کچھ خود شناسی کے بارے میں

گئے دنوں کی بات ہے‘ ایک کالج پرنسپل کے دفتر میںچند اساتذہ، پرنسپل کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ ان میں سے دو کی آپس میں بحث تکرار شروع ہوگئی جو بڑھتے بڑھتے تقریباً جھگڑے کی صورت اختیار کر گئی،نوبت ہاتھا پائی تک آنے والی تھی کہ پرنسپل صاحب نے اپنے قریب بیٹھے ایک ساتھی کو آہستہ سے کہا: ''چلوسر! ذرا کلاسیں ہی چیک کر لیں‘‘۔ 
مطلب یہ کہ انہیں اپنے دفتر میں ہونے والے بے پناہ شور سے کوئی سرو کار نہ تھا،نہ ہی وہ کسی ایک پروفیسر کو روک سکتے تھے اور نہ ہی ان کی شخصیت میں وہ رعب و دبدبہ تھا کہ خود پروفیسر صاحبان ہی اس حد تک نہ جاتے،پرنسپل اس سارے جھگڑے سے بے نیاز دفتر سے خود باہر نکل گئے کلاسیں چیک کرنے، حالانکہ اس سے قبل یہ فرض بھی انہیں کبھی یاد نہ آیا تھا۔ 
کالجوں میں بھی ایسے بہت سے ٹیچر پائے جاتے ہیں جن میں سے بیشتر کلاس نہیں سنبھال سکتے۔ان کی کلاس میں موجودگی کے باوجود ایسے لگتا ہے کلاس خالی ہے کہ طلبا نے شور و غل سے کمرۂ جماعت سر پر اٹھایا ہوتا ہے۔ایسے ہی ایک لیکچرار نے ہمیں بتایا کہ: '' جب کلاس بہت ہی شور کرتی ہے تو بالآخر میں کلاس میں سے کسی ایک طالب علم کو تلاوتِ قرآنِ مجید کا حکم دے ڈالتا ہوں اور یوں احترام میں اچھی خاصی خاموشی چھا جاتی ہے۔‘‘ 
ویسے تو یہ ساری خرابی محکمہ تعلیم کی ہے کہ وہ ایم اے پاس کرنے والے کسی بھی نوجوان کو لیکچرار منتخب کر کے بغیر کسی تربیت کے کمرۂ جماعت میں بھیج دیتے ہیں۔ اساتذہ منتخب کرتے وقت رجحان بھی دیکھنا چاہیے اور پھر باقاعدہ ٹیچرٹریننگ بھی ضروری ہے۔ ٹیچر کلاس
کنٹرول کے ساتھ ساتھ اپنے مضمون پر مکمل گرفت کے بغیر ایک مثالی استاد نہیں بن سکتا۔اس وقت اگر چہ ہمارا موضوع اساتذہ نہیں‘ ہم کہنا یہ چاہتے ہیں کہ استاد ہو، کالج کا پرنسپل یا کسی ادارے کا سربراہ، اگر وہ قائدانہ صلاحیتوں اور دوسروں کے درد اور احساس سے یکسر محروم ہے تو پھر اُس کلاس، کالج یا ادارے کے نظم و ضبط کا خدا ہی حافظ ہے۔کہتے ہیں: ''پست گدھے پر ہر کوئی سوار ہو جاتا ہے‘‘ انسان کو ہر حال میں ایک متوازن شخصیت کا حامل ہونا چاہیے اور پھر ہمیشہ انہی شعبوں میں جانا چاہیے جن کی صلاحیت ان میں پائی جاتی ہو۔فی زمانہ اگرآپ اپنی شخصیت پر توجہ نہیں دیتے توکسی بھی محفل میں آپ کی کوئی اہمیت نہیں ہو سکتی۔ 
دیکھا جائے تو قومی سطح پر بھی ہمارا حال کچھ ایسا ہی ہے ۔ ہمارے اداروں میں باصلاحیت سر براہ کم ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ملکی سطح پر اگر قانون کی حکمرانی نہ ہو اور حکمران بھی کچھ زیادہ ہی '' شریف النفس‘‘ ہوں تو نظم و ضبط کا کیا حال ہوگا آپ ملاحظہ کر سکتے ہیں ۔ہماری کل جماعتی کانفرنسوں کا حال بھی ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ کسی ایک نقطے پر پہلے تو ہم اکٹھے ہی نہیں ہو سکتے اگر ہو جائیں تو ان فیصلوں پر عملدرآمد میں مشکلات درپیش ہوتی ہیں ، ایسا کیوں ہے؟ یہ سوچنے کی بات ہے۔ دراصل قوانین پر پہلے خود پورا اترنا پڑتا ہے ۔اگر حکمران خود ٹیکس نہیں دیں گے تو ان کے اردگرد کے لوگ ایسا کیوں کریں گے۔؟ ہمارے ہاں تو کابینہ میں بھی ایک 
رائے نہیں پائی جاتی۔ وزراء میں دھڑے بندی کی خبریں بھی سامنے آتی رہتی ہیں ۔بعض وزراء اپنی حدود سے بڑھ کر بھی بیانات دیتے رہتے ہیں۔یہاں ہر کوئی ہمیشہ دوسرے کے معاملے میں زیادہ دلچسپی لینے کی کوشش کرتا ہے ۔ ہمیں اپنی غلطیاں دکھائی نہیں دیتیں۔ ہم بس ہمیشہ دوسروں پر تنقید کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں ۔ ہمیں ہمیشہ دوسروں کی کو تاہیاں نظر آتی ہیں ۔ ہماری عینک ہمیں دوسروں کے عیب دکھاتی ہے۔زندگی کے کسی بھی شعبے کو لے لیں ہر جگہ آپ کو یہی کچھ دکھائی دے گا۔ایک اور اہم بات کہ ہم میں برداشت بالکل ختم ہو کر رہ گئی ہے۔ایسا کیوں ہے ؟اِس پر ہم غور ہی نہیں کرتے۔ اصل بات یہ ہے کہ ہم نے اسی زندگی کو سب کچھ سمجھ لیا ہے۔ کہنے کو ہم سب مسلمان ہیں، ہمارے دین کے بارے میں کوئی بات کر تو دیکھے‘ لیکن یہی دین ہمیں جو کچھ سکھاتا ہے ہم اس پر عمل نہیں کرتے۔
حالانکہ رب ِذوالجلال نے انسان کو دیگر مخلوقات سے بہت بہتر بنا کر بھیجا ہے۔ کائنات کی ایک ایک چیز انسان کے لئے ہے یہاں کچھ بھی بے سبب نہیں، درخت، پہاڑ، دریا،صحرا، چرند، پرند سب انسان کی بہتری کے لئے اپنے اپنے دائرے میں مصروف ِعمل ہیں ، وہ قدرت کے بنائے ہوئے ضابطوں سے کسی لمحے انحراف نہیں کرتے۔آپ غور کریں گے تو حیران ہو جائیں گے کہ درخت اپنی چھائوں میں نہیں بیٹھتے، نہ ہی اپنا پھل کھاتے ہیں۔ ندی اپنا پانی نہیں پیتی، کائنات کی ایک ایک شے چپ چاپ خدمت میں مصروف نظر آتی ہے ، وہ شکوے گلوں سے بے نیاز اپنے کام میں مگن ہے ،دیکھا جائے تو ہر شے اپنی زندگی بسر کر رہی ہے۔ لیکن ایک اصول اور ضابطے کے ساتھ۔بس ایک حضرت ِانسان ہے کہ اسے عقل ، فہم فراست اور شعور کی دولت ملنے کے باوجود بھی ،کسی حال میں راضی نہیں ہوتا ، وہ تسلیم و رضا کے فلسفے پر بہت کم توجہ دیتا ہے۔ہم ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے ہر وقت بے تاب رہتے ہیں ۔ حالانکہ ہمیں ہمارا دین محبت ، پیار، ہمدردی کا درس دیتا ہے۔اور اگر ہم اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بتائے ہوئے اصولوں پر کار بند ہو کر زندگی گزاریں تو دونوں جہانوں میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ ہم محبوبیت کے درجے پر فائز ہونا تو چاہتے ہیںمگر اس کے لئے ایثار کے فلسفے کو پسند نہیں کرتے۔شخصیت سازی کی تشکیل کے لئے ہمیں اپنے آپ پر نگاہ ڈالنا ہو گی، اپنے روز و شب اور دوسروں کے ساتھ اپنے رویے کو مدِنظر رکھنا ہوگا ۔اگر آپ ایک اچھا انسان بننا چاہتے ہیں تو خود احتسابی پر توجہ دیں، رات بستر پر پڑتے ہی اپنے دن بھر کو دھیان میں لائیں کہ سارا دن آپ نے کیسے گزارا؟ وہ جو کہا جاتا ہے کہ اپنا ہر دن آخری سمجھ کر گزارو،ایک دن مکمل ہونے پر اس کا گوشوارہ دیکھیں، سارا دن کتنے لوگوں کو آپ سے رنج پہنچا،کتنے لوگ آپ سے دکھی ہوئے ،کس کس کی آپ نے دل آزاری کی، کون آپ سے خوش ہوا،اس طرح ہر روز اپنے اعمال کا جائزہ لینے کی عادت سے آپ اپنے آپ میںایک تبدیلی محسوس کریں گے۔اگر دن بھر آپ نے ایسا کوئی عمل نہیں کیا جس سے آپ شرمندہ ہوں تو بہت اچھی بات ہے، رات کو سوتے وقت بستر کو '' لحد ‘‘ سمجھ کر سونے والا کبھی نہیں بھٹکتا ۔ مثبت سوچ رکھیے، دوسروں کی شکایت کرنے کی عادت ترک کیجیے، معاف کرنا سیکھیے، کہ کوئی بھی شخص دانستہ غلطی نہیں کرتا۔ انسان بہرحال خطا کا پتلا ہے۔دوسروں کے عیبوں کو دیکھنے کی بجائے اپنی کوتاہیوں کو دھیان میں رکھیں، دوسروں کی غلطیوں سے اپنی اصلاح کریں کہ مومن، مومن کا آئینہ ہے۔ 
ایک بزرگ کہتے ہیں کہ میں نے ساری اچھی باتیں بے وقوفوں سے سیکھیں کہ احمق اور نادان غلطی کرتے تھے، انہیں جوتے پڑتے، برا بھلا کہا جاتا، میں اپنا احتساب کرتا اور وہ غلطی کبھی نہ کرتا ع 
اپنا آپ سنبھال محمد جو کرنا سو بھرنا
بھرتری ہری ایک جگہ لکھتے ہیں:
''سیاست دان مذمت کریں یا تحسین، دولت رہے یا چلی جائے، موت چاہے آج آجائے یا ایک جگ کے بعد ، حوصلہ مند لوگ انصاف کے راستے سے ایک قدم ادھر ادھر نہیں ہوتے‘‘۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں