جوں جوں صدارتی انتخابات قریب آرہے ہیں امریکی سیاسی منظر نامہ دو بڑی جماعتوں کا میدانِ جنگ بنتا جا رہا ہے۔ ایک طرف کملا ہیرس کی قیادت میں ڈیموکریٹس ہیں‘ جنہیں اپنی جیت کا مکمل یقین ہے۔ اور دوسری جانب ریپبلکن پارٹی کے ڈونلڈ ٹرمپ ہیں‘ جن کو انتخابی ریلیوں میں سب سے آگے دکھایا جا رہا ہے۔ نتائج جو بھی ہوں‘ نئے امریکی انتخابات ایک سخت دوڑ کا اشارہ دیتے ہیں۔ صدارتی انتخابات کے تناظر میں کچھ امریکی ریاستیں گہری سیاسی تقسیم کی عکاسی کرتی ہیں۔ یہ تقسیم 2020ء کے متنازع انتخابات میں پائی جانے والی تقسیم کی آئینہ دار ہے۔ کانگرس میں دونوں جماعتوں کے درمیان طاقت کا توازن بھی اہم ہے جبکہ سینیٹ ابھی تک محدود پیمانے پر تقسیم ہے اور نئے صدارتی انتخابات یہاں بھی طاقت کے توازن کو تبدیل کر سکتے ہیں۔ جس بھی پارٹی کا امیدوار فتح یاب ہوگا‘ امکان یہی ہے کہ وہ امریکہ کے موجودہ داخلی ایجنڈے کو جاری رکھے گا‘ جس میں موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق اقدامات‘ صحت کی دیکھ بھال میں اصلاحات اور ووٹنگ کے حقوق کے تحفظ پر توجہ شامل ہے۔ عورتوں کے حقوق‘ اسقاطِ حمل اور سماجی انصاف میں اصلاحات کی کوششوں پر بھی زور دیا جائے گا۔ اگر ڈونلڈ ٹرمپ دوبارہ امریکی صدر منتخب ہوتے ہیں تو امکان یہی ہے کہ وہ صدر بائیڈن کی بہت سی پالیسیوں کو واپس لے لیں گے‘ بالخصوص امیگریشن اور ماحولیاتی ضوابط جیسے شعبوں میں۔ ٹرمپ کا ایجنڈا ڈی ریگولیشن‘ ٹیکسوں میں کٹوتیوں اور قوم پرست خارجہ پالیسی پر مزید زور پر مبنی ہو سکتا ہے۔ یہ ایجنڈا ممکنہ طور پر سیاسی پولرائزیشن کے عمل کو تیز کرے گا۔ ان انتخابات کا نتیجہ آنے والے سالوں کیلئے امریکی داخلہ اور خارجہ پالیسیوں کی تشکیل کرے گا جس میں معیشت سے لے کر عالمی اتحاد تک ہر چیز متاثر ہو سکتی ہے۔
ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی خارجہ پالیسی عالمی امور کی تشکیل‘ عالمی اتحادوں پر اثر انداز ہونے‘ اقتصادی حرکیات اور جغرافیائی سیاسی استحکام میں فیصلہ کن کردار ادا کرے گی۔ پچھلی دو دہائیوں کے دوران امریکی خارجہ پالیسی مداخلت پسندی‘ سفارت کاری اور اقتصادی پابندیوں کے درمیان گھوم رہی ہے۔ امریکی پالیسیوں میں موجود اس دہرے پن نے گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ اس دہرے پن نے ارادی اور غیر ارادی طور پر امریکہ کے بارے میں عالمی تاثرات اور امریکہ کی دوسرے ممالک پر اپنا اثر و رسوخ قائم کرنے کی صلاحیت کو متاثر کیا ہے۔ امریکی خارجہ پالیسی کے سب سے اہم اثرات میں سے ایک عالمی اتحادوں اور عالمی طاقت کی حرکیات پر اس کا اثر ہے۔ امریکہ طویل عرصے سے خود کو مغربی جمہو ریتوں کے رہنما کے طور پر پیش کر رہا ہے۔ اس نے نیٹو جیسے اتحاد اور ایشیا پیسفک ممالک کے ساتھ شراکت داری قائم کی‘ تاہم حالیہ پالیسیوں‘ بالخصوص ٹرمپ انتظامیہ کے دورمیں ہم نے دیکھا ہے کہ امریکہ روایتی اتحادوں سے پیچھے ہٹتا نظر آیا۔ مثلاً ٹرانس پیسفک پارٹنر شپ اور پیرس موسمیاتی معاہدے سے ٹرمپ کی دستبرداری یکطرفہ طور پر تبدیلی کا اشارہ تھی جس سے یورپی اتحادیوں کے ساتھ تناؤ پیدا ہوا اور عالمی حکمرانی میں امریکی اثر و رسوخ میں کمی آئی۔ اگرچہ بائیڈن انتظامیہ نے ان اتحادوں کو بحال کرنے کی کوشش کی لیکن اس نقصان کی وجہ سے ایک پارٹنر کے طور پر امریکہ پر اعتبار کرنے کے حوالے سے سوالات پیدا ہوئے۔ چین اور روس نے اس ابہام کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو نے تجارت اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی میں امریکی تسلط کو چیلنج کرتے ہوئے افریقہ‘ ایشیا اور یورپ میں اہم پیشرفت کی ہے۔ ان تبدیلیوں سے بین الاقوامی نظام کے امریکی قیادت والے یک قطبی نظام سے کثیر قطبی نظام میں تبدیل ہونے کے خدشات پیدا ہوئے ہیں جس سے جیو پولیٹکل عدم استحکام بڑھ رہا ہے۔
امریکہ خارجہ پالیسی کے ایک آلے کے طور پر اقتصادی پابندیوں پر تیزی سے انحصار کر رہا ہے جس کا مقصد ایران‘ وینزویلا اور روس جیسے ممالک کو بین الاقوامی اصولوں کی تعمیل پر مجبور کرنا تھا۔ ان پابندیوں نے جہاں ان ریاستوں کی اقتصادی صلاحیتوں کو محدود کیا‘ وہیں یہ عام شہریوں کے لیے بھی مصائب پیدا کرنے کا باعث بنیں۔ان پابندیوں سے بلیک مارکیٹس تشکیل پائیں‘ جو اکثر ان پابندیوں کے مطلوبہ اثرات کو روکتی ہیں۔ مثلاً ایران پر امریکی پابندیوں نے اس کی معیشت کو مفلوج کر دیا لیکن وہ اس کے ایٹمی قوت کے حصول کے عزائم کو روکنے میں ناکام رہی ہیں۔ مزید برآں اس طرح کے اقدامات نے ان ممالک کو متبادل مالیاتی نظام تلاش کرنے پر مجبور کیا۔
چین کے ساتھ تجارتی جنگ‘ ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے شروع کی گئی تھی جس کا مقصد تجارتی خسارے میں توازن پیدا کرنا اور امریکی مینوفیکچرنگ کو تحفظ فراہم کرنا تھا‘ تاہم چین پر ان امریکی پابندیوں کے ملے جلے نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ ان پابندیوں سے جہاں ٹرمپ نے چین پر دباؤ ڈالا وہیں انہوں نے چینی درآمدات پر منحصر امریکی کاروبار کو بھی نقصان پہنچایا اور عام صارفین کے لیے قیمتیں بڑھا دیں۔ اب بائیڈن انتظامیہ کے سفارتی اقدامات کا مقصد اس تناؤ کو کم کرنا ہے لیکن دو سب سے بڑی معیشتوں کے درمیان مسابقت امریکی خارجہ پالیسی کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ امریکی فوجی مداخلت کے مشرقِ وسطیٰ اور عراق جنگ پر طویل مدتی اثرات مرتب ہوئے ہیں جس نے اس خطے کو غیرمستحکم کیا ہے اور داعش جیسے شدت پسند گروپوں کی پیداوار میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اسی طرح 2021ء میں افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلا نے 20سالہ تنازع کا خاتمہ کیا‘ لیکن اپنے پیچھے ایک انسانی بحران چھوڑ دیا جو کسی وقت بھی خطے کے لیے ایک بڑا مسئلہ بن سکتا ہے۔ دوسری طرف ان مداخلتوں نے عالمی محاذوں پر امریکی فوجی شمولیت کی افادیت اور اخلاقیات کے بارے میں سوالات کو جنم دیا۔ جمہوریت اور انسانی حقوق کو فروغ دینا امریکی خارجہ پالیسی کا سنگِ بنیاد رہا ہے‘ لیکن امریکہ خود پر اس کے اطلاق میں ناکام رہا ہے۔ امریکہ نے ہمیشہ اپنی سہولت کے مطابق مطلق العنان حکومتوں کی حمایت کی ہے‘ یہ امریکی اقدام انسانی حقوق کے مسائل پر اس کی اخلاقی اتھارٹی کو کمزور کرتا ہے۔ مزید برآں‘ عالمی سطح پر حکومتوں کی تبدیلی میں امریکہ کی شمولیت‘ جو اکثر جمہوریت کو فروغ دینے کی آڑ میں ہوتی ہے یا کسی اور ایشو پر‘ اس کے ملے جلے نتائج برآمد ہوئے ہیں جیسا کہ لیبیا اور عراق میں دیکھا گیا۔ ان اقدامات نے امریکہ مخالف جذبات کو جنم دیا جس سے جمہوری اقدار کے خود ساختہ حامی کے طور پر امریکہ کی ساکھ کمزور پڑتی نظر آتی ہے۔ نئی حکومت میں خارجہ عہدوں پر فائز ہونے والے عہدیداروں اور نئی انتظامیہ کو اس جانب سب سے زیادہ توجہ مرکوز کرنا ہو گی۔ حالیہ برسوں میں امریکی سفارت کاری نے موسمیاتی تبدیلی‘ سنکیانگ میں انسانی حقوق کے مسائل اور ہانگ کانگ میں آمریت کی مخالفت جیسے مسائل کو حل کرنے پر توجہ مرکوز کی ہے‘ تاہم وسیع تر بین الاقو امی تعاون اور ادارہ جاتی مدد کے بغیر ان علاقوں میں امریکی اثر و رسوخ محدود رہا ہے۔
امریکی خارجہ پالیسی کے عالمی نتائج کثیر جہتی ہیں۔ اگرچہ امریکہ ایک بڑی عالمی طاقت ہے‘ اسکی پالیسیوں نے اکثر غیر ارادی نتائج پیدا کیے ہیں‘ جن میں عالمی اتحادوں کو توڑنا‘ معاشی انتقامی کارروائیاں اور فوجی مہم جوئی شامل ہیں۔ ان حالات میں نئی حکومت کو خارجہ پالیسی کے محاذ پر امریکہ کے اثر و رسوخ کو برقرار رکھنے‘ ماحولیاتی تبدیلی جیسے عالمی چیلنجوں سے نمٹنے اور عالمی سطح پر ایک قابلِ اعتماد پارٹنر کے طور پر امریکہ کی ساکھ کو بحال کرنے کیلئے سفارتی کوششوں کیساتھ اپنے مداخلت پسند رجحانات کو متوازن کرنے کی ضرورت ہو گی۔ اس کیساتھ نئے امریکی عہدے دار امریکی خارجہ پالیسی کے ذریعے عالمی نظام کی تشکیلِ نو کی کوشش جاری رکھیں گے جس کے عالمی استحکام اور طاقت کی بحالی پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔