"FBC" (space) message & send to 7575

آمریت کے بطن سے جمہوریت کا جنم

گزشتہ دنوں میں نے انہی سطور میں عرض کیا تھا کہ موجودہ حکمرانوں کو تقریباً وہی مسائل در پیش ہیں جو نصف صدی پہلے کے حکمرانوں کو در پیش تھے‘ مگر وہ اپنے پیشروؤں کی ناکامیوں سے سبق نہیں سیکھتے۔ میں نے اس تناظر میں ایوب خان کی ناکامیوں کا ذکر کیا تھا۔ ان ناکامیوں کے ساتھ ایوب خان کے کچھ کارنامے بھی ہیں جن کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ان کارناموں میں آزاد کشمیر میں پہلی منتخب حکومت کا قیام بھی شامل ہے۔
چونکہ تاریخ میں ایوب خان کا نام اور مقام بطور آمر متعین ہو چکا ہے اس لیے بہت سے لوگ ان کو جمہوریت کی خدمت کا کریڈٹ نہیں دیتے‘ اور آزاد کشمیر میں پہلی منتخب اور جمہوری حکومت کے قیام کا سہرا کے ایچ خورشید کے سر باندھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ آزاد کشمیر میں ایک منتخب جمہوری حکومت کا خیال قائداعظم محمد علی جناح کے سیکرٹری کے ایچ خورشید کا تھا۔ ایوب خان نے 1959ء میں کے ایچ خورشید کو آزاد کشمیر کا صدر نامزد کیا تھا۔ قائداعظم کے سیکرٹری‘ پیروکار اور جمہوریت کے پُر جوش حامی کیلئے ایک آمر کی طرف سے نامزدگی قبول کرنے کا عمل ناقابلِ فہم اور وضاحت طلب تھا۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے یہ عہدہ فاطمہ جناح کے اصرار پر قبول کیا۔ یہ وہ دور تھا جب فاطمہ جناح ایوب حکومت کیلئے نرم گوشہ رکھتی تھیں۔ اسکندر مرزا اور فیروز خان نون حکومت کی نااہلی اور کرپشن کے مقابلے میں انہوں نے شروع میں ایوب حکومت کو خوش آمدید کہا تھا۔ کے ایچ خورشید پر ان کے بے شمار احسانات تھے۔ لندن میں ان کی اعلیٰ تعلیم کے اخراجات بھی مادرِ ملت نے اٹھائے تھے اور قائداعظم کے سیکرٹری کی حیثیت سے وہ انہیں گھر کے ایک فرد کی طرح دیکھتی تھیں۔ فاطمہ جناح کے اصرار کے باوجود جدید خیالات کے حامل ایک جمہوریت پسند سیاست کار کی حیثیت سے کے ایچ خورشید کے لیے ایوب خان کی نامزدگی قبول کرنا ناقابلِ فہم تھا۔ کے ایچ خورشید کو اس بات کا احساس تھا‘ اسی لیے آزاد کشمیر کے صدر کا عہدہ قبول کرنے کے فوراً بعد انہوں نے آزاد کشمیر میں ایک منتخب جمہوری حکومت کے قیام کیلئے کوششوں کا آغاز کر دیا‘ اور بی ڈی یعنی بنیادی جمہو ریتوں کے نظام کے تحت 1961ء میں پہلی جمہوری حکومت قائم کی اور اسی نظام کے تحت وہ آزاد کشمیر کے صدر منتخب ہوئے۔ مگر سیاسی دانشور اور تاریخ دان اس حکومت کو منتخب اور جمہوری ماننے کو تیار نہیں۔ اس کی ایک وجہ تو بی ڈی نظام تھا۔ نیز دانشوروں کے اس طبقے کا خیال ہے کہ بنیادی جمہوریت کے نظام کے تحت جمہوری حکومت کا قیام ایوب خان کی اس کھلی پالیسی کا حصہ تھا جس کے تحت وہ عوام کو اپنے نمائندوں کے براہِ راست انتخاب کے قابل نہیں سمجھتے تھے۔ اس کے بر عکس وہ بالواسطہ انتخاب کے قائل تھے جس میں گنے چنے لوگ ہی جمہوری عمل میں شرکت کر سکتے تھے‘ اور ان گنے چنے لوگوں کا حقِ رائے دہی نوکر شاہی کے کنٹرول میں تھا۔ پٹواریوں اور تحصیلداروں کے ذریعے ان لوگوں کے ووٹوں کو کنٹرول کیا جا سکتا تھا۔ اس پالیسی کو آگے چل کر ایوب خان نے خود اپنے صدارتی انتخاب کے لیے استعمال کیا اور بنیادی جمہوریت کے تحت منتخب ہونے والے نمائندوں کے ذریعے فاطمہ جناح کو شکست دے کر صدرِ پاکستان بن گئے۔
اس حکومت کو منتخب اور جمہوری نہ ماننے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ سیاستدانوں کو جمہوری عمل سے باہر رکھنے کی پالیسی پر عمل کیا جا رہا تھا۔ سردار ابراہیم جیسے مقبول رہنما پابندِ سلاسل تھے‘ اور انتخابی عمل میں ان کو شرکت کی اجازت نہیں تھی۔ اس کے باوجود آزاد کشمیر میں ایک جمہوری حکومت کے قیام کا کریڈٹ کے ایچ خورشید کو دیا جا سکتا ہے‘ لیکن اصل مسئلہ یہ تھا کہ ایوب خان نے بنیادی جمہوریت کے نام پر اصل جمہوریت کو بے دست و پا کر دیا تھا۔ ایک منتخب حکومت ہونے کے باوجود آزاد کشمیر میں آئین تک نہیں بنایا گیا اور منتخب حکومت کو رولز آف بزنس کے تحت چلایا جاتا رہا۔ آزاد کشمیر کی قانون ساز اسمبلی اور حکومت کے اختیارات کا تعین بھی واضح طور نہیں کیا گیا۔ اس کے باوجود کے ایچ خورشید نے پانچ سال تک آزاد کشمیر میں حکومت کی۔ وہ پانچ اگست 1964ء کو اس عہدے سے مستعفی ہوئے۔ بعض روایات کے مطابق ان سے استعفیٰ لیا گیا۔ آزاد کشمیر حکومت سے مستعفی یا دستبردار ہونے کی وجہ یہ بتائی گئی کہ ان کے مقتدرہ کے ساتھ اختلافات پیدا ہو گئے تھے۔ یہ اختلافات کوئی نئی بات نہیں تھی۔ کے ایچ خورشید کئی بار ان اختلافات کا اظہار آزاد کشمیر کا صدر بننے سے پہلے بھی کر چکے تھے۔ ان کو آزاد کشمیر حکومت کی ہیئت ترکیبی‘ اس کے اختیارات اور قانونی حیثیت پر شدید اعتراض تھا۔ ان کے مؤقف کو سمجھنے کے لیے ان کے پس منظر پر ایک نظر ڈالنا ضروری ہے۔ ان کی سیاست‘ خیالات اور نظریات کا قائداعظم محمد علی جناح سے بہت قریبی تعلق تھا۔
قائداعظم سے کے ایچ خورشید کی ملاقات 1944ء میں سرینگر میں ہوئی تھی اور وہ اس وقت سرینگر میں اورینٹ پریس کے نمائندے کے طور پر کام کرتے تھے۔ اس ملاقات میں قائداعظم نے ان کو اپنے سٹاف میں شامل کیا اور آگے چل کر وہ قائداعظم کے پرائیویٹ سیکرٹری بن گئے اور 1948ء تک اس حیثیت میں قائداعظم کے ساتھ کام کرتے رہے۔ اس سے پہلے وہ کشمیر کی سیاست میں ایک متحرک طالب علم رہنما کے طور پر سرگرم رہے تھے‘ اور برصغیر کی تقسیم اور کشمیر کی سیاست پر قائداعظم کی پالیسی اور نظریات سے اتفاق رکھتے تھے۔ قائداعظم نے کشمیر کے مستقبل کے حوالے سے دو بار اُن کو کشمیر بھیجا۔ پہلی بار 1947ء کے موسمِ گرما میں‘ جب انہوں نے کشمیر کے مستقبل کے حوالے سے مختلف لوگوں سے ملاقاتیں کیں‘ اور دوسری بار اسی سال اکتوبر میں ان کو کشمیر بھیجا گیا۔ کشمیر سے انہوں نے رپورٹ دی کہ مہاراجہ ہری سنگھ کسی صورت پاکستان سے الحاق کیلئے تیار نہیں ہے‘ اور تجویز دی کہ پاکستان قبائلیوں کے ذریعے کشمیر میں مسلح کارروائی کرے۔ اس دورے کے دوران ان کو سرینگر میں گرفتار کر لیا گیا اور بعد میں قیدیوں کے تبادلے کے نتیجے میں رہا کیا گیا۔ واپسی کے بعد بھی وہ کسی نہ کسی شکل میں کشمیر کی سیاست کے ساتھ وابستہ رہے۔
قائداعظم کی وفات کے بعد کشمیر کے پالیسی ساز حلقوں میں ان کی پذیرائی اور اثرو رسوخ ختم ہو گیا۔ اگلے دس سال انہوں نے روایتی کشمیر پالیسی سے عدم اطمینان کا اظہار کیا اور یہ مؤقف اختیار کیا کہ مسئلہ کشمیر کا حل آزاد کشمیر میں با اختیار حکومت کے قیام کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ آزاد کشمیر کا صدر بننے کے بعد انہوں نے اپنی الگ جماعت تشکیل دی اور آزاد کشمیر حکومت کو تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا۔ اس پس منظر میں مقتدرہ کے ساتھ ان کے تعلقات میں دراڑ پیدا ہوئی جو آگے چل کر ان کی حکومت کے خاتمے کا باعث بنی۔ آزاد کشمیر حکومت سے فراغت کے بعد انہوں نے پاکستان کی سیاست میں سرگرمی سے حصہ لینا شروع کیا اور ایوب خان کے خلاف انتخابی مہم میں فاطمہ جناح کی کھل کر حمایت کی۔ بعد میں وہ تاحیات کشمیر کی سیاست میں متحرک رہے۔ آزاد کشمیر میں جمہوری سلسلۂ عمل کا جو آغاز ایوب دور میں ہوا تھا‘ وہ اب بھی ادھورا ہے۔ اسی طرح کے ایچ خورشید نے کشمیر میں جن اصلاحات کی بات کی وہ آج بھی توجہ کی متقاضی ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں