جنگل کا پھول

وہ بتا رہا تھا : '' جناب میں تو محکمہ جنگل کا ایک معمولی افسر تھا مگر میری بڑی '' ٹوہر ‘‘ ہو ا کر تی تھی۔میری عمر کے تیس برس جنگلوں کی خاک چھانتے گزرے ہیں ۔ جنگل میں رہتے ہوئے میں بھی جنگلی ہو چکا تھا ،انسانوں والی مجھ میں کوئی بات نہیں رہی تھی۔ اصل میں جنگل میں ''کھُل‘‘ کھیلنے کے بہت مواقع میسر ہوتے ہیں۔میں اپنے وقت کا بڑا '' کھڑ پینچ‘‘ افسر تھا۔ یہ جو ایک تصور ہے کہ جنگل میں صرف درختوں کی لکڑیاں ہی بیچی جاسکتی ہیں ، اتنا درست نہیں بلکہ جنگل کو بھی آپ اپنی وضع کا ایک سمندر ہی سمجھیں،جہاں چھوٹی بڑی مچھلیاں اور مگر مچھ بھی ہوا کرتے ہیں ۔پھر ڈاک بنگلوں میں کیا کیا نہیں ہوتا۔جنگل میں سمگلر، اشتہاری، ڈاکو چور، مفرور قاتل غرضیکہ ہر قسم کی مخلوق پائی جاتی ہے۔پھر جنگل کا تو سپاہی بھی بڑی ''توپ‘‘ شے ہوتا ہے۔میرے نیچے تو کئی سپاہی ہوتے تھے۔میرے ساتھ ہر وقت دو تین بندوقوں والے ہوتے تھے، اعلیٰ نسل کے گھوڑے پر سوار میں مع اپنے محافظوں کے، جنگل میں بادشاہ کی طرح پھرا کرتا تھا۔زندگی کو اُن دنوں میں ، بس عیش و آرام ،کھانے پینے ،ظاہری نمود و نمائش اور '' کھڑ پینچی‘‘ کے سواکچھ نہ سمجھتا تھا۔روپے پیسے کی کوئی تھوڑ نہ تھی۔ تکبر، غرور ،اور فضول اکڑ یعنی '' پھوں پھاں ‘‘ نے مجھے انسانیت سے کوسوں دور کر رکھا تھا۔
ایک روز پنڈی بائیس نمبر اڈے کے ایک چائے خانے میں بیٹھا حقہ نوش کر رہا تھاکہ اچانک میری نظر اپنے گائوں کے ایک شخص بہادر خاں پر پڑی ، میں اس کی بدلی ہوئی وضع قطع اور ظاہری حالت دیکھ کر دنگ رہ گیا۔میں چلم پیتے ہوئے مسلسل اسے دیکھ رہا تھا،اصل میں وہ بھی ہمارے گائوں کا ایک خود سر آدمی تھا،میں اس کے سر پر بندھا رومال،ہلکی ہلکی صوفیانہ داڑھی دیکھ کر حیران ہو رہا تھا ، اس کے چہرے پر '' مسکینی ‘‘ نے اپنا رنگ جما رکھا تھا۔میرے بنچ سے ذرا سے فاصلے پر وہ نہایت مطمئن اور خاموش بیٹھا تھا۔مجھے یہ اپنے گائوں کا بہادر خاں لگتا ہی نہیں تھا۔میں نے چلم میں نیا تمباکو ڈالا اور ماچس سمیت اسے جا پیش کیا، وہ یہ سب کچھ دیکھ کر مسکرا دیا،اور چلم پینے لگا۔ میں ساتھ پڑے بنچ پر بیٹھ گیا تھا اور مسلسل اسے دیکھتا جاتا تھا، اس نے مجھے اس طرح غور سے دیکھتے ہوئے پوچھا : '' کیا بات ہے کیا دیکھ رہے ہو؟‘‘ میں نے کہا یہ نیا رنگ کہاں سے چڑھوایا ہے؟پہچانے ہی نہیں جارہے تھے۔ہمیں بھی یہ رنگ چڑھوائو‘‘۔
بولا : '' توبہ توبہ ، یہ عاجزوں اور مسکینوں والا رنگ ہے، اور چودھراہٹ پر یہ درویشی رنگ نہیں چڑھا کرتا۔‘‘
میں نے کہا : '' کچھ تو بتائو کوئی اتا پتا؟ ‘‘ بولا : '' بس یہ سب کچھ ایک سیّد بادشاہ کا کرم ہے، میرا کوئی کمال نہیں ، ہری پور کے قریب ایک پہاڑ پر ان کا آستانہ ہے۔‘‘
میں نے جھٹ کہہ ڈالا: '' مجھے لے چلو۔‘‘
وہ کہنے لگا '' تمہارے بس کا کھیل نہیں چودھری‘‘۔ اور پھر مسلسل ٹال مٹول کرنے لگا۔میرے اصرار پر کہنے لگا کبھی وقت ہوا تو چلیں گے۔
میں نے کہا نہیں ابھی چلنا ہے ۔ وہ ٹس سے مس نہ ہوا تو میں نے آخری پتہ پھینکا۔ میں نے کہا: '' حشر کے روز اگر مجھ سے پرسش کی گئی کہ تم نے صراطِ مستقیم کے لئے کیوں کوشش نہ کی،کیا تمہیں کوئی بندہ دکھائی نہ دیا،جس سے تم بھی راہ پا سکتے تو میں صاف تمہارا نام لے دوں گا کہ اس شخص کو میں نے بہت کہا تھا مگر اس نے مجھے کوئی اتہ پتہ نہ دیا۔‘‘ میری یہ چال کام کر گئی۔میری اِس دھمکی سے اس کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔ بولا: '' چودھری ارشاد ! تم پھنے خاں قسم کے آدمی ہو، میں تمہیں وہاں لے تو جائوں، مگر وہاں یہ چودھراہٹ نہیں چلتی ،دوسری بات یہ ہے کہ اِس وقت میرے پاس پھوٹی کوڑی بھی نہیں وہاں جانے کے لیے کچھ خرچہ کرایہ بھی درکار ہوتا ہے‘‘۔ میں نے کہا '' اس کی تم فکر نہ کرو‘‘، میں نے جیب سے اپنے سارے نوٹ نکال کر اس کے سامنے ڈھیر کر دیے۔ اب اس کے انکا ر کی کوئی گنجائش نہ تھی۔ہم نے اسی وقت ہر ی پور کی بس پکڑی اور پنڈی سے براستہ ٹیکسلا اپنی منزل کو روانہ ہو گئے۔ ہری پور سے کچھ کوس پیدل راستہ بھی تھا،آستانے پر پہنچے تو سّید بادشاہ صحن میں ٹہل رہے تھے۔یوں محسوس ہو رہا تھا، جیسے وہ بے چینی سے انتظار کر رہے تھے۔ہم پہنچے تو میں جھٹ جوتا اتار کر سرکار کی قدم بوسی کے لیے آگے بڑھا ،چودھری بہادر بوٹوں کے تسمے کھولتا رہ گیا پھر اس نے سلام کرنا چاہا تو سرکار نے اس کو کاندھوں سے پکڑ کر اٹھا لیا اور فرمایا : '' تم تو آہی نہیں رہے تھے۔ تمہیں تو یہ زبردستی ساتھ لایا ہے۔‘‘
یہ سن کر میں حیران رہ گیا کہ جو باتیں ہم دونوں کے درمیان پنڈی میںہوئی تھیں انہیں کیسے پتہ چل گیا؟
وہ دن اور آج کا دن سرکار کے قدموں سے دور نہیں گیا ۔ میری ساری ''پھنے خانی ‘‘ اور چودھراہٹ دھری کی دھری رہ گئی ہے۔اب تو اِ س بات کو بھی پینتیس برس ہوچکے ہیں۔اپنا آپ ان کے سپرد کر دیاہے۔
شاہ جانے تے راہ جانے
بات یہ ہے جی بندہ کسی سچے سائیں کے لڑ لگ جائے تو منزل مل ہی جاتی ہے۔مجھے معلوم نہیں یہ پیری فقیری کیا ہے؟ لیکن اتنا یقین ہو چلا ہے کہ من صاف ہو جائے تو بات بن جاتی ہے۔کبھی میں سوچتا تھا کہ درویش پیر فقیر یا مرشددھوبی کی طرح بندے کو چھٹ کر صاف کر دیتے ہیں۔یا پھر فقیری شاید کسی پھکی کی چٹکی کا نام ہے کہ حلق میں اتارتے ہی چودہ طبق روشن ہو جاتے ہیںمگر بہت دیر بعد پتہ چلا یہ من مارنے اور دوسروں کی ''داری‘‘ کرنے کا نام ہے۔حرص و ہوس اور خواہشات سے من خالی ہو جائے تو کچھ نہ کچھ ''اپنی‘‘ سمجھ آنے لگتی ہے۔
تفکر اور تدبر بہت ضروری ہے۔ علامہ اقبال صاحب بھی تو فرماتے ہیں :
اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغِ زندگی
تُو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن
فرمایا : یہ جو اِس دور میں تصوف کی دکانیں کھلی ہوئی ہیں اور یہ جو لوگ ایک خاص منصوبہ بندی سے اپنی کتابیں بیچنے کے لیے تصوف کو سیڑھی بناتے ہیں، اللہ کے یہ بندے بھی اگر کبھی عمل کی کٹھالی سے گزر کر، اپنے اندر سے '' میں ‘‘ کی ''بو‘‘ ختم کر دیں تویہ بھی حقیقی حیات کا رخِ روشن دیکھ سکتے ہیں مگر نصیب نصیب کی بات ہے۔میں زیادہ پڑھا لکھا تو نہیں لیکن اتنا ضرور جانتا ہوں کہ بندہ بننے کے لیے اپنے اندر بھی ایک '' لگام ‘‘ سی ڈالنی پڑتی ہے اور اسے اپنے ہاتھ میں رکھنا پڑتا ہے۔ فطرت سے قرب بڑھانے سے ہی مٹی کی تاثیر ہاتھ لگتی ہے۔ مٹی سے خود کو '' مَس ‘‘ رکھنے کے اپنے فائدے ہیں ۔ خاک نشینی کا مزہ بتایا نہیں جاسکتا ، اس کے لیے تو '' بوریا نشیں ‘‘ ہونا پڑتا ہے ۔ جن لوگوں کو نام و نمود کا گھُن اندر سے چاٹ رہا ہو، وہ زبان سے کچھ کہتے رہیں یا جو جی چاہے حلیہ بنا لیں ،کچھ حاصل نہیں کر پاتے ۔ بندہ بندے کا دارُو ہے، دوسروں کی بہتری اور خوشی حاصل کرنے کی کوشش، انسان کو اپنی بہتر ی اور سچی خوشی کی طرف لے جاسکتی ہے۔ ہم نے تو سرکار سے علم کے پانچ درجوں کا سنا ہے : پہلے خاموش رہنا سیکھو؛دوسرا توجہ سے سننا ، تیسرا جو سنو اسے یاد رکھو ،چوتھا جوکچھ علم حاصل ہو اس پر عمل بھی کرو۔آخری یہ کہ جو علم حاصل ہوا اُسے دوسروں تک پھیلا ئو‘‘۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں