عکسی مفتی اور کاغذ کا گھوڑا

'' ایک افسراسلام آباد سے کراچی پہنچااور ڈاکٹر سے اپنے دانتوں کا معائنہ کرایا۔ ڈاکٹر کو جب پتہ چلا کہ افسر اسلام آباد سے آیا ہے تو اسے بہت حیرت ہوئی کہ اس نے اس قدر تکلیف میں اسلام آبادمیں اپنا '' چیک اپ ‘‘کیوں نہ کرایا؟اس نے بیوروکریٹ سے دریافت کیا : آپ نے اسلام آباد میں اپنا علاج کیوں نہیں کرایا؟ کیا وہاں علاج مہنگا ہے؟ ''نہیں‘‘ افسر نے جھٹ جواب دیااور مسکراتے ہوئے بولا: '' اسلام آباد میں ہمیں منہ کھولنے کی اجازت نہیں ہے ‘‘۔
لیکن عزیز قارئین ! ایسا بھی نہیں کہ ِان دنوں افسر شاہی کو بہادر شاہ ظفر والا ''عارضہ ‘‘ لاحق ہواور وہ بار بار کہتے پھریں: بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی وہ وقت اور تھا جب منہ کھولنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی، اب تو ہر طرف ''منہ کھلے‘‘ نظرآتے ہیں، اِس کے لیے کسی اجازت کی ضرورت نہیں پڑتی۔اب وہ افسر شاہی نہیں رہی جو صرف فائلوں میں '' بولتی چالتی ‘‘ نظر آتی تھی۔اب تو افسر نہ صرف اہل قلم میں شمار ہونے لگے ہیں بلکہ کتابیں لکھ کر اُن پردھڑا دھڑ مضامین لکھوانے میں بھی ذرا دیر نہیں لگاتے۔ بعض ''نومولود قسم ‘‘ کے افسرتو شاعر بھی بن گئے ہیں ۔ مگر ٹھہریے ، ہم سب کو ایک لاٹھی سے نہیں ہانک سکتے۔ ہم یہ سب کچھ اُن ممتاز لکھاریوں کے بارے میں ہرگز نہیں کہہ رہے جواصلی اورکھرے تخلیق کار ہیں اورسول سروس کے '' دُم چھلے‘‘ کے بغیر بھی اپنی پہچان رکھتے ہیں۔
جناب عکسی مفتی سرکاری ملازم ضرور رہے ہیں مگر اُن کا حوالہ افسر شاہی کا کبھی نہیں رہا۔ وہ ایک قد آور باپ کے بڑے بیٹے ہیں۔ جی ہاں ، وہ ممتازمفتی کے فرزندِ ارجمند ہیں اور ممتاز مفتی اردو ادب کا بڑا حوالہ ہیں۔ ان کے بارے میں احمد بشیر نے لکھا تھاکہ ''ممتاز مفتی کو دو بڑے بھید معلوم ہو گئے تھے اور یہی دو بھید ہیں جن کے گرد ''شمس و قمر ‘‘ طواف کرتے ہیں۔ایک بھید اللہ ہے اور دوسراعورت ۔ اللہ کو خوش کرنے ،اسے پہلو میں بٹھانے اور پیارکی کھڑتال بناکر اُسے لبھانے کا فن اسے ( مفتی کو) آگیا تھا۔ اس نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ اللہ کن باتوں سے ناراض ہوتا ہے،اس کا خیال تھا کہ اللہ کبھی ناراض نہیں ہوتا۔ یہ ہو سکتا ہے کہ کوئی اس کے نورکی پھوار سے دُورکھڑا ہو توکوئی نزدیک آکر بھیگ جائے‘‘۔
عکسی مفتی اسی باپ کے ہونہار بیٹے ہیں۔ان کی کتاب ''کاغذ کا گھوڑا ‘‘ فیصل صاحب نے بڑے خلوص سے شائع کی ہے۔ یہ کتاب واقعتاً لائقِ مطالعہ ہے۔ کتاب میں عکسی مفتی نے اپنی ملازمت کے کئی گوشوں پر روشنی ڈالی ہے۔ انہوں نے نظام چلانے والوں کو بڑے پیار سے آئینہ دکھایا ہے کیونکہ انہوں نے اس نظام کو قریب سے دیکھ رکھا ہے۔ وہ افسر شاہی کے ''منہ زور‘‘ گھوڑے کے آگے بھی رہے اور پیچھے بھی ۔ اس کے باوجود انہوں نے نظام حکومت پر تنقید کے نشتر نہیں چلائے بلکہ افسر شاہی کو ''قلمی چھڑی ‘‘ کی ہلکی سی ضرب سے جگانے کی کوشش کی ہے۔ عکسی مفتی انسانوں کی تضحیک کے خلاف ہیں۔ وہ انسانوں میں آسانیاں بانٹنے کے قائل ہیں اوراس سلسلے میں وہ اپنے بڑوں قدرت اللہ شہاب، اشفاق احمد اور ممتاز مفتی کی طرح، انسان کی بہتری ،فلاح ،محبت اور صفائی ستھرائی کے لیے اپنے قلم کی روشنائی استعمال کرتے ہیں۔ عکسی کی تحریروں میں ایک روشنی سی منعکس ہوتی دیکھی جاسکتی ہے۔''کاغذ کا گھوڑا ‘‘ بہت دلچسپ کتاب ہے ، اس میں بہت سے واقعات شامل ہیں۔ معروف فنکار غلام علی کا واقعہ ان میں خاصے کی چیز ہے۔
غلام علی بھارت جانا چاہتے تھے مگر ان دنوں ضیاء الحق نے فنکاروں کو ملک سے باہر پرفارم کرنے کے لیے'' این او سی ‘‘ کی شرط لگا رکھی تھی، لہٰذا غلا م علی کو این او سی نہیں مل رہا تھا۔ عکسی مفتی کی زبر دست کوششوں کے بعد انہیں این او سی مل گیاجس پر درج تھا ''حکومت ِپاکستان کو غلام علی کے ہندو ستان جانے پرکوئی اعتراض نہیں بشرطیکہ وہ وہاںگائیں نہیں‘‘۔
عکسی لکھتے ہیں :'' میں اس نوٹ کو دیکھ کر سر پکڑ کر بیٹھ گیا، یہ نوٹ وزارتِ ثقافت کے سیکشن افسر نے لکھا تھا۔ مجھے حیرت یہ تھی کہ ان کے شعبے کے جوائنٹ سیکرٹری اُن دنوں اصغر بٹ تھے جو خود اوران کی بیگم رضیہ بٹ بھی پاکستان کی جانی پہچانی ادبی شخصیات میں شامل تھیں ۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر رہاکہ اصغربٹ صاحب اپنی ذاتی حیثیت میں ادیب ہیں لیکن حکومت کی کرسی پر بیٹھتے ہی وہ کاغذی چتر چالاکیاں کیوںکرتے ہیں۔ شاید ایک بیوروکریٹ کی حیثیت سے ان کی خصلت اور سرکاری تربیت میں شامل ہے کہ وہ اپنے باس مسعود نبی نورکوخوش رکھیں اور حکومتی قوانین کا پاس بھی رکھیں، دو کشتیوں میں بیک وقت پیر رکھنا ان جیسے کہنہ مشق ''سول سرونٹس‘‘کا ہی خاصہ ہے۔کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی، میں نے بھی بیس پچیس سال کی نوکری میں آرٹسٹ ہونے کے ساتھ یہ بھانپ لیا تھا کہ نوکر شاہی کے ساتھ کس طرح پورا اترا جائے کہ اس کے سوا کوئی اورچارہ ہی نہ تھا۔گو میں خود بیوروکریٹ نہیں ہوں، لہٰذا میں نے غلام علی سے کہا : ''رنجیدہ نہ ہو ، حکومت کا یہ آرڈر جو تمہارے ہاتھ میں ہے ، اصل میں یہ این او سی ہے بھی اور نہیں بھی۔ یہ شاہی افسروں کا کمال ہے کہ وہ ایسے ہی مبہم احکامات جاری کریں ۔ سانپ بھی نہ مرے اور لاٹھی بھی ٹوٹ جائے۔ میں نے مشورہ دیا تم فوراً ہندوستان چلے جائو۔ پہلی موسیقی کی محفل پاکستانی سفارت کار کے گھر پرکرنا اور اس کے بعد جہاں دل چاہے گاتے رہنا ، تمہارا کوئی بال بھی بیکانہیں کر سکے گا‘‘۔
ایسا ہی ہوا ، پاکستان کے سفیر صاحب نے اپنی نجی محفل میں ریڈیو،ٹیلی ویژن اور پریس کی نامور شخصیات کو مدعوکیا اور غلام علی کی غزل گائیکی پراداریے،کالم اور تصاویرکی بھرمار ہو گئی۔ اگلے ہی ہفتے پاکستانی سفیر صاحب نے مکمل رپورٹ وزارتِ امور خارجہ اور وزارِ ت ثقافت کو پاکستان کے لیے اپنی شاندارکارکردگی کے طور پر پیش کر دی‘‘۔
ہماری افسر شاہی ایسی ہی ہے اس کے بارے میںعکسی مفتی
مزید لکھتے ہیں : '' کیا کریں، ہماری نوکر شاہی زمین کی اور دیکھنا پسند نہیں کرتی، ہمارے حکمرانوںکو اپنے وطن کی مٹی میں کوئی خوبی نظر نہیں آتی۔ ہم اندھے ہو چکے ہیں۔ ہماری افسر شاہی، اپنے ہی وطن میں اجنبی ہے۔ اپنی ذات سے بیگانہ ہے۔ مجھے سول سروس اکیڈمی میں لیکچر دینے کا موقع نصیب ہوا تو میں حیران رہ گیا۔ یہاں تمام نوکر شاہی کو از سرِ نو ٹریننگ کے لیے بھیجا جاتا ہے۔انیس سے بیس گریڈ اور بیس سے اکیس گریڈ میں ترقی کے لیے یہ ٹریننگ شرط ہے۔ اس ٹریننگ کے دوران انہیں سوٹ پہننا پڑتا ہے، ٹائی لگانا ہوتی ہے اور انگریزی میں بات کرنا ہوتی ہے۔ قرینے سے بڑی میز پر بیٹھ کر چھری کانٹے سے کھانا ضروری ہے، انگریزی کتابیں پڑھنا ہوتی ہیں۔ میں حیران رہ گیا یہاںاردو بولنا منع ہے۔ چاول ہاتھ سے کھانا، شلوار قمیض پہننا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ میں واحد سپیکر تھا جسے پاکستانی ثقافت پر بات کرنے کے لئے شلوار قمیض پہننے کی اجازت دی گئی۔اردو پھر بھی نہ بول سکا۔ مجھے بار بار یاد دلایا گیا کہ صرف اور صرف انگریزی بولنا ہو گی‘‘۔ آگے چل کر عکسی کہتے ہیں : ''ہمارے افسر کہنے کو تو سرونٹس ہیں لیکن در حقیقت یہ ہمارے حکمران ہیں۔ یہ ہم میں سے نہیں ، یہ ایک علیحدہ کلاس ہے، یہ وہ کوا ہے جس نے مورکے پر لگا رکھے ہیں۔ ان کے طور طریقے ، چا ل چلن،اخلاقی روش انگریز حکمرانوں جیسی ہے‘‘۔
عکسی مفتی کی تحریروں سے ان کے مزاج کی نشان دہی ہوتی ہے، وہ زمین سے جڑے ایک ایسے تخلیق کار ہیں جو انسان کو فطرت سے ہم آہنگ کرنے کا جتن کرتے ہیں کہ وہ آگاہ ہیں اس کے بغیر ''خود آگہی ‘‘ نصیب نہیں ہو سکتی۔ ویل ڈن! عکسی صاحب ویل ڈن !! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں