"FBC" (space) message & send to 7575

آئی ایم ایف‘ امداد اور مداخلت کے درمیان لکیر

بین الاقو امی مالیاتی فنڈ طویل عرصے سے عالمی اقتصادی استحکام میں ایک کلیدی کھلاڑی ہے۔ جب سے یہ فنڈ قائم ہوا ہے تب سے قرض لینے والے ممالک کی داخلی پالیسیوں پر ادارے کا اثر ایک سنجیدہ بحث کا موضوع رہا ہے۔ کیا آئی ایم ایف محض مالی رہنمائی فراہم کرتا ہے یا یہ خود مختار فیصلہ سازی کی حدود سے تجاوز کرتا ہے؟ کیا اسے کسی قرض خواہ ملک کے عدالتی حکام کے ساتھ انگیج ہونے‘ محصول اور ٹیکس کے طریقہ کار پر بات چیت کرنے یا حکم دینے کا حق حاصل ہے؟ قرض لینے والے ممالک میں آئی ایم ایف کا بنیادی کام معاشی مشکلات کا سامنا کرنے والے ممالک کو مالی امداد فراہم کرنا‘ استحکام کو یقینی بنانا اور معاشی تباہی کو روکنا ہے۔ یہ امداد عام طور پر سخت شرائط کے ساتھ آتی ہے‘ جن میں وصول کنندہ حکومتوں کو اقتصادی نظم و ضبط بڑھانے کے لیے اصلاحات کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان حالات میں اکثر سرکاری اخراجات میں کمی‘ سبسڈی میں کمی‘ کرنسی کی قدر میں کمی اور ٹیکس کی پالیسیوں میں تبدیلی شامل ہوتی ہے۔ تاہم ان شرائط کا اطلاق قومی خود مختاری کے بارے میں خدشات کو جنم دیتا ہے۔ قرض لینے والے ممالک اکثر خود کو اس فنڈ کی پالیسیوں پر عمل کرنے پر مجبور پاتے ہیں۔ بے شک یہ پالیسیاں مقامی اقتصادی ترجیحات یا سیاسی حقائق سے متصادم ہوں۔ آئی ایم ایف کا اثر و رسوخ معاشی پالیسی سے آگے گورننس‘ سماجی اخراجات اور یہاں تک کہ عدالتی معاملات تک پھیلا ہوا ہے جس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ امداد کہاں سے ختم ہوتی ہے اور مداخلت کہاں سے شروع ہوتی ہے؟
پاکستان میں ججوں کے ساتھ آئی ایم ایف کے نمائندوں کی ملاقات کی حالیہ رپورٹس نے شبہات کو جنم دیا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اس طرح کی ملاقاتیں مالی نگرانی اور براہِ راست سیاسی مداخلت کے درمیان خطوط کو دھندلا دیتی ہیں۔ عدلیہ کا مقصد مالیاتی اداروں سے آزاد رہنا‘ غیر جانبداری اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانا ہوتا ہے۔ اگر آئی ایم ایف حکام معاشی اصلاحات کے بہانے عدالتی معاملات پر بات کرتے ہیں تو اسے آئی ایم ایف کی حمایت یافتہ پالیسیوں کے حق میں قانونی نتائج کو متاثر کرنے کی کوشش کے طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔ اگرچہ اس طرح کی ملاقاتیں معمول کے مطابق ہونے کی کوئی واضح عالمی نظیر نہیں ملتی لیکن مالیاتی اداروں اور ججوں کے درمیان کسی بھی قسم کے میل جول کو شفاف طریقے سے انجام دیا جانا چاہیے تاکہ عدالتی خود مختاری کے تاثر کو نقصان نہ پہنچے۔آئی ایم ایف کی مداخلت کے متنازع پہلوؤں میں سے ایک‘ ٹیکس لگانے کے طریقوں کی تشکیل میں اس کا کردار ہے۔ آئی ایم ایف اکثر ٹیکس اصلاحات کی سفارش کرتا ہے‘ جیسے بالواسطہ ٹیکسوں میں اضافہ ‘ ٹیکس کی بنیاد کو وسیع کرنا اور ٹیکس چھوٹ کو کم کرنا۔ لیکن وہ غیرمتناسب طور پر کم آمدنی والے غریب طبقات کو متاثر کر سکتے ہیں جس سے عوام میں عدم اطمینان پیدا ہوتا ہے۔
ناقدین کا استدلال ہے کہ ٹیکس کی پالیسیوں کا تعین قومی حکومتوں کو ان کے منفرد سماجی و اقتصادی سیاق و سباق کی بنیاد پر کرنا چاہیے نہ کہ کسی بیرونی ادارے کی طرف سے کیا جانا چاہیے۔ ترقی پذیر قوموں کوایک مخمصے کا خاص طور پر سامنا ہے کہ قرضوں کو محفوظ بنانے کے لیے آئی ایم ایف کی ٹیکس سفارشات پر عمل کریں یا فنڈنگ کی کمی کی وجہ سے معاشی عدم استحکام کا خطرہ برداشت کریں۔ یہ ایک سنجیدہ سوال ہے کہ آیا آئی ایم ایف کو کسی خود مختار ملک میں اپنی ٹیکس حکمت عملی کو نافذ کرنے کا حق ہے یا یہ حق صرف خود مختار ریاستوں کے دائرہ اختیار میں رہنا چاہیے؟
بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ آئی ایم ایف عالمی معیشتوں کے استحکام میں اہم کردار ادا کرتا ہے تاہم عدالتی امور اور خود مختار ممالک کی ٹیکس پالیسیوں میں اس کی شمولیت ضروری اقتصادی نگرانی اور بے جا مداخلت کے درمیان ایک باریک لکیر پر چلتی ہے۔ شفافیت ضروری ہے لیکن احتساب کو یقینی بنانے کے لیے ملکی اداروں اور آئی ایم ایف کے درمیان ہونے والی کسی بھی بات چیت کو عوامی طور پر ظاہر کیا جانا چاہیے۔ ساکھ اور انصاف کو برقرار رکھنے کے لیے آئی ایم ایف کو قرض لینے والے ممالک کی خود مختاری کا احترام کرنا چاہیے اور ایسی رہنمائی کرنی چاہیے جو سیاسی سہولت کے بجائے معاشی حقائق سے ہم آہنگ ہو۔ خود مختار ممالک کو اپنے عدالتی عمل اور ٹیکس کے ڈھانچے کا تعین کرنے کا حق برقرار رکھنا چاہیے۔ اصل مسئلہ توازن قائم کرنا اور کسی بھی ملک میں قومی خود مختاری پر سمجھوتہ کیے بغیر معاشی نظم و ضبط کو یقینی بنانا ہے۔ جب تک یہ توازن نہیں قائم ہوتا داخلی گورننس میں آئی ایم ایف کے کردار پر بحث ہوتی رہے گی۔ دوسری طرف آئی ایم ایف کا مؤقف یہ ہے کہ یہ روایتی معنوں میں کسی ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرتا بلکہ اس کے قرضوں پر شرائط عائد کرتا ہے تاکہ قرض لینے والا ملک اپنا قرض ادا کر سکے۔ یہ شرائط اس پروگرام کا حصہ ہوتی ہیں جسے سٹرکچرل ایڈجسٹمنٹ پروگرامز کہا جاتا ہے اور ان کا مقصد ملک کی معیشت کو مستحکم کرنا اور اس رقم کی واپسی کو یقینی بنانا ہوتا ہے۔
آئی ایم ایف معاشی بحرانوں کا سامنا کرنے والے ممالک کو قرض دیتا ہے لیکن وہ اس بات کو یقینی بنانا چاہتا ہے کہ یہ ممالک بالآخر اپنے قرضے واپس کر سکیں۔ ایسا کرنے کے لیے اکثر حکومتوں سے اخراجات میں کمی‘ ٹیکسوں میں اضافہ‘ یا سرکاری صنعتوں کی نجکاری کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسے اقدامات جو ملک کی داخلی پالیسیوں کو براہِ راست متاثر کرسکتے ہیں۔آئی ایم ایف کا خیال ہے کہ اگر کوئی ملک اپنی معیشت کو غلط طریقے سے منظم کرتا ہے تو یہ دوسری قوموں کو متاثر کرنے والے مالیاتی مسائل کا باعث بن سکتا ہے۔ آئی ایم ایف ایسی پالیسیوں کو نافذ کرنے کی کوشش کرتا ہے جو بار بار آنے والے بحرانوں کو روکتی ہیں جیسا کہ حکومتی قرضے کو محدود کرنا‘ بینکنگ سسٹم میں اصلاحات یا سبسڈی میں کمی ۔چونکہ آئی ایم ایف زیادہ تر طاقتور معیشتوں جیسے امریکہ اور یورپی ممالک کے زیر کنٹرول ہے‘ اس کی پالیسیاں اکثر ان کے مفادات کے مطابق ہوتی ہیں۔ قرضے حاصل کرنے والے ممالک ایسی پالیسیاں اپنانے کے لیے دباؤ محسوس کر سکتے ہیں جن سے ان کے اپنے لوگوں کے بجائے عالمی مالیاتی منڈیوں کو فائدہ ہو۔کچھ ممالک یہ محسوس کرتے ہیں کہ آئی ایم ایف معاشی پالیسیوں کا حکم دے کر ان کی خودمختاری کو مجروح کرتا ہے۔ بعض کا خیال ہے کہ آئی ایم ایف کے عائد کردہ کفایت شعاری کے اقدامات اکثر حقیقی بحالی کے بجائے سماجی بدامنی اور معاشی جمود کا باعث بنتے ہیں۔ پاکستان کو آئی ایم ایف کے دباؤ میں بجلی کی قیمتوں اور ٹیکسوں میں اضافہ اور حکومتی اخراجات میں کمی کرنا پڑی۔ کسی ملک کے اندرونی معاملات پر آئی ایم ایف کا اثر اس حقیقت سے آتا ہے کہ پیسہ ہمیشہ شرائط کے ساتھ آتا ہے۔ آئی ایم ایف صرف ایک قرض دینے والا ادارہ نہیں ہے ‘ یہ ایک مالیاتی ڈاکٹر کی طرح کام کرتا ہے جو کڑوی دوا تجویز کرتا ہے۔ وہ دوا کام کرتی ہے یا صورتحال کو مزید خراب کرتی ہے‘ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ اس پر کتنی اچھی طرح عمل کیا جاتا ہے اور آیا آئی ایم ایف کی پالیسیاں ملک کے طویل مدتی مفادات سے ہم آہنگ ہیں یا نہیں۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں