تکیے والے

آباد بستیوں سے پرے، ٹیلوں کو اندر سے کھود کر بنائے گئے حجرے تھے، جن کے اندر درجہ حرارت ہمیشہ معتدل رہتا ہے‘ سردیوں میں یہاں قدم رکھیں تو گرمائش اور گرمیوں کی تپتی دوپہروں میں پائوں حجرے میں دھریں تو جیسے کسی ایئرکنڈیشنڈ کمرے میں داخل ہو گئے ہوں۔ ٹیلوں سے بنے حجروں کے آگے برآمدے اور دو چھوٹے چھوٹے نیم پختہ کمرے اور برآمدے میں الائو... اللہ اللہ! 
انہی ٹیلوں کے آگے کی طرف کشادہ، شاداب میدان اور اس کے ارد گرد آسمان کی بلندیوں سے رازونیاز میں محو، سرووصنوبر اور شہتوت و شیشم کے آپس میں گلے ملتے پیڑ، ہمراہ اِملی، آڑو اور لیموں کے پودے اپنے آس پاس، موتیے اور گلاب کی کیاریوں سے اٹھتی خوشبو میں جھومتے دکھائی دیتے تھے۔ اِس شاداب منظر کے عین درمیان میں چھوٹا سا مزار یوں نظر آتا تھا جیسے کسی گھنے جنگل کے ایک کونے میں کوئی سادھو اپنے دھیان گیان میں گم ہو... سبحان اللہ کیا روح پرور نظارہ تھا جسے مور اور تیتر کی آوازوں نے مزید مسحورکن بنا دیا تھا۔ دنیا کے ہر جھنجھٹ سے پرے اِس شاداب ''گوشۂ عافیت‘‘ میں قدم رکھتے ہی دل جیسے سکون و اطمینان سے لبالب بھر گیا تھا۔ ان سے ملاقات اِسی جنت نظیر گوشے میں ہوئی تھی۔ پہلی نظر ان کے چہرہ پُرنور پر پڑی تو مجھے کچھ عرصہ پیشتر کا وہ خواب یاد آ گیا جو مسلسل تین روز تک میں دیکھتا رہا تھا۔ یہ اُن دنوں کی بات ہے جب شیتل ماڑی والے سائیں جی (توتاں والی سرکار) نے پردہ فرمایا تھا۔ سائیں جی کا داغِ مفارقت میرے لئے ایک عظیم صدمہ تھا، ان کی یاد میں آنکھیں ہر وقت اشکبار رہتی تھیں۔ طبیعت کسی کام میں نہیں بہلتی تھی۔ ایک روز خواب میں کیا دیکھتا ہوں کہ میں سائیں جی سے ملنے جا رہا ہوں۔ دور سے وہ مجھے چٹائی پر بیٹھے دکھائی دیتے ہیں، پاس جاتا ہوں تو وہ صورت ایک اور صورت میں ڈھل جاتی ہے۔ کیا نورانی صورت تھی، سر پر سندھی ٹوپی، بدن پر گرم دُھسا، وہ اسی چٹائی پر بیٹھے تھے۔ آج ایک عرصے بعد خواب میں دیکھی وہی صورت اپنے سامنے پائی تو وہ سارا خواب میری آنکھوں میں گھوم گیا۔
دل نے کہا کہ زندگی کی راہ میں دوسری بار شیتل ماڑی آ گئی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ یہاں ''شیتل ماڑی‘‘ کا نام ''تکیہ شریف‘‘ ہے اور یہ گوشہ عافیت ملتان نوبہار نہر (نزد لاری اڈا) کی بجائے ٹیکسلا سے حطار اور ہری پور جاتے ہوئے راستے میں آتا ہے۔ میری نظر ان کے چہرے پر تھی۔ ان کی آنکھوں میں ضرور کوئی ایسی کشش تھی کہ دیکھنے والے کو اپنی طرف کھنچ لیتی تھیں۔ چہرے پر داڑھی نہ تھی، ہاں مونچھیں ضرور تھیں، وہ مسکرا مسکرا کر اردگرد بیٹھے افراد سے باتیں کر رہے تھے۔ ہمیں بھی وہ تپاک سے ایسے ملے جیسے برسوں کے شناسا ہوں۔ دیر تک وہ ہماری طرف متوجہ رہے‘ دل کے ساتھ برآمدے میں بھی ایک الائو سا جل رہا تھا اور چائے کا دور بھی۔ 
بارش کی برستی بوندوں کی طرح اُن کی باتیں دل کی دھرتی پر کِن من کِن من برس رہی تھیں۔ اچانک ان کے منہ سے ایک آہ کے ساتھ شیتل ماڑی کا لفظ نکلا تو جیسے میرے دل کی دھڑکن ایک لمحے کے لئے رُک سی گئی تھی۔
لیکن اس سے آگے کوئی بات نہ چلی، میں چائے کی چسکیاں لیتے سوچ رہا تھا، شیتل ماڑی کا یہاں کوئی ذکر نہیں ہوا تو ان کے ہونٹوں پر اس بستی کا نام کیسے آ گیا؟ میں ابھی سوچوں کے بھنور میں ڈوبا ہوا تھا کہ آواز آئی: ''منظر پہلے دلوں کے اندر ہوتے ہیں، کوئی بنانا چاہے تو وہی منظر تخلیق کر کے سامنے لا سکتا ہے۔ یہ سارا منظر بھی ہمارا خواب تھا، آج لوگ ہماری تعبیر دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔‘‘
میں ایک بار پھر شیتل ماڑی کے ''من ٹھار‘‘ گوشے میں جا پہنچا، سائیں جی نے شہتوت کے درختوںکی لمبی قطاروں اور سر سبزوشاداب پودوں کے حوالے سے ایک بار فرمایا تھا: ''یہ سارا منظر، یہ نقشہ، کبھی ہمارے دل میں تھا، پھر ہم اِسے باہر لے آئے‘‘۔ 
بالکل وہی بات، جو کئی برس پہلے میں نے شیتل ماڑی میں سنی تھی‘ آج یہاں سن رہا تھا۔ یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے؟ میں نے اس سارے منظر کو دیکھا اور ان کی باتوں کی تائید کی۔ میں ان کی باتیں دھیان سے سن رہا تھا۔ کبھی کبھی ان کے لہجے اور آواز میں شیتل ماڑی والے سائیں جی کی جھلک دکھائی دینے لگتی... 
اس روز بہت سی باتیں ہوئی تھیں۔ شاعری کی باتیں، کتابوں کی باتیں، پھولوں اور رنگوں کی باتیں، دنیا میں انسان اور دور حاضر میں بے سکونی کے حوالے سے ان کے خیالات‘ جن کا لبِ لباب یہ تھا: ''انسان خواہشات کا غلام بن کر بے سکونی اور بے اطمینانی کی لہروں میں غوطہ زن ہے۔ انہی بے لگام خواہشات کے سبب، دل کسی پل چین نہیں پاتا، لیکن انسان ہے کہ دنیا کے مختلف اسباب و مصروفیات میں سکون تلاش کرتا رہتا ہے، پھر بھی ناکام رہتا ہے‘‘ وغیرہ وغیرہ... 
ان کی باتیں سن کر، ان سے مل کر دل کو بے حد سکون حاصل ہوا، یہاں پہنچ کر میں سوچ رہا تھا کہ اِس خواب آور گوشے میں ضرور کوئی پُراسرار شخصیت رہتی ہو گی یا پھر کوئی اسّی برس کا سفید ریش بابا آنکھیں بند کیے الائو کے پاس براجمان ہو گا‘ مگر یہاں تو ایسا کچھ نہ تھا۔ وہ تو اپنے لباس، گفتگو اور چال ڈھال سے ایک عام اور سادہ سے انسان تھے۔ شکل و صورت اور حلیے سے بھی وہ کسی طرح کوئی اللہ والے، پیر فقیر، درویش نہ لگتے تھے بلکہ پہلی نظر میں تو حلیے کے سبب ممکن ہے انہیں کوئی زمیندار، تاجر یا سیٹھ سمجھ بیٹھے۔ یہ تھے تکیے والے سید بادشاہ‘ میرے محسن۔ 
دوسری ملاقات ہری پور سے کچھ فاصلے پر ایک پہاڑ کی چوٹی پر ایک میلے میں ہوئی۔ یہ بھی ایک سید فقیر کا آستانہ تھا۔ پہلی نظر میں تو یہ ڈیرہ شاہین کا بسیرا دکھائی دیا۔ پہاڑ کی چوٹی پر رنگ و روپ کا میلہ لگا ہوا تھا۔ ملک بھر سے لوگ یہاں آئے ہوئے تھے۔ شہنائیوں اور ڈھول کی تھاپ پر والہانہ ''رقصِ درویش‘‘ کے یہ مناظر نہایت ہی روح پرور تھے۔ اہم بات یہ تھی کہ یہاں سب چٹائیوں پر بیٹھے تھے۔ شرکائے محفل کو خاموش اور سلیقے سے قطار در قطار، یہاں کا سادہ لنگر کھاتے دیکھ کر، مجھے بڑے بڑے ہوٹلوں میں سینکڑوں ڈِشوں پر مشتمل دعوتیں، ولیمے اور عشائیے یاد آگئے۔ پڑھے لکھے، کھاتے پیتے، خاندانی لوگ اور اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے یہ افراد کھانا کھلتے ہی کھانے پر، کئی دن کے بھوکے شیروں کی طرح ٹوٹ پڑتے ہیں۔ کھانا وافر مقدار میں ہونے کے باوجود وہاں ایسی چھیناجھپٹی ہوتی ہے کہ کبھی کبھار تو برتنوں کے ساتھ ساتھ میزیں بھی الٹ جاتی ہیں‘ لیکن فقیروں کی اس محفل میں سبھی افراد خاموشی سے، صفوں میں بیٹھ کر‘ پیٹ بھر کر کھانا کھاتے ہیں اور ذرا بدنظمی دکھائی نہیں دیتی۔کچھ ایسا ہی نظارا تھا اُس میلے میں۔ دوستوں کا کہنا تھا کہ یہاں آکر جیسے دنیا سے ناتہ ٹوٹ جاتا ہے۔ کوئی تو ایسا سحر ہے کہ درویشوں کے ڈیرے پر آتے ہی دنیا جہان کی فضول باتیں کبھی یاد نہیں آتیں۔ کوئی دکھ‘ کوئی مسئلہ آڑے نہیں آتا۔
گھروں کی پُرآسائش اور آرام دہ زندگی چھوڑ کر یہاں چند روز کا قیام آسان نہیں، سردی گرمی اور سفر کی ساری صعوبتیں کبھی کسی کو یاد نہیں رہتیں اور یہاں سے جانے کے بعد دوبارہ اسی میلے کا انتظار شروع ہو جاتا ہے۔ کچھ تو ہے درویشوں کی ان محفلوں میں ؎ 
تمنا دردِ دل کی ہو تو کر خدمت فقیروں کی 
نہیں ملتا یہ گوہر بادشاہوں کے خزینوں میں

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں