میرے سامنے ایک عالیشان عمارت کی تصویر ہے۔ یہ ایک ہائی سکول ہے۔سکول کی یہ عمارت جدید دور کے طرزِ تعمیر کے مطابق بنائی گئی ہے جو عموماً آزاد کشمیر میں سرکاری سکولوں کی تعمیر کے لیے مروج ہے۔ تصویر کے پس منظر میں دکھائی دینے والے سحر انگیز مناظر اس تصویر کی خوبصورتی کو دو بالا کر دیتے ہیں۔ حدِ نگاہ تک سرسبز درختوں سے ڈھکے ہوئے پہاڑ ایک طلسماتی منظر پیش کرتے ہیں‘ جو کشمیر کا خاصا ہیں اور اس خطے کی خوبصورتی کی شہرت کا باعث ہیں۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی اس خوبصورت عمارت کی اُٹھان ایک کھنڈر نما عمارت پر ہوئی ہے۔ یہ کھنڈر نما عمارت ہمارا پہلا باقاعدہ پرائمری اور پھر مڈل سکول تھا۔ یہ تصویر کسی نے سوشل میڈیا پر شیئر کی۔ شیئر کرنے والے نے بڑے دکھ اور افسوس سے لکھا کہ اسے اس طرح کی کسی عالیشان عمارت میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع نہیں ملا۔ اس کے بجائے میں نے دو کمروں پر مشتمل ایک سکول میں تعلیم حاصل کی تھی‘ جو مٹی اور گارے سے بنا ہوا تھا۔ بچے ٹاٹ پر بیٹھتے تھے۔ فرنیچر کے نام پر دو کرسیاں تھیں جو اساتذہ کے لیے مختص تھیں اور طالب علموں کے لیے کرسی پر بیٹھنا کسی سنگین جرم سے کم نہ تھا۔
مجھے اُس شخص کے تاثرات جان کر افسوس ہوا‘ لیکن شاید وہ شخص یہ نہیں جانتا کہ سکول کی یہ عالیشان عمارت جس کھنڈر نما پرانی عمارت کو گرا کر تعمیر ہوئی‘ اس میں بھی صورتحال اس سے مختلف نہیں تھی جو اُس شخص نے اپنے سکول کی بیان کی۔ یہ سکول بھی مٹی اور گارے سے بنا تھا اور اس میں طلبہ کے لیے دریاں اور ٹاٹ بھی نہیں تھے لیکن ہم اس سکول کو کسی طرح بھی تاج محل سے کم نہیں سمجھتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ہم اس سکول میں دوسری جماعت میں پہنچے تھے۔ پہلی جماعت میں ہم نے جس سکول سے اپنی تعلیم کی شروعات کی تھی وہ ایک مسجد کے صحن میں قائم تھا۔ سکول کی ساری کارروائی مسجد کے برآمدے سے باہر ایک چھوٹے سے ناہموار میدان میں ہوتی تھی‘ جسے ہم مقامی پہاڑی زبان میں بیڑا کہتے ہیں۔ یہاں ہم بڑے آرام سے زمین پر چوکڑی مار کر بیٹھتے تھے اور اپنا سبق با آواز بلند پڑھتے تھے۔ فرنیچر کے نام پر یہاں بھی صرف ایک کرسی تھی جو سکول کے اکلوتے استاد کی آمد پر نکالی جاتی تھی اور ان کے جانے کے بعد کسی متبرک چیز کی طرح واپس رکھ دی جاتی تھی۔ یہاں کسی ٹاٹ‘ دری یا سر پر چھت کا کوئی تصور نہیں تھا؛ البتہ شدید بارش کی صورت میں ہم لوگ مسجد کے برآمدے میں پناہ لیتے تھے۔ ان حالات میں جب ہم اس ''اوپن ایئر‘‘ سکول سے نکل کر باقاعدہ سکول میں پہنچے‘ جو مٹی اور گارے سے بنا ہوا تھا‘ تاہم کم از کم اس کی چار دیواری تو تھی‘ اس لیے ہم نے اسے اپنے لیے ایک اثاثہ سمجھا اور فرنیچر کی جگہ ٹاٹوں کی موجودگی کو نظرانداز کر دیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ اس سکول میں کئی تبدیلیاں آئیں۔ ٹاٹ اور دریوں کی جگہ لکڑی کے بینچ آ گئے۔ اور جب تک ہم لوگ مڈل پاس کر کے آگے گئے‘ اس وقت تک مٹی اور گارے کی کچھ دیواروں کی جگہ پتھر اور سیمنٹ کی دیواریں بن چکی تھیں اور چھت پر ٹِن کی چادریں لگ گئی تھیں جس سے سکول کی چھت ٹپکنا بند ہو گئی تھی۔ اس کے بعد اس جگہ وہ عالیشان عمارت تعمیر ہو گئی جس کی تصاویر ٹاٹ پر بیٹھ کر پڑھنے والے طالب علم نے شیئر کیں۔
یہ بات جو ہم کر رہے ہیں‘ زمانہ قدیم کی نہیں‘ البتہ اب نصف صدی بیت چکی ہے۔ اس کے باوجود حالات میں کوئی بہت بڑی تبدیلی نہیں آئی۔ ہمارا سکول تو ترقی کرتے کرتے ایک عالیشان عمارت میں ڈھل چکا ہے لیکن آج بھی کئی ایسے سکول ہیں جو نصف صدی پہلے کی غربت اور تنگدستی کی یاد دلاتے ہیں۔ آئے دن سوشل میڈیا پر شیئر ہونے والی تصاویر میں ہم ایسے کئی سکول دیکھتے ہیں جہاں بچے‘ بچیاں ایک کمرے کے بے در و دیوار سکولوں کے اندر اور ان کے باہر زمین پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ لاکھوں بچوں کی مفلسی کا یہ عالم ہے کہ وہ ان مٹی اور گارے کے سکولوں میں بھی نہیں جا پاتے اور ان کا بچپن بغیر کسی سکول کے آوارہ گردی کرتے یا محنت مزدوری میں گزر جاتا ہے۔ ابھی حال ہی میں اہلِ حَکم نے اس حقیقت کو تسلیم کیا کہ ہمارے ہاں تقریباً اڑھائی کروڑ سے زیادہ بچے سرے سے سکول جاتے ہی نہیں۔ اس کے لیے انہوں نے ''تعلیمی ایمرجنسی‘‘ کی بات بھی کی۔ عالمی اداروں سے گفت و شنید بھی کی گئی جو اس باب میں ہم سے زیادہ فکر مند ہیں۔ بلکہ یہ ان کی فکر مندی ہی کا اعجاز ہے کہ حکمران اشرافیہ اس موضوع پر لب کشائی کی زحمت گوارا کر رہی ہے‘ ورنہ یہ چیزیں تو ان کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہوتیں۔ یہاں سکولوں کے در و دیوار یا ٹاٹ؍ دری کے بارے میں کوئی پریشان نہیں ہوتا‘ نہ ان کروڑوں بچوں کا کسی کو غم ہے جو سکولوں سے باہر ہیں۔
دوسری طرف حکمران اشرافیہ ہمہ وقت اپنی مراعات اور معیارِ زندگی کے بارے میں فکر مند رہتی ہے۔ حال ہی میں ایوانِ صدر اور وزیراعظم ہاؤس کے اخراجات میں اربوں روپے کے اضافے کے اعلانات اسی فکر مندی کا شاخسانہ ہیں۔ ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ 50 سال پہلے بھی حکمران طبقات کی ترجیحات میں تعلیم نہیں بلکہ اپنی مراعات میں اضافہ شامل تھا۔ اس وقت کی حکمران اشرافیہ کا دعویٰ تھا کہ انہوں نے ملک کو سپین اور پرتگال کے برابر لا کھڑا کر دیا ہے۔ ملک میں معاشی انقلاب آچکا ہے۔ دولت کی ریل پیل ہے مگر حقیقت میں یہ ریل پیل چند خاندانوں اور ایک محدود طبقے کے لیے تھی جس کے خلاف عوام نے عَلمِ بغاوت بلند کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔ جن برسوں میں مَیں نے زمین پر چوکڑی مار کر سبق پڑھنا شروع کیا وہ بغاوت اور انقلاب کے سال تھے۔ ساٹھ کی دہائی کے آخری دو‘ تین سال ایوب آمریت کے خلاف غم و غصے کے اظہار کے سال تھے۔ تقریباً ڈیڑھ کروڑ سے زائد لوگوں نے ایوب خان کی آمریت کے خلاف اعلانِ بغاوت کیا تھا جن میں مزدور‘ کسان اور ٹریڈ یونینز والے شامل تھے۔ اس تحریک میں طلبہ نے ہراول دستے کا کردار ادا کیا۔ ممتاز ماہرِ معاشیات ڈاکٹر محبوب الحق اُس وقت پلاننگ کمیشن کے چیف اکانومسٹ تھے‘ انہوں نے انکشاف کیا کہ ملک میں 22 امیر ترین خاندانوں کا راج ہے۔ یہ لوگ ملک کی 66 فیصد صنعتوں کے مالک تھے۔ ملک کی بینکنگ اور انشورنس انڈسٹری میں ان کا شیئر 87 فیصد تھا۔ یہ لوگ ملک کا سارا بجٹ اور تمام پالیسیاں کنٹرول کرتے تھے۔ یہی اس بات کا تعین کرتے تھے کہ ملک کی معاشی پالیسی کیا ہو گی اور تعلیم پر کتنے پیسے خرچ ہوں گے۔ محبوب الحق کے انکشافات نے حکمران اشرافیہ کو ہلا کر رکھ دیا۔ ان کے صنعتی ترقی کے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ ملک میں اگر کوئی ترقی ہوئی بھی تو اس کا فائدہ ایک چھوٹے سے طبقے اور ان کے قریبی لوگوں نے ہی اٹھایا۔ عام آدمی پہلے کی طرح غربت اور پسماندگی کا شکار رہا۔ ہر دور میں حکمران اشرافیہ اپنی خوشحالی ہی کو ملکی ترقی سمجھتی رہی۔ آج بھی صورتحال کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے۔ اس کا احوال پھر کبھی سہی۔