میں نے گزشتہ کالم میں عرض کیا تھا کہ پاکستان کا مسئلہ کشمیر کے حل کے بارے میں ایک سرکاری مؤقف ہے‘ جس کو وقتاً فوقتاً مختلف فورمز پر پیش کیا جاتا رہا ہے۔ اربابِ اختیار کی رائے میں اس مؤقف میں کسی قسم کی تبدیلی کی گنجائش نہیں ہے لیکن اس کے باوجود پاکستان کے بعض حکمرانوں نے اس مؤقف سے ہٹ کر اپنا الگ حل پیش کیا اور اس پر بھارت کے ساتھ گفت و شنید بھی کی۔ اس سلسلے میں مَیں نے ایوب خان اور ذوالفقار علی بھٹو کی مثالیں دی تھی۔ حالیہ تاریخ میں اس کی مثال صدر پرویز مشرف تھے۔ صدر پرویز مشرف کو کئی حوالوں سے پاکستان کا طاقتور ترین حکمران قرار دیا جا سکتا ہے۔ ایک ہی وقت میں وہ بااختیار صدرِ پاکستان بھی تھے اور مسلح افواج کے کمانڈر انچیف بھی۔ ایوب خان اور ذوالفقار علی بھٹو کی طرح انہوں نے بھی روایتی ڈگر سے ہٹ کر مسئلہ کشمیر کے لیے آؤٹ آف باکس حل تلاش کرنے کی کوشش کی۔ جس وقت انہوں نے کشمیر کے حل کا فارمولا پیش کیا‘ اس وقت وہ اپنے اقتدار کے عروج پر تھے اور انہیں پاکستان کے مقتدر حلقوں کی مکمل تائید و حمایت حاصل تھی۔ آگرہ سَمٹ صدر پرویز مشرف کی کشمیر پر سفارت کاری کا عروج تھا۔
14 تا 16 جولائی 2001ء کے درمیان ہونے والے دورۂ بھارت کے دوران صدر پرویز مشرف نے وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کے ساتھ پاکستان اور بھارت کے درمیان دیگر مسائل کے علاوہ مسئلہ کشمیر پر بھی بات چیت کی۔ بھارتی اخبار انڈین ایکسپریس نے اپنے 15جولائی 2001ء کے شمارے میں لکھا تھا کہ اس سمٹ میں صدر پرویز مشرف نے چار نکاتی فارمولے پر بات کی۔ اس فارمولے میں یہ تجویز کیا گیا کہ پاکستان اور بھارت مرحلہ وار کشمیر سے اپنی فوجیں نکالیں گے۔ جموں و کشمیر کے لوگوں کو پوری ریاست میں آزادانہ نقل و حرکت کی آزادی ہو گی۔ ان کو سیلف گورننس دی جائے گی۔ پاکستان اور بھارت کی مشترکہ نگرانی کے لیے میکانزم قائم کیا جائے گا۔ یہ فارمولا اچانک پیش نہیں ہوا تھا بلکہ اس کے پس منظر میں بہت زیادہ کام کیا گیا تھا۔ اس سلسلے میں پاکستان کے درجنوں دانشوروں اور صحافیوں نے دورۂ کشمیر کے ذریعے کشمیر کے اندر پائی جانے والی رائے عامہ اور خیالات کا جائزہ لیا تھا۔ اس کے متوازی صدر پرویز مشرف نے بذاتِ خود خفیہ معلومات کے تمام ذرائع کو بروئے کار لا کر یہ معلوم کرنے کی کوشش کی تھی کہ کشمیری عوام مسئلہ کشمیر کا کس قسم کا حل قبول کر سکتے ہیں۔ آگرہ سمٹ میں اگرچہ بھارت نے اس فارمولے پر کوئی زیادہ گرمجوشی نہیں دکھائی بلکہ بھارت نے اس بات پر ناراضی کا اظہار کیا کہ صدر پرویز مشرف نے کشمیری رہنماؤں سے ملاقات کیوں کی۔ دوسری طرف خود ملاقات کرنے والے کشمیری لیڈر بھی صدر مشرف کی باتوں سے سخت ناخوش اور ناراض ہوئے کیوں کہ صدر مشرف نے انہیں روایتی مؤقف سے ہٹ کر نئے حل کی طرف بڑھنے کی تاکید کی‘ جو انہیں پسند نہیں آئی۔
صدر پرویز مشرف دور کے وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے اپنی کتاب ''Neither a Hawk Nor a Dove‘‘ میں لکھا ہے کہ آگرہ سمٹ میں تاریخ کا ایک اہم ترین موقع کھو دیا گیا۔ اکثر دانشوروں کا خیال تھا کہ مشرف اور واجپائی مسئلہ کشمیر حل کرنے کے قریب پہنچ چکے تھے۔ بس رسمی کارروائی باقی تھی۔ دی یورشین ٹائمز نے اپنے پانچ اپریل 2001ء کے شمارے میں مشرف فارمولا کو یاد کرتے ہوئے ایک تفصیلی آرٹیکل میں لکھا تھا کہ پاکستان کے وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے تصدیق کی کہ کشمیر کا حل دونوں حکومتوں کی گرفت میں تھا۔ دونوں حکومتیں اس وقت کے صدر پرویز مشرف کی طرف سے تجویز کردہ چار نکاتی حل نامی معاہدے پر کام کر رہی تھیں۔ یہ حل مبینہ طور پر وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کے لیے قابلِ قبول تھا لیکن دستخط کی تقریب سے چند گھنٹے قبل اس میں رکاوٹ پیدا ہو گئی۔ اخبار لکھتا ہے کہ خورشید محمود قصوری نے ایک انگریزی معاصر کے ایک مضمون میں چار نکاتی حل کے بارے میں بہت زیادہ زیر بحث آنے والے اہم نکات کی تفصیلات بتاتے ہوئے لکھا کہ دونوں ممالک کے درمیان صورتحال اس قدر ڈرامائی طور پر بہتر ہوگئی تھی کہ وہ ممکنہ معاہدے کا فریم ورک تیار کرنے میں بھی کامیاب ہو گئے تھے۔ صدر مشرف کے منصوبے کا بنیادی تصور یہ تھا کہ دیرپا امن کے لیے دونوں ممالک کی فوجیں کشمیر سے نکلیں اوراس پر عمل درآمد کیسے ہونا ہے‘ اس کا فیصلہ دونوں ممالک باہمی رضامندی سے کریں گے۔ دوم ''کشمیر کی دو اکائیوں‘‘ کی تجویز تھی جو پاکستان اور ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر پر مشتمل ہوں گی۔ تیسرا نکتہ دونوں اکائیوں کو قانون سازی‘ ایگزیکٹو اور عدالتی شعبوں میں زیادہ سے زیادہ خود مختاری دینے پر مرکوز تھا۔ اگلی شق میں دونوں ملکوں کے درمیان ایک مشترکہ میکانزم کے قیام کی تجویز تھی جس میں دونوں اکائیوں میں سے ہر ایک اکائی منتخب اراکین کی ایک مخصوص تعداد پر مشتمل ہو گی‘ جو ان کی متعلقہ حکومتوں کے ذریعے نامزد کیے جائیں گے۔ اگلی شق متعلقہ اکائیوں میں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے انعقاد پر مرکوز تھی‘ جسے بین الاقوامی مبصرین اور میڈیا کی مانیٹرنگ کے لیے کھول دیا جانا تھا۔ اس طرح یہ ایک مرحلہ وار پروگرام تھا جو کشمیر سے فوجوں کے انخلا سے شروع ہو کر کشمیریوں کی نیم خود مختار جمہوری اکائیوں کے قیام پر منتج ہونا تھا۔ یہ مسئلہ کشمیر کا کوئی فوری یا جادوئی حل نہیں تھا بلکہ حل کی طرف ایک پہلا بڑا قدم تھا جس سے قیامِ امن اور فوجوں کا انخلا ممکن تھا۔
ایک اہم تجویز ایل او سی کے آر پار غیر محدود سفر کی تھی جسے صرف نقشے پر ایک لکیر تک محدود کر دیا جانا تھا‘ جس سے کشمیریوں کو دونوں یونٹوں میں بغیر ویزے یا پاسپورٹ کے سفر کرنے کی اجازت دی جاتی۔ اس معاہدے کو جرمنی اور فرانس کے درمیان ایلیسی معاہدے کے خطوط پر مرتب کرنے کی کوشش کی گئی تھی جس نے امن‘ سلامتی اور دوستی کو آگے بڑھایا تھا۔ قصوری لکھتے ہیں ''سب سے اہم بات ایک غیر تحریری سمجھوتا تھا کہ کوئی بھی فریق اس معاہدے پر اپنی فتح کا اعلان نہیں کرے گا کیونکہ یہ محسوس کیا گیا تھا کہ دونوں طرف کے سخت گیر عناصر اس فریم ورک میں اختلاف کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی بہانہ یا نکتہ تلاش کریں گے۔ آخر میں معاہدے میں دونوں اکائیوں میں مساوی خود مختاری کے قیام پر زور دیا گیا‘‘۔ قصوری لکھتے ہیں کہ انہوں نے معاہدے کے بارے میں عام احساس کا اندازہ لگانے کے لیے مقامی اور باہر رہنے والے کشمیریوں کی رائے لی تھی۔ یہ کہنا مناسب ہو گا کہ سید علی شاہ گیلانی کے علاوہ زیادہ تر اس کے حامی تھے۔ انہوں نے مزید لکھا کہ ''خوش قسمتی سے دیگر کشمیری رہنماؤں سے‘ جن سے میں نے ملاقات کی‘ انہوں نے کشمیریوں کی صفوں میں اتحاد کی ضرورت کو تسلیم کیا۔ وہ زیادہ عملی تھے اور بڑے پیمانے پر علی گیلانی کے سخت رویے کے ساتھ چلنے کو تیار نہیں تھے‘‘۔
حالیہ برسوں میں اس پرانے فارمولے کی کافی توصیف ہوئی۔ کئی برس گزرنے کے بعد یو ایس انسٹیٹیوٹ آف پیس کی ایک حالیہ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ صدر پرویز مشرف کا تجویز کردہ چار نکاتی فارمولا مسئلہ کشمیر کا بہترین دستیاب حل ہے۔ اس فارمولے کو کشمیری قیادت نے بھی وسیع پیمانے پر قبول کیا ہے جو کہ متنازع خطے میں امن کے حصول کے لیے ایک ممکنہ حل ہے۔ واشنگٹن پوسٹ نے بھی حالیہ سیز فائر کے تناظر میں اس فارمولے کی کافی تعریف کی۔ تمام تر تعریف و توصیف کے باوجود یہ فارمولا آگے نہ بڑھ سکا۔ آگے حالات نے کیا رُخ اختیار کیا اس کا احوال آئندہ کسی کالم میں پیش کیا جائے گا۔