سیاسی اور سفارتی محازوں پر گھمسان کا رَن پڑا ‘ اس میں اس مسئلے کا حل کہیں گم ہو گیا ہے۔ اور حل کے نام پر طرح طرح کے بیانیے سامنے آ گئے ہیں جن کو زبردستی دوسروں پر تھوپنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس سوال کا ٹھیک ٹھیک جواب دینے سے پہلے کہ مسئلہ کشمیر کا حل کیا ہے‘ یہ جاننا ضروری ہے کہ مسئلہ کشمیر ہے کیا؟ مسئلہ کشمیر کی شکل و صورت اس وقت اس ہاتھی کی طرح ہے جو اندھوں کے ایک گروہ کے ہاتھ لگ گیا تھا۔ جس اندھے کا ہاتھ ہاتھی کے جس اعضا پر پڑا اس نے اسی کو ہاتھی سمجھ لیا۔ یہی صورت اس وقت مسئلہ کشمیر کی ہے‘ جس فریق کو مسئلے سے دلچسپی ہے وہ اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق اس مسئلے کو سمجھتا ہے اور اپنی سمجھ کے مطابق اس مسئلے کا حل پیش کرتا ہے۔ چنانچہ اس وقت مسئلہ کشمیر کے درجنوں حل پیش کیے جا رہے ہیں۔ شاید ان میں سے بیشتر حل ایسے ہیں جن کو حل سے زیادہ خواہشات کا ملغوبہ کہا جا سکتا ہے۔ کچھ حل ایسے ہیں جو حل کی شکل میں کئی نئے مسائل پیدا کرنے کا فارمولہ ہیں۔ کئی ایسے ہیں جن کو زیرِ بحث لانا وقت ضائع کرنے والی بات ہے۔ اس کے باوجود کئی ایسے حل ہیں جن پر غور و فکر اور بحث و مباحثے کی ضرورت ہے۔ چنانچہ ہم یہاں درجنوں فارمولے اور بیانیے ایک طرف رکھتے ہوئے صرف کچھ ایسے معروف اور اہم ترین فارمولوں پر بات کریں گے جو مقبولِ عام ہیں یا جن کو عوام اور حکمران اشرافیہ کی قابلِ لحاظ تعداد کی حمایت حاصل ہے۔
پاکستان سے شروع کیا جائے تو پاکستان میں مسئلہ کشمیر کا جو حل سب سے زیادہ زیر بحث آتا ہے یا مقبولِ عام ہے‘ وہی مسئلہ کشمیر پر پاکستان کا سرکاری موقف ہے۔ اس حل پر پاکستان کے اندر کافی حد تک اتفاقِ رائے پایا جاتا ہے۔ پاکستان کی ہیئت مقتدرہ اور بیشتر سیاسی جماعتیں اس حل پر متفق نظر آتی ہیں۔ اس حل کا لب لباب یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر دراصل کشمیری عوام کے حقِ خود ارادیت کا مسئلہ ہے اور اس کا حل یہ ہے کہ کشمیری عوام کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کیلئے اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں رائے شماری کرائی جائے‘ جس کے ذریعے کشمیری عوام یہ طے کریں کہ وہ پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا بھارت کے ساتھ؟ یہ حل دراصل اس بیانیے پر کھڑا ہے کہ کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت ہے‘ اس لیے اگر ان کو رائے شماری کا موقع دیا گیا تو وہ اپنا مستقبل پاکستان کے ساتھ وابستہ کر لیں گے۔ یہ پاکستان کی سرکاری پوزیشن ہے اور سرکاری حل ہے‘ جو 1947ء سے بار بار مختلف ملکی اور عالمی فورمز پر دہرایا جاتا ہے۔ یہ وزارتِ خارجہ کے مینوئل سے لے کر تمام سرکاری خط و کتابت اور دستاویزات میں نظر آتا ہے۔ گزشتہ ستر سالہ تاریخ میں پاکستان اپنے اس حل پر اصرارکرتا آیا ہے مگر مسئلہ کشمیر پر ہونے والی سفارت کاری کی تاریخ میں چند ایک ایسی مثالیں بھی ملتی ہیں جب پاکستان کے طاقتور حکمرانوں نے اس موقف سے ہٹ کر مسئلہ کشمیر کا حل نکالنے یا قبول کرنے کا عندیہ دیا۔ ان میں ایوب خان‘ذوالفقار علی بھٹو اور پرویز مشرف شامل ہیں۔ یہ تینوں پاکستان کے طاقتور ترین حکمران تھے اور وزارتِ خارجہ کے بلیو پرنٹ یا روڈ میپ سے ہٹ کر مسئلہ کشمیر پر بات کرنے یا اس کا حل نکالنے پر تیار تھے۔ تینوں نے مختلف اوقات میں مختلف فارمولے بھی پیش کیے لیکن ہر دور میں حالات و واقعات نے ایسا رخ اختیار کیا کہ یہ لوگ خواہش و کوشش کے باوجود کسی حل کی طرف نہ بڑھ سکے۔
ایوب خان کی اس خواہش کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ اس کی ایک مثال مئی 1964ء میں ان کی شیخ عبداللہ کے ساتھ بات چیت ہے۔ اس سرگرمی کا احوال نیو یارک ٹائمز کے27 مئی 1964ء کے شمارے میں پیش کیا گیا۔ نیو یارک ٹائمز نے لکھا کہ ''شیخ محمد عبداللہ نے راولپنڈی میں کہا ہے کہ ایوب خان اور پنڈت جواہر لال نہرو جون میں نئی دہلی میں ملاقات کریں گے‘ جہاں وہ کشمیر کے مسئلے کا تسلی بخش حل نکالنے کیلئے آپس میں بات چیت کریں گے‘‘۔ اخبار مزید لکھتا ہے کہ شیخ عبداللہ نے کہا کہ ایوب خان نے ان سے کہا ہے کہ وہ پنڈت نہرو سے ملیں گے اور اس کی تصدیق پاکستان کے مقتدر حلقوں نے بھی کی ہے۔ شیخ عبداللہ کو گزشتہ ماہ بھارت کے زیرانتظام کشمیر کی جیل سے رہا کیا گیا تھا۔ انہوں نے دو ہفتے نہرو کے ساتھ مسئلہ کشمیر پر بات چیت کی اور نہرو کی اشیر باد سے ایوب خان کو ملنے کے لیے پاکستان آئے ہیں۔ اس سے پہلے 24مئی کے شمارے میں نیو یارک ٹائمز نے لکھا کہ شیخ عبداللہ جو پاکستان سے ساز باز اور سازش کرنے کے الزام میں قیدتھے‘ کو بر صغیر کی دو قوموں کے درمیان ثالث بنا دیا گیا ہے۔ وہ کل راولپنڈی کی طرف پرواز کریں گے۔ وہ نہرو کی حمایت سے ایوب خان کو اس امید پر ملنے جا رہے ہیں کہ وہ ان سے مل کے وہ کچھ حاصل کر لیں گے جو حاصل کرنے میں اقوام متحدہ اور مغربی طاقتیں ناکام رہیں۔ اس ضمن میں اب تک اتنا حاصل کیا جا چکا ہے کہ ایوب خان نے شیخ عبداللہ کو پاکستان کے دورے کی دعوت دی ہے‘ اور وہ ان سے ملنے کیلئے بے تاب ہیں اور نہرو بھی انہیں یہ دورہ کرتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ صدرایوب کا ردعمل کیا ہوگا؟ غیر سرکاری رپورٹس کے مطابق نہرو اور شیخ عبداللہ نے کئی فارمولوں پر بحث کی ہے۔ ان میں پہلا فارمولہ یہ ہے کہ کشمیر کو ایک Condominium بنا دیا جائے‘ جس پر پاکستان اور بھارت کا مشترکہ کنٹرول ہو۔ دوسرا فارمولہ یہ ہے کہ پاکستان‘ بھارت اور کشمیر کی ایک کنفیڈریشن بنائی جائے۔ تیسرا فارمولہ یہ ہے کشمیر کو استصوابِ رائے کے آپشن کے ساتھ دس سال کیلئے اقوام متحدہ کی ٹرسٹی شپ میں دے دیا جائے۔ اس صورت حال پر بات کرتے ہوئے پنڈت نہرو نے بمبئی میں کہا ہے کہ ہم شیخ عبداللہ کی کوششوں کی حمایت کریں گے لیکن ایسا کرتے ہوئے ہمیں کشمیر کے بارے میں اپنے اصولوں کو بھی مد نظر رکھنا ہوگا‘‘۔ ان فارمولوں کا کیا بنا‘ اس کا احوال آئندہ کالم میں پیش کیا جائے گا۔