"FBC" (space) message & send to 7575

ٹرمپ کینیڈا سے کیا سلوک کرے گا؟

ڈونلڈ ٹرمپ سے کسی بھی قسم کے بیان کی توقع کی جا سکتی ہے مگر شمالی امریکہ کے لوگ ان سے جس بیان کی توقع نہیں کر رہے تھے وہ کینیڈا کے بارے میں ان کا حالیہ سنسنی خیز بیان ہے۔ ٹرمپ کے اس غیرمتوقع بیان نے شمالی امریکہ کی جغرافیائی سیاست پر بحث کو پھر سے چھیڑ دیا ہے۔ نئے امریکی صدر نے اپنے حالیہ بیان میں کینیڈا کی امریکہ میں شمولیت کی تجویز پیش کی ہے۔ اس بیان پر پورے شمالی امریکی براعظم میں غم و غصے کا اظہار ہو رہا ہے اور کچھ لوگ اسے کینیڈا کے خلاف ممکنہ امریکی سازش بھی قرار دے رہے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ بیان‘ خواہ ازراہِ تفنن دیا ہو یا ایک سنجیدہ تجویز کے طور پر‘ دونوں صورتوں میں گہری تحقیق کا متقاضی ہے۔ اس تجویز کو امریکہ اور کینیڈا کے پُرجوش تعلقات‘ دونوں ممالک کے درمیان موجود تعاون اور بقائے باہمی کی مشترکہ میراث یا ان کے درمیان پائے جانے والے تنازعات کی روشنی میں دیکھنا بھی بہت ضروری ہے۔
ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور کینیڈا اگرچہ اب قریبی اتحادی ہیں لیکن ان کے درمیان تنازعات اور جنگوں کی ایک طویل تاریخ ہے۔ شمالی امریکہ میں 1812ء میں لڑی جانے والی جنگ ان ہنگامہ خیز تعلقات کی تاریخ میں ایک اہم لمحے کے طور پر موجود ہے۔ امریکی بحری امور میں برطانوی مداخلت اور امریکی توسیع پسندانہ عزائم کی وجہ سے تاریخ نے امریکی افواج کو کینیڈا کے علاقوں پر حملہ کرنے کی کوششیں کرتے ہوئے دیکھا۔ ان کوششوں کو شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا جس کا اختتام ایک تعطل پر ہوا جس نے بالآخر کینیڈا کی الگ قومی شناخت کو جنم دیا۔ جنگ کے علاوہ دیگر وجوہات کی بنا پر بھی کبھی کبھار امریکہ اور کینیڈا کے تعلقات میں کشیدگی آتی رہی ہے۔ سرحدی تنازعات جیسے 19ویں صدی کے وسط میں اوریگون باؤنڈری تنازع اور اقتصادی دشمنیاں دونوں ممالک کے تعلقات کو متاثر کرتی رہی ہیں۔ اس تناؤ کو بنیاد بنا کر طویل دشمنی کے بجائے دونوں ممالک نے مذاکرات اور سمجھوتوں کے ذریعے باہمی تنازعات کو حل کرنے کی ضرورت پر زوردیا۔
دونوں ممالک کے انضمام کا تصور تاریخی مباحث کا حصہ رہا ہے۔ 19ویں صدی میں سامنے آنے والا یہ امریکی نظریہ اس کا اظہار ہے کہ امریکہ شمالی امریکہ کے براعظم میں اپنا پھیلاؤ ضروری سمجھتا ہے۔ اگرچہ یہ نقطۂ نظر زیادہ تر مغرب کی طرف پھیلاؤ پر مرکوز تھا لیکن اس نظریے کے کچھ حامی کینیڈا کو امریکی علاقے کی قدرتی توسیع کے طور پر بھی دیکھ رہے تھے۔ تاہم کینیڈین مزاحمت اور قوم پرستی کے بڑھتے ہوئے احساس نے اس بات کو یقینی بنایا کہ اس خیال کو کبھی بھی عوامی قبولیت حاصل نہ ہو۔ حالیہ تاریخ میں دونوں ممالک نے عالمی تنازعات کے دوران قریب ترین اتحادیوں کے طور پر ایک ساتھ کام کیا ہے۔ عالمی جنگیں دونوں نے مل کر لڑیں۔ سرد جنگ میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کیا۔ دونوں نے اپنے آپ کو دنیا کے سامنے مشترکہ جمہوری اقدار کے مضبوط اتحادیوں کے طور پرپیش کیا۔ اس شراکت داری نے اقتصادی اور ماحولیاتی تعاون کو بڑھایا۔ دونوں ممالک کے درمیان سینکڑوں معاہدے ہیں۔ دونوں کی ماحولیات اور اپنی عظیم جھیلوں کے انتظام میں تعاون کی کوششیں قابلِ رشک ہیں۔ اس سب کے باوجود نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا بیان اشتعال انگیز ہونے کے ساتھ ساتھ امریکہ اور کینیڈا کے تعلقات میں موجود پیچیدگیوں کو ظاہر کرتا ہے۔ کینیڈا کی مضبوط پارلیمانی جمہوریت‘ صحت کی دیکھ بھال کا عمدہ نظام اور الگ ثقافتی شناخت نے اسے اپنے جنوبی پڑوسی سے الگ کر دیا ہے۔ کینیڈا کی امریکہ میں شمولیت کی کسی بھی تجویز کو کینیڈا کے لوگوں کی طرف سے زبردست مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا جو اپنے ملک کی خودمختاری کے تحفظ کا مضبوط احساس رکھتے ہیں۔ اگرچہ دونوں ممالک نے حالیہ برسوں میں کچھ پالیسی مسائل مثلاً موسمیاتی تبدیلیوں سے لے کر امیگریشن اور تجارتی طریقوں پر اختلاف کیا ہے۔یہ اختلافات ایک متحد شمالی امریکہ کے تصور کے چیلنجوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جہاں بھی امریکہ اور کینیڈا میں تنازعات پیدا ہوئے ہیں انہوں نے وہیں تعاون اور باہمی احترام کی قابلِ ذکر صلاحیت بھی دکھائی ہے۔ کینیڈا کو امریکہ میں شامل کرنے کی تجویز خواہ یہ ازراہِ تفنن ہی دی گئی ہے‘ برابری کے اس جذبے کو کمزور کرتی ہے جس نے ان کے مضبوط تعلقات کا تعین کیا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کو کینیڈا کو امریکہ کی ایک ریاست کے طور پر دیکھنے کے بجائے دونوں ممالک کے مابین موجودہ شراکت کو مضبوط بنانے پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ دونوں قومیں اپنی منفرد شناخت اور باہمی تعاون سے تجارت سے لے کر سکیورٹی اور ثقافتی تبادلوں تک ایک دوسرے سے بہت فائدہ اٹھاتی ہیں۔ کینیڈا کا امریکہ میں بطور ایک ریاست کے انضمام کا خیال ایک دل لگی تو ہو سکتی ہے لیکن یہ امریکہ اور کینیڈا کے عوام کے احترام کے رشتے کو تسلیم کرنے میں ناکامی کا ظاہر کرتا ہے جو صدیوں کی مشترکہ تاریخ نے جنم دیا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا کینیڈا کو امریکی ریاست بنانے کا بیان پُرجوش بحثوں اور تلخ تاریخی تجربوں کو دوبارہ ہوا دے سکتا ہے اس لیے ضروری ہے کہ ایسے خیالات کا اظہار کرنے سے پہلے حقیقت پسندی اور کینیڈا کی خودمختاری کا احترام پیش نظر رکھا جائے۔ امریکہ اور کینیڈا صرف تب ہی خود کو درپیش چیلنجوں سے بھرپور طریقے سے نمٹ سکتے ہیں جب وہ اپنی مشترکہ اقدار اور الگ الگ طاقتوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ساتھ مل کر کام کریں۔ تاریخ ہمیں یاد دلاتی ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تعاون نہ کہ انضمام امریکہ اور کینیڈا کے درمیان اس پائیدار شراکت کی بنیاد رہا ہے۔ کینیڈا اور امریکہ کے درمیان تاریخی تنازعات‘ تلخ تجربات اور جنگ و جدل کے علاوہ بہت قریبی تعلق اور تاریخی رشتے بھی ہیں۔ دونوں کی سیاسی قدریں مشترک ہیں‘ دونوں جمہوری نظام حکومت پر اصولی طور پر متفق ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ دنیا میں جمہوریت اور انسانی حقوق کے سوال پر کئی دفعہ دونوں میں اختلافِ رائے بھی ہوتا ہے۔ اُن عالمی مسائل پر کینیڈا کا نقطہ نظر زیادہ اصولی اور اخلاقی ہے۔ عالمی مسائل پر یہ اختلاف دونوں ملکوں کے عالمی کردار اور اخلاقی اپروچ کو ظاہر کرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ عالمی مسائل پر امریکہ کا کرداران عالمی مسائل کے بارے میں امریکی پالیسی کو ظاہر کرتا ہے۔ کچھ عالمی مسائل پر امریکہ کا کردار ابھی تک جدید نو آبادیاتی نظام کا ہی اظہار ہوتا ہے اور بیشتر امریکی پالیسیاں سرد جنگ کے دور کی عکاسی کرتی ہیں۔ امریکہ اور کینیڈا کے عوام اور سیاستدانوں میں اسرائیل کے غزہ سے لے عراق تک کردار پر اختلافات کا اظہار اکثر ہوتا رہتا ہے لیکن ان اختلافات اور تنازعات کی نسبت مشترکات زیادہ ہیں۔ جیسا کہ میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ یہ دونوں ممالک اس وقت دنیا کی طویل ترین سرحد کا انتظام احسن انداز میں سنبھالے ہوئے ہیں۔ دونوں ممالک کے بیشتر سرحدی شہروں میں کوئی بارڈر سکیورٹی فورس نہیں ہے۔ ان شہروں میں سڑکوں کا ایک جال بچھا ہوا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان ٹرینوں‘ بسوں‘ ٹرکوں اور نجی گاڑیوں کی دن رات آمد و رفت جاری رہتی ہے۔ اگر اس نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو کینیڈا ایک مکمل خود مختار ملک ہونے کے باوجود عملی طوربیشتر امور کے حوالے سے پہلے سے ہی امریکہ کے ساتھ ایسے رشتوں میں بندھا ہوا ہے کہ ان کو مزید پھیلانے کی کوئی گنجائش نہیں۔ ملکی سکیورٹی کے حوالے سے کینیڈا بڑی حد تک امریکہ پر انحصار کرتا ہے‘ جس کے لیے پہلے سے ہی ایک بہت بڑا سیاسی اور انتظامی ڈھانچہ موجود ہے۔ ان میں سے بیشتر امور ایسے ہیں جن پر امریکی عوام اور کینیڈا کے عوام متفق ہیں جن میں تبدیلی کے لیے کسی بہت ہی بڑے جواز کی ضرورت ہو گی‘ جو مہیا کرنا ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے ممکن نہیں ہو گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں