صدر زردا ری اور اُن کی حکو مت کی پانچ سا لہ مدت مکمل ہو نے پر یا ر لو گ جا نے کس کس کو کر یڈٹ دے رہے تھے کہ’’ پیر ِ صدارت ‘‘ محمد اعجا ز نے حقیقی صورت ِ حال وا ضح کر دی ہے کہ یہ سارا کما ل تو اُن کی گو ٹیوں کا تھا جو پیر صاحب نے فٹ کر رکھی تھیں۔ پیر جی کا فر ما نا ہے کہ اُ نہی کی ہدا یت پراپنا زیادہ عرصہ،آصف زردا ری نے سمند رکے قریب گزا را۔ اُ ن کی اِس با ت سے ہمیں ایوا نِ صدر میں جنا بِ صدر کی طرف سے دئیے جا نے والے صدقے کے بکرے یا د آگئے ہیں، غالب امکا ن یہی ہے کہ بکرے بھی پیر صا حب کے ارشاداتِ عالیہ کے مطا بق قربان کئے جا تے رہے ہوں گے۔ ویسے ہے نا ں !کمال کی با ت! سا ئنس کے اِس تیز رفتا ر دو ر میں بھی قر با نی کے بکرو ں اور پیر صا حب کی گو ٹیوں سے، سا بقہ حکو مت نے انتہا ئی ناگفتہ بہ حا لا ت کے باوجود پانچ سال مکمل کر لیے۔ اب صدر آصف زرداری بھی اپنی مدت ِ صدا رت مکمل کیا چاہتے ہیں ۔ پیر محمد اعجا ز نے تو یہ بھی اعلا ن کر دیا ہے کہ وہ اب بھی ایسی ’’گوٹی‘‘ فٹ کریں گے کہ صدرآ صف زرداری مزید دو سال ایوان ِ صدر میں فٹ فا ٹ رہ لیں گے۔ ویسے پیر صا حب اگر عوا م پر بھی ایک مہر بانی کر دیتے یعنی وطنِ عزیز کو توانا ئی کے بحرا ن اور کرپشن سے نجا ت دلا نے کے لیے بھی کو ئی چھو منتر پڑھ دیتے تو آج مسلم لیگ (ن) کی جگہ پیپلز پار ٹی والے اگلے پا نچ برس کے لیے اقتدا ر سنبھا لے ہو ئے ہو تے،لیکن لگتا یہی ہے کہ پیر صا حب کا چھو منتر اور گو ٹیا ں بھی صرف اور صرف صدر آ صف زرداری کے لیے حر کت میں آ تی ہیں۔ ہم حیرا ن ہیں کہ اب تک بینظیر بھٹو،صدر آ صف زرداری اور میاں نوا ز شریف کی طر ح عمرا ن خان کیو ں کسی پیر دھنکہ کی طر ف نہیںگئے؟ اگر وہ بھی پیر دھنکہ کی دو چا ر چھڑیا ں یا کہیں سے اپنی کوئی گوٹی فٹ کرا لیتے تو آ ج بستر کی بجا ئے وزارتِ عظمیٰ کی کرسی پر ہوتے ۔ویسے پیرِ صدا رت ’’حکومت بچا ئو ‘‘ گو ٹیاں فٹ کر نے کے ما ہر ہیں تو نئی حکومت کو بھی اُ ن سے رجو ع کر نا چا ہیے ، ہو سکتا ہے کہ ہم کسی گو ٹی سے ڈرون کو اپنے علا قے میں جام کر کے رکھ دیں ، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے علا وہ امن و اما ن کے مسا ئل سے بھی نجا ت پا لیں تا کہ ہمارے سر برا ہو ںاور کرتا دھر تا لو گوں کوبنکرو ں میں یا سمندروں پہا ڑو ں پر نہ بندھا رہنا پڑ ے، اور وہ بھی صر ف اور صرف اپنی حکو مت کو زندہ رکھنے کے لیے۔ کہتے ہیںخو شا مد میٹھی چٹنی کی طر ح ہو تی ہے جس سے کا سہ لیس اور خو شا مدی ہمیشہ لیس رہتے ہیں۔خوشا مد کا چسکا رکھنے والے تنقید بر دا شت کر نے سے عاری ہو جا تے ہیں۔ ہما رے نئے حکمرا نو ں کو خو شا مدیوں سے فاصلہ رکھنا ہو گا۔ مثبت تنقید انسا ن کو نئے را ستے دکھا تی ہے ۔نئی نویلی حکومت پر ابھی کو ئی تنقید شرو ع نہیں ہو ئی ، ابھی تو ہر طر ف سے مفت مشورے آ رہے ہیں ، ہر لکھنے والا میاں صا حب کو بگڑ ے ہوئے حالات کو ٹھیک کر نے کے لیے طر ح طرح کی تجا ویز پیش کر رہا ہے۔ ابھی تک میا ں صاحبان کے ابتدا ئی اعلا ات اور اقداما ت سے یہی دکھا ئی دیتا ہے کہ وہ ہر شارٹ ذمہ دا ری سے کھیل رہے ہیں ۔ میا ں نوا ز شریف اب پرا نے والے وزیراعظم نہیں ہیں ،وہ مبار کبادیو ں کے جمگھٹے میں بھی بے حد سنجیدہ اور متفکر دکھا ئی دیے۔ انھیں معلو م ہے کہ یہ حکومت کس قدر مشکل حالا ت میں اُ ن کے سپرد کی گئی ہے ۔ یقینا اب یہا ں پلا ٹوں اور ادا رو ں کی تقرریوں کی ر یوڑیاں نہیں بٹنے والی۔ قو می ادا رو ں میں سنجیدہ ،غیر جانب دا راور اہل افرا د لگا ئے جا ئیں گے ۔ نئی حکومت کو ذوالفقا ر چیمہ جیسے مزید افسرا ن اہم عہدوں اور اداروں میں لگا نا پڑ یں گے اور معا شرے سے سفا رش ، رشوت اور کرپشن کے خاتمے کے لیے انتہا ئی سخت اقداما ت کرنے پڑیں گے۔کام مشکل ہے لیکن نا ممکن نہیں، کیونکہ ٹیکس اور بجلی چوروں کو نتھ ڈالے بغیر بات آ گے نہیں بڑھے گی۔نئی حکو مت کو ہمیشہ اپنی منجی کے نیچے ڈا نگ پھیرتے رہنا پڑے گا۔ارکانِ اسمبلی کو بھی اپنی ذمہ دا ریا ں پہلے سے کہیں بڑ ھ کر نبھا نی پڑ یں گی۔ اگلے رو ز خبر تھی کہ پنجاب اسمبلی کی خوا تین اراکین کو آٹے دال کا بھا ئو تک معلو م نہیں ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ خبر یہ نہیں بنتی کہ انہیں آٹے دال کے نر خ معلو م نہیں ، خبر تویہ ہوتی جب انہیں یہ بھا ئو معلو م ہوتے اور ہم سب حیرا ن رہ جا تے کہ اسمبلی میں اشرافیہ اور سیا سی خاندانوں سے تعلق رکھنے والی خوا تین کو آ ٹے دال کا درست بھا ئو معلو م ہے ، لیکن صحا فی بھی بادشاہ لو گ ہیں بھلا قوم کی خدمت سے معمو ر دل رکھنے والی اِن خوا تین کا کیا کا م کہ وہ آ ٹے دال کے بھا ئو بتا تی پھریں ، یہ کام تو اُن کے ملا زمین اور خانسامے حضرا ت سر انجام دیتے ہیں۔ تقریب سے یا د آ یا کہ وزیراعظم کی حلف برداری تقریب میں تحریک انصا ف کے اراکین کو مدعو نہیں کیا گیا۔ وزیراعلیٰ پنجا ب کی حلف برداری پر بھی بہت سے لوگ انھیں براہِ راست مبا رک باد دینے سے محرو م رہے ۔ ایک خاتون تو مٹھا ئی کا ڈبہ اور پھول لیے میا ں صاحب تک پہنچنے کے لئے بے چین رہی ، مگر پو لیس کا فرض آڑے آگیا۔مٹھائی تو فلم سٹا ڑ میرا کی والدہ نے بھی تقسیم کی ہے میاں صا حبان کی کا میا بی پر ۔حالانکہ میراکہہ چکی ہیں کہ الیکشن ’’ افیئر ‘‘ نہیں ہوئے اور دوبارہ ووٹوں کی ’’اکائونٹنگ ‘‘ ہو نی چاہیے۔لیکن نقارخانے میں میرا کی آ وا ز کسی نے نہ سنی اور وہ دلبرداشتہ ہو کر کینیڈا جا کر فنڈ ریزنگ میں مصروف ہو گئیں،البتہ مسرت شاہین تا حا ل شکست کے صدمے سے باہر نہیں آ سکیں۔ کیا ہی اچھا ہو تا جہا ں اتنی خواتین کو مختلف سیا سی جما عتیں اپنے کوٹے میں رکن ِ اسمبلی بنا رہی ہیں ، مسرت شاہین کو بھی کو ئی جماعت اسمبلی میں لے جا تی۔اگر یہ نیک کام مو لا نا فضل الرحمن کے ہا تھو ں سرانجام پاتا تو سا ری قوم مو لا نا کی بڑا ئی کے گن گا رہی ہوتی۔تحریک انصا ف کو ہم اس لئے زیر بحث نہیں لا تے کہ اُ ن کے ہاں پہلے ہی فو زیہ قصو ری اسمبلی ٹکٹ نہ ملنے پر رو ٹھی ہو ئی ہیں، حالانکہ پا رٹی کے لیے اُ ن کی بہت قر با نیاں ہیں ۔ نہ جا نے تحریک انصا ف نے عتیقہ اوڈ ھو کے پا رٹی جا ئن کر نے سے قبل ہی فو زیہ قصوری کو کیوں نا را ض کردیا ہے؟ پیر محمد اعجا ز کو ئی گوٹی فٹ کر دیں تو سیا سی پارٹیوں کے اندرونی اور آ پس کے اختلافات بھی ختم کرائے جا سکتے ہیں ،بھلے اِس کے لیے کرپشن کر نے والے چند سیاسی بکروں کی قربا نی ہی کیوں نہ دینی پڑ جائے۔یاد رہے کہ قربانیوں کے بغیر ملک سے تھانہ ، پٹواری اور کرپشن کلچر کبھی ختم نہیں ہو سکتا۔