جمہوریت ہمارے دور کی ایک شہکار دریافت ہے۔ یہ نظامِ حکومت مکمل اور آئیڈیل نہیں ہے۔ اس بات پر لیکن بڑے پیمانے پر اتفاق ہے کہ جس دنیا میں ہم رہتے ہیں‘ اس میں جمہوریت ایک ایسا طرزِ حکمرانی ہے جس کے ذریعے عام آدمی یعنی لاکھوں کروڑوں انسان اپنی آواز ایوانوں تک پہنچا سکتے ہیں۔ اپنی آواز ایوانوں تک پہنچانے کا یہ طریقہ سیاسی نمائندگی کہلاتا ہے۔ اس سیاسی نمائندگی کے اصول کے تحت عام آدمی حقِ رائے دہی کے ذریعے اپنی مرضی کا نمائندہ منتخب کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ عام طور پر یہ باور کیا جاتا ہے کہ وہ منتخب نمائندہ اپنے ووٹرز کی ایوانِ اقتدار یا پارلیمنٹ میں نمائندگی کرے گا۔ اگرچہ دانش وروں کی ایک بڑی تعداد اس سے اتفاق نہیں کرتی۔ ان دانش وروں کا خیال ہے کہ ہماری طرح کے طبقاتی سماج میں سیاسی نمائندے بظاہر منتخب تو عوام کے ووٹوں سے ہوتے ہیں لیکن حقیقت میں وہ ایوانوں میں جا کر عام آدمی کے بجائے با اثر اور بالا دست طبقات کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہمارے سماج میں عام آدمی اس پوزیشن میں ہوتا ہی نہیں ہے کہ وہ اپنے ووٹ کا آزادانہ استعمال کر سکے۔ اس کی ایک وجہ طبقاتی تقسیم ہے۔ عام آدمی جس سطح کی بھوک‘ ننگ اور تنگ دستی کا شکار ہوتا ہے‘ وہ اس قابل ہی نہیں رہتا کہ آزادانہ طریقے سے ووٹ کا استعمال کر سکے۔ دوسرا ہمارے ہاں خواندگی اور علم و شعور کی کمی کی وجہ سے عام آدمی کے لیے یہ طے کرنا ممکن نہیں ہے کہ کون سی پارٹی یا امیدوار اس کے مفادات کی سچی ترجمانی کر سکتا ہے۔ دولت کا استعمال ایک ایسا عنصر ہے جو پورے انتخابی عمل کو ہی بے معنی بنا دیتا ہے۔ دولت کے استعمال سے ووٹ خریدنا تو ایک سادہ سا عمل ہے‘ اس کی کئی دوسری پیچیدہ شکلیں ہیں جن میں دولت کے ذریعے ووٹ اور حقِ رائے دہی پر اثر انداز ہوا جاتا ہے۔ اس میں انتخابی مہم کے دوران کروڑوں عربوں کے اخراجات سے رائے عامہ پر اثر انداز ہونے سے لے کر سیاسی پارٹیوں کی طرف سے دولت مند امیدواروں کو میدان میں لانے کی پالیسی بھی شامل ہے۔ اس طرح جو شخص منتخب ہو کر سامنے آتا ہے‘ اسے بے شک عام آدمی نے ووٹ دیا ہو یا انتخابی عمل کے دوران اس سے انٹر ایکشن کا موقع میسر آیا ہو‘ منتخب ہونے کے بعد یہ شخص اس عام ووٹر کے لیے ایک اجنبی شخص بن جاتا ہے کیونکہ پھر وہ بااثر گروہوں اور طبقات کا حصہ بن کر رہ جاتا ہے۔
یہ جمہوریت کی خامیاں‘ کمزوریاں اور مجبوریاں ہیں جو پسماندہ اور غریب معاشروں میں زیادہ نمایاں ہیں۔ ان کمزوریوں کی موجودگی کی کئی وجوہات ہوتی ہیں۔ ان میں قانون کی حکمرانی کا نہ ہونا‘ کرپٹ اور بد عنوان سوسائٹی‘ غربت اور بد حالی وغیرہ شامل ہیں‘ جہاں لوگوں کی غربت اور بے بسی سے فائدہ اٹھانے کے لیے ساز گار ماحول مہیا ہوتا ہے۔ لیکن جوں جوں جمہوریت مستحکم ہوتی جاتی ہے‘ اس طرح کے مسائل اور کمزریوں پر قابو پانا آسان ہوتا جاتا ہے۔ ایسے قوانین بنائے جاتے ہیں جن کی موجودگی میں امیدوار انتخابی مہم کے دوران ایک مقررہ حد سے زائد دولت خرچ نہیں کر سکتا۔ پھر قانون کی حکمرانی مضبوط ہوتی ہے تاکہ اس طرح کے قوانین صرف کاغذوں کی حد تک محدود نہ رہیں‘ بلکہ عملی میدان میں بھی ان پر سختی سے عمل کیا جائے۔ لیکن اس کے لیے جمہوری کلچر اور جمہوری روایات کا موجود اور مضبوط ہونا ضروری ہے جو جمہوریت کے تسلسل سے ہی ممکن ہے۔ کینیڈا جیسے ملکوں میں اس طرح کے قوانین پر عملدآرمد کی کوشش ہوتی رہتی ہیں۔ ان ممالک میں ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں جب امیدواروں پر مقررہ حد سے زیادہ پیسے خرچ کرنے کے الزامات لگے اور ان کے خلاف مقدمات چلائے گئے۔ ظاہر ہے اس کے لیے خواندگی اور شعور کا ایک خاص سطح پر پہنچنا بھی ضروری ہے جہاں پہنچ کر رائے عامہ اتنی حساس اور ذمہ دار ہو جاتی ہے کہ وہ امیدواروں کی طرف سے کسی قسم کی بے ضابطگی یا کسی قانون کی خلاف ورزی پر ان کے خلاف سخت ردِ عمل دیتی ہے۔ اس طرح کے الزامات لگنے کے بعد امیدوار کا سیاسی کیریئر تباہ ہو جاتا ہے۔ یہ ایک مثالی صورتحال ہے جس کے لیے ایک حساس اور باشعور معاشرہ لازم ہے۔ ہمارے ہاں مجموعی علم و شعور اور عام آدمی کے سیاسی شعور کی جو سطح ہے اس سے فائدہ اٹھا کر بیشتر سیاست دان پارٹی ٹکٹ سے لے کر انتخابی عمل کے اخراجات تک‘ ہر جگہ دولت کا بے تحاشا استعمال کر کے الیکشن کو آسانی سے مینیپولیٹ کر لیتے ہیں۔ اس طرح ہمارے ہاں آج جو سیاسی کلچر موجود ہے‘ اس میں عام آدمی انتخابی یا جمہوری عمل میں کسی قسم کا فیصلہ کن کردار ادا کرنے سے قاصر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیاست اور قیادت ہر حلقے میں چند امیر خاندانوں کا پیشہ بنتا جا رہا ہے‘ جس میں عام آدمی بے وقعت ووٹر یا پھر خاموش تماشائی ہے۔ یہ جمہوریت سے جڑی وہ کمزوریاں ہیں جو زبان زدِ عام ہیں اور ہمارے ہاں ہر فورم پر ان کا ذکر ہوتا رہتا ہے۔
بدقسمتی سے لیکن ہمارے ہاں جمہوریت سے جڑی ایسی کمزوریاں بھی موجود ہیں جن کا عام آدمی تو کیا بڑے بڑے دانش وروں اور سیاسی تجزیہ کاروں کو بھی علم نہیں ہوتا۔ اس کی ایک مثال آزاد کشمیر اسمبلی ہے۔ آزاد کشمیر اسمبلی میں‘ جس کو قانون ساز اسمبلی کہا جاتا ہے‘ کل 53سیٹیں ہیں جن میں سے بارہ سیٹیں مہاجرینِ جموں و کشمیر حال مقیم پاکستان کے لیے ہیں۔ ان سیٹوں کا مطلب یہ ہے کہ تقسیمِ کشمیر کے وقت جو لوگ مقبوضہ جموں و کشمیر سے ہجرت کر کے پاکستان میں آباد ہوئے‘ ان کو آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی میں نمائندگی دی جائے۔ یہ لوگ پاکستان کے چھوٹے بڑے شہروں‘ قصبوں اور دیہات میں آکر آباد ہوئے۔ اگرچہ ان کے بڑے مراکز لاہور‘ کراچی‘ راولپنڈی‘ گوجرانوالہ‘ سیالکوٹ‘ کوئٹہ اور پشاور ہیں لیکن حلقہ بندی کے اعتبار سے ان کے حلقے میں پورا پاکستان شامل ہے۔ یعنی یہ لوگ پاکستان کے کسی کونے میں بھی آباد ہوں‘ انتخابات کے وقت اپنے حلقے کے امیدوار کو ووٹ دے کر آزاد کشمیر اسمبلی کا ممبر بنا کر اقتدار کے ایوانوں میں بھیج دیتے ہیں۔ اس سلسلۂ عمل میں یہ مہاجرینِ جموں و کشمیر کی تیسری اور چوتھی نسل ہے جو مستقل طور پر پاکستان میں آباد ہو چکی ہے۔ وہ نسل در نسل پاکستان میں کاروبار کر رہے ہیں۔ ان میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جنہوں نے مقبوضہ جموں و کشمیر یا آزاد کشمیر کی سر زمین پر کبھی قدم نہیں رکھا۔ وہ اس خطے کی سیاست‘ تاریخ اور جغرافیہ کے بارے میں کچھ نہیں جانتے‘ لیکن وہ ہر پانچ سال بعداس خطے میں قانون سازی کے لیے بارہ نمائندے منتخب کرتے ہیں جو مظفرآباد میں بیٹھ کر آزاد کشمیر کے لوگوں کے لیے قانون بناتے ہیں۔ مزید ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ اس قانون کا اطلاق خود ان لوگوں پر نہیں ہوتا۔ وہ حکومتِ آزاد کشمیر کو ٹیکس نہیں دیتے اور نہ ہی آزاد کشمیر حکومت کا کوئی فیصلہ ان پر اثر انداز ہوتا ہے۔ وہ جو قانون سازی کرتے ہیں اس کا اطلاق صرف آزاد کشمیر کے لوگوں پر ہوتا ہے۔ جو لوگ 1947ء میں مقبوضہ جموں و کشمیر سے آکر پاکستان کے مختلف شہروں اور قصبوں میں آباد ہوئے تھے‘ ان کی تیسری نسل کو مہاجرین کی کسی تعریف کے مطابق مہاجر نہیں قرار دیا جا سکتا۔ اور اس استحقاق کی بنیاد پر وہ کسی ایسے علاقے کے لیے قانون سازی نہیں کر سکتے جس کا خود ان پر اطلاق نہیں ہوتا۔ یہ عمل جمہوریت اور سیاسی نمائندگی کے تمام بین الاقوامی اور اخلاقی ضابطوں سے متصادم ہے لیکن گزشتہ سات دہائیوں سے یہ انوکھی نمائندگی جاری ہے۔