احساس کی دولت

ٹریفک جام تھا۔گاڑیوں کی لمبی قطاروںمیںلوگ بے چین ہورہے تھے۔ ہر گاڑی والا باہر نکل کر آگے کی رکاوٹ کے بارے میں بے تابی سے جاننے کی کوشش کررہا تھا ۔ بعض پیچھے ہی سے اپنی گاڑیاں موڑکرکسی اور''شارٹ کٹ‘‘ کی تلاش میں جا رہے تھے۔ پھر پتہ چلا کہ آگے دو گاڑیوں والے بیچ سڑک کے دست بگریبان ہیں۔غلطی سے کسی ایک کی گاڑی دوسرے کی گاڑی سے ٹکراگئی اور تماشہ لگ گیا۔ بیچ بچائو کرانے والوں اور تماش بینوں کی بھیڑ بڑھ رہی تھی اور ٹریفک مکمل جام تھی۔ میں اپنی گاڑی میں بیٹھا سوچ رہا تھاکہ آخر لوگ ذرا سی بات پر آگ بگولا کیوں ہو جاتے ہیں؟لوگوں میں صبر، برداشت اور ایک دوسرے کا احساس کیوں ختم ہوتا جارہا ہے؟ ہم دوسرے کی ذرا سی کوتاہی پر اس کے گریبان تک کیوں جا پہنچتے ہیں؟ کیوں معمولی سی بات پر بھڑک اٹھتے ہیں ، فوراً مقابلے پر اُتر آتے ہیںاوردوسرے کو نیچا دکھائے بغیر چین سے نہیں بیٹھتے؟
آپ بھی اردگرد نظر ڈالیں گے تو ایسے ہی مناظر دکھائی دیں گے۔ایک عجیب سی بھاگ دوڑ اور آپا دھاپی کاعالم ہے۔ خود نمائی اور خود ستائی میں بھی ہم بہت آگے جا چکے ہیں۔ ہر کوئی اپنے آپ کو دوسرے سے بڑھاکر پیش کرنا چاہتا ہے۔ لوگ اپنی تعریفیں خود کرنے کے عادی ہوتے جارہے ہیں۔گفتگو کرتے وقت بھی دوسروں کو نیچا دکھا کے اپنی انا کو تسکین پہنچاتے ہیں ۔کیا دوسرے کو نیچا دکھانے سے دل تسکین پاسکتا ہے؟یہ بھی سوچنے کی بات ہے۔ ہم دولت ،شہرت ، طاقت، اثرورسوخ اوراپنی بڑائی ثابت کرنے میں ہمیشہ پیش پیش رہتے ہیں۔ اِس تگ و دو میں بھلے دوسرے کی عزت ِنفس تار تار ہو جائے، دوسرے کا دل ریزہ ریزہ ہو یا کوئی شرم سے پانی پانی ہوجائے ، ہمیں اِس سے کوئی سروکار نہیں ۔ دانش کی راہ دکھانے والے آج کے اہلِ قلم تواپنی روزمرہ مصروفیات گِنواکر اپنے آپ کو'' اہم ‘‘ ثابت کرنے سے نہیں چوکتے۔ آپ کسی بھی نمایاں ادیب ،شاعرکو فون کرکے دیکھ لیںکچھ اِس قسم کی گفتگوسنیںگے : ''بس یا رکل ایک عالمی کانفرنس میں شرکت کے لیے جا رہا ہوں۔تیسرے روز فلاں شہر میں مشاعرے کی صدارت کرنی ہے،جمعرات کو ایک سرکاری کمیٹی کی میٹنگ میں جانا ہے۔ بس یار اب تو وقت ہی نہیں ملتا۔ واپس آکر تم سے رابطہ کروں گا‘‘۔ یا
'' رات تم فلاں وزیر صاحب کے کھانے میں دکھائی نہیں دیئے،اوہ ! یاد آیا، یاراتوارکو گورنر نے چائے پرکالم نگاروں کو بلا رکھا ہے۔ بس یار، بندہ کہاں کہاں جائے۔ میںتو کئی اہم مشاعرے (بھاری لفافے والے ) بھی چھوڑ دیتا ہوں ،اب سفر نہیں ہو سکتا۔اِس بار امریکہ میں میرا جشن ہوا تو بمشکل ہی سفرکیا وہ بھی اس لئے کہ دوست ناراض نہ ہوجائیں۔اب کوئی ٹکٹ بھجوادے توکیسے انکارکیا جاسکتا ہے؟ناں ناں کرتے، اگلے ماہ کینیڈا کا وعدہ کر لیا ہے ورنہ وہ لوگ میرا حقہ پانی بندکر دیں گے۔
ایوارڈ کی کیا بتائوں ،اب تو نشانِ حیدر ہی باقی رہ گیا ہے۔۔۔ہاہاہا‘‘۔
یہ باتیں کرنے کا مقصد صرف اور صرف اپنے بارے میں تازہ خبریں اور خصوصاً اپنی فتوحات کا تذکرہ ہوتا ہے اور دوسر ے کو یہ باورکرانا ہوتا ہے کہ میں ہی اس وقت سب سے اہم دانش ور، اینکر پرسن اور کالم نگارہوں۔ صدر، وزیر اعظم اور وزراء صبح اٹھتے ہی سب سے پہلے نہ صرف میرا کالم پڑھتے ہیں بلکہ صبح فون پر مجھے ''صبح بخیر ‘‘ بھی کہتے ہیں۔اصل بات یہ ہے کہ ہم آس پاس کے لوگوں کو ہر حال میں ''متاثر ‘‘ کرنا چاہتے ہیںکہ جو چیز ہمارے پاس ہے وہ اُن کے پاس نہیں ہے۔ فطرتاً اکثریت ایسے ہی لوگوں کی ہے جو دوسروں کی کامیابی برادشت نہیں کر سکتے۔ ہم میں سے بیشتر لوگ کسی کی اچھی شے دیکھ کر کڑھنے لگتے ہیں۔ یہ حسد اور جلن اگرکوئی عام اور محروم شخص کرے تو بات سمجھ میں آتی ہے مگر عموماً جس کے پاس عالی شان گھر ،گاڑیاں ، پلاٹ ،کاروبار، طاقت اور اثرو رسوخ ہوتا ہے‘ وہ بھی اپنے ارد گرد کسی دوسرے کو خوش نہیں دیکھ سکتا بلکہ ایسے لوگوں میں حسد کچھ زیادہ ہی نظر آتا ہے۔ایک مرحوم ادیب کو جب صدارتی ایوارڈ ملا تو دوست کو ملنے گئے، میزبان دوست نے کہا پریشان لگ رہے ہو،اب تو تمہاری ادبی صلاحیتوں کا اعتراف کر لیا گیا ہے، اب کیوں بجھے بجھے ہو؟تمہیں تو خوش نظر آنا چاہیے۔ بزرگ بولے : '' وہ تو تمہاری بات ٹھیک ہے اور خوش تو میں ہوں مگر ایسے ایوارڈ کا کیا کرنا جو اگلے سال فلاں ادیب کو بھی مل جائے گا‘‘۔
یہی ہماری قومی نفسیات ہے ۔ ہم دکھی ہیں تو اس لئے کہ اب ہمارے بعد یہ خوشی کسی اورکو مل جائے گی۔ایسے حاسدین اپنی خوشی کو بھی انجوائے نہیں کر پاتے۔ بقول شخصے اِس زمانے میں اپنی خوشیوں کو بھی چھپا کر رکھنا چاہیے۔خوشیوں اور کامیابیوں کی تشہیر سے نہ جانے کتنے لوگوں کا احساسِ محرومی شدت اختیار کر لیتا ہے۔ ہمیں اپنی خوشی کے ساتھ دوسروں کی محرومیوں کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔
یہ جو لوگ گرمیوں میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے دوران جنریٹرز یا ''یو پی ایس‘‘وغیرہ لگا لیتے ہیں،انہیں ایک بلب اور ایک پنکھا چلانے والوں کا احساس کرنا چاہیے کہ اس گرمی میں وہ مچھروں کی یلغار میں کیا کرتے ہوں گے ؟ پانچ چھ ہزار ماہانہ کمانے والے کیسے گزارا کرتے ہوں گے؟ یہ ہمارا وزیر خزانہ کیسے جان سکتا ہے؟ مگر ہمارے سیاستدان، جمہوریت بچانے کی فکر میںدُبلے ہوئے جاتے ہیں۔اِس نام نہاد جمہوریت کو برقرار رکھنے کے لیے وہ سب ایک دوسرے کو پسند نہ کرنے کے باوجود اکٹھے نظر آنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ احساس کی دولت دلو ں سے کیوں اٹھ گئی ہے؟
شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اس مادی دنیا کو ہی سب کچھ سمجھ لیا ہے۔ حرص و ہوس نے ہمارے دلوںکو قبضے میں لیا ہوا ہے۔آج کے انسان کو تفکراورتدبرکی ضرورت ہے مگر ہم تو اپنی خوراک، جس کے بغیر ہم زندہ نہیں رہ سکتے ،کی فکر بھی نہیں کرتے کہ ہم ہر روز یہ کیا کیا کھائے جارہے ہیں؟ہماری خوراک کا ہمارے مزاج کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔اس کے اثرات سے انکار ممکن نہیں ،گوشت خوری بلکہ ''برائلر خوری‘‘ کی عادت نے ہمیں بھی '' برائلر ‘‘ بنا دیا ہے۔اس کے علاوہ ملاوٹ کرنے والوںنے بھی ہمیں خالص اشیاء کی افادیت سے دورکر دیا ہے۔گوالے دودھ میں یوریا اور سنگھاڑے کا پائوڈر ملاتے ہیں، مرچوں میں سرخ اینٹو ں کا برادہ اور آٹے میں سوکھی روٹیوں کو پیس کربیچا جارہا ہے۔ یہی حال چینی ، پٹرول، دالوں اور سبزیوں کا ہے۔
پیسے بنانے کے لیے ہم کچھ بھی کر سکتے ہیں‘ کر گزرتے ہیں۔ رزقِ حلال کا تصور بھی معدوم ہوتاجا رہا ہے۔ ہم اس تصورکو مانتے تو ہیں مگر عمل سے کوسوں دور ہیں ۔ جب تک انسان اپنی خوراک کو فطرت کے مطابق نہیں ڈھالتا‘ وہ مختلف قسم کی اخلاقی،جسمانی، روحانی اور قلبی بیماریوں کا شکار رہے گا۔ایک عربی شاعر نے کہہ رکھا ہے :
''ہماری تمام بیماریاںدراصل ہماری اعلیٰ خوراک کی بگڑی ہوئی شکلیں ہیں‘‘۔
اکیسویں صدی کے انسان کو اپنے روز مرہ کے معمولات ، مصروفیات ،خوراک ،رہن سہن اور رویوں پر غور کرنا ہوگا۔اس کے بغیر وہ دنیاوی دکھوں، پریشانیوں سے نجات حاصل نہیں کر سکتا۔لوگ تعیش اور سہل پسندی کے دلدادہ ہیں مگر یہ نہیں جانتے کہ یہی ان کے لیے سب سے بڑی مصیبت ہے۔ عزیزو، آئو! دوسروں کی غلطیاں،کوتاہیاں معاف کرنا سیکھیں۔اپنی خوشیوں کو ایک حد میں ''سیلیبریٹ‘‘ کریں، حسد، بغض، ذاتی عناد، غیبت ، جھوٹ سے نجات اور دوسروں میں خوشیاں بانٹنے کے بعد ہی آ پ سکون اور سچی خوشی سے ہمکنار ہو سکتے ہیں۔ محض عبادات اور جعلی پیروں فقیروں کے پاس جانے سے آپ کو کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ بلاتبصرہ شعر آپ کی نذر: 
دستار اتر بھی جاتی ہے چھوٹی سی بات پر
دستار کو نہ وجہِ فضیلت شمارؔ کر

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں