کچھ پرانی ادبی یادیں

یہ 30 مئی 2004ء کی ایک خوشگوار شام کا ذکر ہے۔ ہمدرد ہال میں حلقہ اربابِ ذوق کا 65واں سالانہ جلسہ تھا اور ممتاز افسانہ نگار سید قاسم محمود صدارتی خطبہ پڑھ رہے تھے۔ کیا یادگار خطبہ تھا۔ اس خطبے کو میں نے اپنے ادبی اخبار ''بجنگ آمد‘‘ میں شائع بھی کیا تھا۔ سید قاسم محمود دھیرے دھیرے، اپنی حلقے سے وابستگی اور یادوں کو بیان کر رہے تھے:
''حلقے سے میری محبت کی تاریخ 55 سال پر پھیلی ہوئی ہے۔ صاحبو! حلقے نے مجھ دہقان زادے کو تہذیب سکھائی، عشق سکھایا، ادب سکھایا، آداب سکھائے، اہلِ ادب کے رتبہ عالی کا احترام کرنے کی فضیلت بتائی، زندگی کی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے میں رکاوٹ پیدا ہو جائے تو اسے دور کرنے کا سلیقہ سکھایا۔
کبھی کبھی بدمزگی کا رنگ ادبی ظرافت کا نمونہ بن جاتا۔ اے حمید نے افسانہ پڑھا ''حسن اور روٹی‘‘ (غالباََ یہی نام تھا)۔ سعادت حسن منٹو نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا: ''اے حمید کا کیا ہے، وہ تو کھمبا دیکھ کر بھی رومانٹک ہو جاتا ہے‘‘۔ حاضرین نے یہ سن کر قہقہہ لگایا لیکن بعض سنجیدہ نقادوں نے اس کا نوٹس لیا اور کہا کہ اس قسم کے ذاتی ریمارکس نہیں دینے چاہئیں۔ منٹو صاحب زود رنج آدمی تھے۔ غصے میں تھرا کر میری طرف دیکھا: ''سیکرٹری صاحب! میں نے جو کچھ کہا ہے، یہ سنجیدگی سے کہا ہے اور ادبی تنقید کا حصہ ہے، اِسے میرے نام سے ریکارڈ کیا جائے‘‘۔
اگلے اتوار منٹو صاحب سب سے پہلے بورڈ روم میں آ کر بیٹھ گئے۔ محمود نظامی صدرِ محفل تھے۔ میں کارروائی پڑھ چکا اور توثیق سے پہلے صدر صاحب نے حاضرین سے کوئی اعتراض مانگا تو منٹو صاحب نے اُن سے تو کچھ نہ کہا، اے حمید کے بارے میں اپنی رائے درج رجسٹر نہ کرنے پر مجھے مخاطب کر کے وہ کچھ کہہ ڈالا، جو ذرا سی مزید آنچ سے ''امرتسری گالیاں‘‘ بن جاتیں۔ کبھی کبھی اختلافِ رائے سے ایسی بدمزگی پیدا ہوتی جو بشری کمزوری سے ہوتی ہوئی جسمانی طاقت آزمائی اور جدید اصطلاح میں دہشت گردی کا مظاہرہ بن جاتی۔ ایک روز میں اپنی کرسی پر بیٹھاہوا، دیکھتا کیا ہوں کہ حاضرین بلکہ حلقے کے ارکان آپس میں دست و گریباں ہیں، پھر اچانک ایک دوسرے پر کرسیاں اٹھا اٹھا کر مارنے لگے۔ منیر نیازی نے پروفیسر سید سجاد باقر رضوی کے کاندھے پر جو کھینچ کر کرسی ماری تو وہ بلبلا اٹھے، اب منیر نیازی نے دوسری کرسی اٹھائی اور نیچے گرے ہوئے پروفیسر پر ضرب ِکاری لگانے ہی والا تھا کہ میں امن نافذ کرنے والے ادارے کے ہراول دستے کے طور پر جھپٹا اور منیر نیازی کی اٹھائی ہوئی کرسی کو اپنے اوپر روک لیا۔ منیر نیازی نے نیازی پٹھانوں والے اپنے مضبوط ہاتھ سے میری گردن دبوچ لی۔ ''اوئے شکرے! تُو بھی، تیرے تو بال و پر نوچ کر نیچے پھینک دوں گا‘‘۔
عزیز قارئین‘ آپ جانتے ہیں کہ اب منیر نیازی ہیں اور نہ سید قاسم محمود مگر حلقہ ارباب ذوق موجود ہے اور اس کے اجلاس ہوتے ہوئے پچھتر برس ہوا چاہتے ہیں۔ میں جب لاہور آیا تھا تو صرف پاک ٹی ہائوس سے آگاہ تھا کہ ایک زمانے سے سن رکھا تھا کہ لاہور میں ایک چائے خانہ ادیبوں شاعروں کا وہ گوشہ عافیت ہے جہاں ہر نسل کا لکھاری پایا جاتا ہے۔ پاک ٹی ہائوس میں حلقہ ارباب ِ ذوق
کے ہفتہ وار تنقیدی اجلاس بھی منعقد ہوتے تھے۔ اُن دنوں حلقہ اربابِ ذوق مرکز بھی ہوتا تھا‘ جس کے اجلاس چائنیز لنچ ہوم میں مبارک احمد منعقد کراتے تھے۔ مبارک احمد نے اپنی سائیکل اور نثری نظم کے حوالے سے شہرت پائی۔ پاک ٹی ہائوس کے آس پاس دو تین جگہوں پر ادبی رونقیں دیکھنے کو ملتی تھیں۔ چائنیز لنچ ہوم میں حلقہ (مرکز) اور اس کے تہہ خانے میں حلقہ ادب کے اجلاس ہوتے تھے۔ وائی ایم سی اے ہال میں پنجابی ادبی سنگت اور قریب ہی سنی ریسٹورنٹ میں حلقہ تصنیف ادب کے پروگرام ہوتے تھے۔ پنجابی ادبی سنگت اور حلقہ کے اجلاس ان دنوں ایک ہی روز ہوا کرتے تھے۔ ہم پہلے پنجابی ادبی سنگت کے اجلاس میں شرکت کرتے، کچھ دیر بیٹھتے اور اگر مطلب کا پروگرام نہ ہوتا تو پچھلی نشستوں سے اٹھ کر پاک ٹی ہائوس میں حلقہ کے اجلاس میں جا بیٹھتے۔ ادبی اجلاسوں میں
بعض اوقات ''بے ادبیاں‘‘ بھی سر زد ہو جاتی ہیں۔ ادیبوں کی آپس میں ''شکر رنجیاں‘‘ کوئی نئی بات نہیں۔ ایک بار ہم قدرے تاخیر سے پہنچے تو رشید مصباح اپنی بیلٹ کھولتے گھماتے ٹی ہائوس سے باہر نکل رہے تھے۔ وہ غالباً خالد احمد سے جھگڑتے ہوئے باہر آ کر دو دو ہاتھ کرنا چاہتے تھے۔ مگر خالد احمد سگریٹ سلگائے دھیرے دھیرے اپنی منڈلی کے ساتھ ایک طرف ہو لیے۔ مجھے یاد ہے پاک ٹی ہائوس میں ایک بار کسی صاحب سے جھگڑنے کے بعد ہمارے پیار ے شاعر علی اصغر عباس، پولیس کے دو سپاہی لے کر پاک ٹی ہائوس پہنچ گئے تھے‘ مگر دوستوں نے بیچ بچائو کرا کے سپاہی واپس بھیج دیے۔ اِس ساری صورت حال کے باوجود وہ بہت اچھے دن تھے۔ ہفتہ وار ادبی اجلاسوں کے علاوہ شیزان، جناح ہال، پنجاب پبلک لائبریری اور کئی دوسری جگہوں پر ادبی تقریبات منعقد ہوتی تھیں۔ حلقے کی تنقیدی نشستوں میں ''منہ زبانی نقاد‘‘ بھی اپنی رائے کا اظہار کیا کرتے۔ یہ وہ ناقدین تھے جنہوں نے تنقیدی مضامین کم ہی لکھے؛ البتہ ''گفتار کے غازی‘‘ مشہور ہوئے۔ بعض افسانہ نگار اور شاعر نشستوں میں ''جارحانہ‘‘ گفتگو کے سبب مشہور تھے۔ ان میں ڈاکٹر انیس نا گی، سعادت سعید، رشید مصباح شامل تھے۔ بزرگ افسانہ نگار اور ''ادھ کھایا امرود‘‘ جیسی کتاب کے مصنف خان فضل الرحمٰن اجلاس سے کچھ دیر پہلے آجاتے۔ بعض اوقات وہ مغرب کی نماز ٹی ہائوس کی کرسی پر بیٹھے بیٹھے ادا کرتے۔ عموماًَ اگلی نشستوں پر نظر آتے اور تنقید کے لیے پیش ہونے والی تخلیق پر سب سے پہلا تنقیدی جملہ انہی کا ہوا کرتا تھا۔ وہ دو ٹوک انداز میں صرف ایک جملے میں اپنا تاثر یوں ریکارڈ کراتے: ''صاحب صدر! یہ افسانہ بالکل بکواس ہے۔ بس لوگوں کا وقت ضائع کیا گیا ہے‘‘ وغیرہ وغیرہ... 
حلقہ میں غزل، نظم پیش کرنے والے اپنے اپنے حواریوں کے ساتھ آتے اور پھر یہاں پیش کی جانے والی تخلیقات پر وکیلوں کی طرح جرح ہونے لگتی۔ اس جر ح میں کبھی بات بڑھ جاتی اور اجلاس کے خاتمے پر نوبت ہاتھا پائی تک بھی پہنچ جاتی لیکن ایسا کبھی کبھار ہی ہوتا تھا۔ میں جب لاہور آیا تو یہاں ظہیر کاشمیری، سیف الدین سیف، عارف عبدالمتین، صلاح الدین محمود، قتیل شفائی، احمد راہی، احمد ندیم قاسمی، شہرت بخاری، انجم رومانی اور سجاد باقر رضوی جیسے بزرگ بھی تقریبات میں نظر آتے تھے۔ حلقہ تصنیف ادب نوجوانوں کا حلقہ تھا جسے غضنفر علی ندیم جیسا بھلا مانس شاعر جاری رکھے ہوئے تھا، یار لوگ اسے بابائے ترائلے کہا کرتے تھے۔ پنجابی ادبی سنگت اس وقت پنجابی غزل کے جدید شاعر پرویز ہاشمی چلا رہے تھے۔ حلقہ ادب حفیظ الرحمن احسن، تحسین فراقی اور جعفر بلوچ کے دم سے قائم تھا۔ آج کے بہت سے اہم لکھنے والے اس وقت ان اجلاسوں میں نظر آتے تھے۔ پاکستان نیشنل سینٹر میں اعزاز احمد آذر کے دم سے ادبی تقریبات عروج پر تھیں۔ لاہور کے دبستان کا ذکر کرتے ہوئے قدرے گمنام شاعر نظیر کھتولوی کا شعر آپ کی نذر ہے ؎ 
اشکوں سے ہیں نظیر کی آنکھیں بھری ہوئی
پھرتا ہے کشتیوں میں سمندر لیے ہوئے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں