گلابوں والی گلی کا اگلا موڑ

'' میرے پاس بہت سے آنسو تھے جنہیں میں اپنی سہیلیوں میں بانٹ دیا کرتی تھی،
پھر یوں ہوا کہ سہیلیاں مجھ سے روٹھ گئیں،
میرے پاس انہیں دینے کے لئے آنسو نہیں رہے ، 
میں اپنی گود میں آ گری‘‘۔
نسرین انجم بھٹی کی نظم کی یہ سطریں میرے حافظے میں جانے کب سے محفوظ ہیں، میں انہیں پڑھتا ہوں تو مجھے نہ جانے کیوں گلابوں والی گلی کی نیلم احمد بشیر یاد آجاتی ہے، شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوکہ نیلم کے لفظوں کی ہر پور میں دردمندی کی '' لو‘‘ روشن دکھائی دیتی ہے۔
بہت عرصہ قبل طاہر اسلم گورا نے ایک کتاب '' گلابوں والی گلی ‘‘ شائع کی جس کی بہت دھوم مچی تھی، پہلی کتاب سے مشہور ہونے والے مصنف خال خال ہوتے ہیں ، نیلم کی کتاب سامنے آئی تو لوگ گلی کو بھول کرگلابوں والی سے متعارف ہو گئے۔ نیلم کا پہلا تعارف ان کے والد احمد بشیر تھے جنہیں باغی روح قرار دیا جاتا ہے۔ احمد بشیر تمام عمر نہ صرف مصلحتوں سے دُور رہے بلکہ اپنی انا اور سچائی کے عوض کبھی کسی سمجھوتے کو قبول نہ کر سکے۔احمد بشیر اپنے ارد گرد ایک پُر امن معاشرے کی تعبیر پانے کی آرزو میں خود تو خواب بن گئے لیکن اپنے پیچھے روشنی کی ایک لکیر چھوڑگئے۔ اسی روشنی کو غور سے دیکھیں تو اپنی پیشانی پراحمد بشیر لکھوائے ہوئے ہمیں نیلم نظر آتی ہے۔ ممتاز مفتی، اشفاق احمد، اے حمید اور احمد بشیر وہ بڑے لوگ تھے جو انسان کو آسودہ دیکھنے کے تمنائی تھے۔ وہ لوگ ہمارے آس پاس تھے تو زندگی کا ایک احساس سا ہوتا تھا۔ اِس وقت شہر ایسے لوگوں سے خالی ہو چکا ہے اور یہاں حکمرانوں کے چمچے اور دنیا کی حرص وہوس میں '' ناکوں ناک ‘‘ دھنسے ہوئے مسخرے باقی رہ گئے ہیں ۔ شہر میں چرب زبانوں کی چاندی ہے۔ برائلر زدہ معاشرے میں لوگوںکا احساس مردہ ہو چکا ہے۔ مسائل میں گھرے عوام خوابوں کے چیونگم منہ میں رکھے بڑبڑاتے ہیں‘ مگر بولتے نہیں۔ ہر نسل کی اپنی پہچان ہوتی ہے، ہر صدی کے اپنے نوحے اور المیے ہوا کرتے ہیں ۔ادیبوں کی نئی نسل اپنے کرپٹ سینئرزکے کرتوت دیکھ کر انگشت بدنداں ہے۔ اسی کربناک عہدکی ایک تخلیق کار نیلم احمد بشیر ہے جو صرف افسانے نہیں لکھتی بلکہ '' بین ‘‘ تخلیق کرتی ہے ۔ مجھے ڈر ہے کہ اسحاق ڈار' بین‘ پر بھی بین یا ٹیکس نہ لگا دیں ۔ سچ تو یہ ہے کہ سچ کہنے والے احمد بشیرکو لوگ بھول نہیں سکے، انہوں نے ایک بار حلقہ اربابِ ذوق کے اجلاس میں'' چھپن چھری‘‘ کے نام سے کشور ناہیدکا خاکہ اڑایا تو سننے والے دم بخود رہ گئے۔ احمد بشیرکے خاکے ''ادبی خود کش دھماکے‘‘ تھے۔ انہوں نے کئی مردہ ضمیروں کو بے نقاب کیا، یونس جاوید نے اچھے وقت میں جرأت دکھائی اور وہ خاکے یکجا کرکے شائع کر دئیے۔ مجھے یاد ہے ''جو ملے تھے راستے میں‘‘ بہت فروخت ہوئی تھی۔ آج احمد بشیر ہم میں موجود نہیں مگر نیلم ہمارے ساتھ ہے، پروین عاطف کی آواز بھی گونج رہی ہے۔ فرسودہ رسموں رواجوں کا باغی یہ خاندان ایک دیئے کی طرح شہر میں روشن ہے۔ یہ درست ہے کہ عورتوں کے حقوق کے لئے آواز اٹھانے والی ''این جی اوز‘‘ موجود ہیں ، مظلوم خواتین کے نام پر فنڈز ہڑپ کرنے والے صرف تقریریں ہی کر سکتے ہیں مگر سچا اورکھرا لکھنے والی نیلم احمد بشیر جیسے ایک ہاتھ کی انگلیوں پرگنے جاسکتے ہیں۔
غورکریں تو وطنِ عزیز میں آج بھی ایسے علاقے موجود ہیں جہاں عورتیں پیاز سے روٹی کھاتی ہیں، دیہات میں عورتیں گائے بیل کی طرح ہل میں جتی مشقت کرتی دیکھی جاسکتی ہیں۔ شہروں میں بہت سی خواتین اپنے کنبوں کی واحدکفیل کی زندگی گزارتی ہیں۔ ہم عورتوں کے حقوق کی باتیں کرتے ہیں، لیکن مجھے تواُن خواتین پر ترس آتا ہے جو معمولی سی شہرت کے لئے اپنا سب کچھ قربان کر بیٹھتی ہیںاور مردوںکے اِس معاشرے میں'' ہنسی خوشی‘‘ اپنا استحصال قبول کرلیتی ہیں ۔ دوستو! زندگی بڑی مشکل ہوگئی ہے۔ ہر صبح جس طرح لوگ ناشتہ لینے بازار کو نکلتے ہیں، سفید پوش کمانے کے لئے گھر سے رخصت ہوتے ہیں مگر آسودگی ان کے ہاتھ نہیں آتی، یقین نہ آئے تو نیلم احمد بشیر کی کہانیاں پڑھ لیں ۔ نیلم ایسے ہی حقائق افسانے بنا کر لکھتی ہے۔اس نے'' ابّا پیا ‘‘کے نام سے جو خاکہ تخلیق کیا، حساس دلوں کو تڑپاکے رکھ دیتا ہے۔ اس کی تحریر میں ایک خاص کشش ہے، ایسی کشش جو پاکیزہ چہروں میں ہوتی ہے۔ نیلم کے لفظ دل کے تاروں کو چھوتے ہیں۔ اس نے امریکہ کی'' پوش لائف ‘‘ کو ٹھوکر پہ رکھا اور وطن کی دُھول مانگ میں سجا لی اس لئے کہ وہ احمد بشیرکی بیٹی ہے ، اسے وطن کا حبس زدہ ماحول ہی عزیز ہے ، اسے یقین ہے :
حبس مہمان ہے گھڑی پل کا
چند سانسیں ابھی بچا رکھنا
وہ شہرکو زندہ دیکھنا چاہتی ہے، یہ شہر وہ نہیں جو تین عشرے پہلے ہوا کرتا تھا۔اسے شہرکی وہ خوشگوار شامیں بہت یاد آتی ہیں مگر یہ ان دنوں کی بات ہے جب انسانی گوشت چیتھڑوںکی شکل میں دیواروں پر چپکا نظر نہ آتا تھا ۔ خود کشی تو تھی لیکن ابھی خود کش حملوں نے جنم نہیں لیا تھا۔ لوگ اپنی شامیں ریستورانوں میں چائے کے کپ پرگھنٹوں باتیں کر کے گزارتے تھے۔ ان محفلوں میں شعرو ادب، موسیقی، فلموں، کتابوں ، رنگوں اور پھولوں کی باتیں ہوتی تھیں۔ آج لوگ ایک دوسرے سے اپنی خوشیاں چھپانے لگے ہیں ، کوئی کسی کو دیکھ کر خوش نہیں ہوتا، لوگوں کے پاس مسکرانے کے لئے بھی وقت نہیں ۔ نیلم اسی تیز رفتار سماج کی عکاس ہے۔ وہ ناقدری کے دورکی تخلیق کار ہے۔ عورت تو تخلیق کا سمبل ہے۔ اس کا فن پارہ انسان ہے مگر یہی عورت جب اپنے باطن کے دکھ کاغذپر لاتی ہے تو مردانہ معاشرے کے ماتھے پر بل پڑ جاتے ہیں ۔ لیکن نیلم کو اس کی کوئی پروا نہیں ، وہ شہرت کے لئے کبھی ہانپتی کانپتی دکھائی نہیں دیتی ۔ مجھے سب سے زیادہ خوشی اس وقت ہوئی جب قاہرہ کی ایک مصری اردو پروفیسر ڈاکٹر رانیا فوزی نے مجھ سے نیلم کی کہانیوں پر بات کرنے کے لئے وقت مانگا۔ وہ ان کہانیوں کا عربی میں ترجمہ کر رہی تھی۔ میں نے نیلم کی کہانیوں کی علامات اوراستعاروںکو سمجھانے میں اس کی مدد کی تھی۔ اب وہ کہانیاں عربی زبان میں ترجمہ ہوکر پورے خطہ عرب سے داد پا رہی ہیں ۔ کیا یہ کوئی کم اعزاز ہے؟ نیلم کی تازہ تصنیف '' وحشت ہی سہی‘‘ آپ پڑھ کر دیکھ لیں ، وہ ڈائجسٹوں کی لکھاریوں کی طرح نہیں جو ہمیشہ زیورات، ملبوسات ، بڑے بنگلوں ، قیمتی گاڑیوں اور وجیہ صورت محبوبوں کے خوابوں کو تخلیق کرتے ہیں اور خود نا آسودگی کے اندھیروں میں زندہ رہتے ہیں ۔ نیلم وہ بخت آور ہے جس نے ممتازمفتی کی آواز اپنے کانوں میں فیڈکر رکھی ہے۔ ممتا ز مفتی کی تھپکیوں کا لمس اس نے اپنے لفظوں میں سنبھال رکھا ہے۔ وہ لفظوںکو سانپ کی بجائے پھول بنانا پسند کرتی ہے۔ نیلم اگر افسانے نہ لکھتی تو بھی وہ مشہور ہوتی کہ اس کی آواز میں بانسری کے سُر شامل ہیں جن سے پیاسی روح کے بین نکلتے ہیں ۔اس نے اپنی بھورا بھورا زندگی کو یکجا کرکے روشن کتاب بناد ی ہے جس میں ہمارا '' آج ‘‘ سانس لیتا نظر آتا ہے۔اس کتا ب کے کردار اردگرد جابجا دکھائی دیتے ہیں۔ بقول ممتاز مفتی وہ واقعی رس اور رنگ کی پیار ی گاگر ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں