جی سی یونیورسٹی کا ایک سو پچاس سالہ مشاعرہ

اشفاق احمد گورنمنٹ کالج لاہور کو '' درگاہ ‘‘ کہا کرتے تھے۔ اِس درسگاہ کی پیشانی پر جنوبی ایشیا ء کی تاریخ کے کئی جھومر دمک رہے ہیں۔ہمارے کئی مشاہیر نے، جن کے باعث ہمارے سر فخر سے بلند ہو جاتے ہیں، اِسی ادارے سے جنم لیا۔ اِس درس گا ہ کے آسمان کی بلندیوں کو چھُوتے میناروں پر بارانی کبوتر بھلے لگتے ہیں، بس ضرورت اِس بات کی ہے کہ ِان درودیوار پر گِدھ اور چِیلیں بسیرا نہ کرنے لگ جائیں ۔درگاہ کے '' مجاوروں ‘‘کا فرضِ اولین ہے کہ اسے گِدھوں اور گدھوں سے بچایا جائے۔ان دنوں اس ادارے کی ایک سو پچاس سالہ تقریبات کا انعقاد عمل میں لایا جارہا ہے۔دنیا بھر سے اس مادرِ علمی کے بیٹوں کو مدعو کرتے ہوئے، یہاں کسی بیٹے کو بھی نظر انداز نہیں ہونا چاہیے۔گزشتہ شب ، شعبہ اردو پنجابی کے زیرِ اہتمام 150سالہ مشاعرہ منعقد کیا گیا۔ صدر شعبہ اردو ڈاکٹر ہارون قادر نے کہا کہ ایک عرصے بعد یہاں اعلیٰ سطح کا مشاعرہ منعقد ہو رہا ہے۔ہارون قادر ایک '' بی بے ‘ ‘ انسان ہیں۔ ان کی صلاحیتوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے ڈاکٹر خلیق الرحمن نے انہیں کنٹرولر امتحانات کا اضافی چارج بھی دے رکھا ہے۔ہارون دوستوں کو ساتھ لے کر چلنے والے دوست ہیں مگر مشاعرے کے لئے انہوں نے اصغر ندیم سید کی خدمات حاصل کیںتو ظاہر ہے‘ انہوں نے شعراء کی فہرست بناتے وقت اپنے ذاتی احباب کو ہی ترجیح دینی تھی۔اس سے ہو ا یہ کہ چند دوست مشاعرے میں مدعو نہ کیے جاسکے ، پھر جن کا نام دعوتی کارڈ پر تھا‘ ان میں سے بھی سات شعراء تشریف نہ لا سکے۔اصغر ندیم 
سید ہمارے پسندیدہ تخلیق کار ہیں، بہت ہی باصلاحیت انسان ہیں، گفتگو کے تو ایسے دھنی ہیں کہ سیدہو کر اگر ان سے کسی بھی موضوع پر گفتگو کرائی جائے تو ایسا سماں باندھیں کہ سننے والے عش عش کر اٹھیں۔ یہ کمال اصغر ندیم سید کے علاوہ کسی اور مقررمیں نہیں۔ان کی '' پی آر‘‘ کے پیچھے ان کی '' زبان ‘‘ اور کشور ناہید پوشیدہ ہیں۔ لیکن تاریخ ساز اداروں میں دوست نوازی اداروں کے لئے باعث ِنقصان ہوا کرتی ہے۔ معلوم نہیں اصغر ندیم سید ، گورنمنٹ کالج کے ''قصیدہ خواں ‘‘ او ر جی سی یو کے مجلے ''راوی ‘‘ کے سابق مدیر ، طالب علم اور استاد ڈاکٹر اجمل نیازی کا نام مشاعرے کی فہرست میں ڈالنا کیسے بھول گئے۔ویسے اجمل نیازی مشاعروں میں بہت کم دیکھے جاتے ہیں مگر ایک سو پچاس سالہ تقریبات میں انہیں مدعو تو کیا جانا چاہیے تھا۔ مدعو تو کچھ اور شعرا کو بھی کیا جاسکتا تھا‘ اگر وہ بھی ''بر وقت‘‘ سعود عثمانی ، شکیل جاذب ، جہاں آراء اور عنبر شاہد کی طرح، اصغرندیم سے رجوع کر لیتے ،مگر مرتضٰی برلاس ، اسلم کولسری ، اعزاز احمد آذر ، باقی احمد پوری ، خالد اقبال یاسر ،نسرین انجم بھٹی ، ، اعتبار ساجد، سیلم طاہر، اعجاز رضوی، جواز جعفری ، فرحت عباس شاہ، سعداللہ شاہ، غافر شہزاد، رخشندہ نوید، منصور آفاق، صغرا صدف ، علی اصغر عباس، ایوب ندیم نے کوئی کوشش نہ کی۔ اب ہم آتے ہیں مشاعرے کی طرف۔ کمزور سائونڈ سسٹم کی وجہ سے سٹیج پر بیٹھے ہوئے شعرا کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا پڑھا جا رہا ہے۔دراصل مشاعرے کی کامیابی کا دارو مدار پچاس فیصد نظامت کرنے والے پر بھی ہوتا ہے۔ بعض شعراء نے یہ وتیرہ بھی اپنا لیا ہے کہ وہ جلد ہی اپنا کلام سنا کر ''کھسک ‘‘ جاتے ہیں ، بہانہ کچھ بھی بنایا جا سکتا ہے۔ اب تو صدارت کرتے ہوئے بھی بعض شعراء درمیان میں سے نکل جاتے ہیں ۔اس سے ہماری شعر وادب سے دلچسپی کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔حفظِ مراتب مشاعرے کی تہذیب ہوا کرتے ہیں ۔ اِس مشاعرے میں جدید غزل کے بہت اہم شاعر لطیف ساحل کو ابتدا میں پڑھوا دیا گیا۔ اگر مسئلہ میزبان شعرا کا ہوتا تو سعادت سعید، اشرف خان، 
ڈاکٹر تبسم کاشمیری بھی ابتدا میں پڑھتے‘ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ سچی بات ہے میں تو ناصر بشیر کو بھی سعود عثمانی‘ شکیل جاذب اور کئی دوسرے شعرا سے سینئر سمجھتا ہوں کہ اس کا ادبی کیرئیر میرے سامنے ہے اور وہ 1980ء سے ادبی سکرین پر موجود ہے۔داد کے حوالے سے مشاعرہ خاصاٹھنڈا رہا۔ نجیب احمد ، سرمد صہبائی اور ظفر اقبال ہی کو کامیاب شاعر قرار دیا جا سکتا ہے ۔ باقی شعرا بس چند تالیاں سمیٹ سکے۔ اسلم انصاری ایک عرصے بعد اپنے مادرِ علمی میں مشاعرہ پڑھ رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ان کی پہلی غزل اسی درس گاہ سے ان کے تعارف کا سبب بنی ۔ کشور ناہید ، این جی اوز کے علاوہ '' بُری عورت کی کتھا‘‘ کے حوالے سے بھی مشہور ہیں۔بہت سے نوجوان شعرا انہیں ماں کا درجہ دیتے ہیں ۔مشاعرے میں بہت سے شعراء کو کلام سناتے وقت وہ پیچھے سے ہدایات بھی جاری کرتی رہیں ۔ ہم خود ان کی انتظامی صلاحیتوں کے معترف ہیں۔ اصغر ندیم سید نے انہیں اسٹیج پر بلانے سے قبل کہا: '' وہ صوفی تبسم کی ایسی ''ہونہار‘‘ شاگرد ہیں جو برقعہ پہن کر مشاعروں میں شرکت کرتی رہی ہیں۔ واقعتاً وہ صوفی صاحب ہی کی ''کرامت ‘‘ قرار دی جاسکتی ہیں۔ مشاعرے میں تبسم کاشمیری کی غزلیں ہم نے پہلی بار سنیں ، اسی طرح فخر الحق نوری کا ترنم سننے کا بھی ہمارا پہلا موقع تھا۔مگر مشاعرے کا ماحول کچھ ایسا تھا کہ ترنم بھی گراں گزرا اور پیچھے بیٹھے بزرگ شعراء تو باقاعدہ ناگوار ی کا اظہار کرتے رہے۔ اس طرح کا اظہار عطاء الحق قاسمی کی '' امریکہ فیم‘‘ غزل سنانے سے قبل '' کالم نما ‘‘ طویل تمہید پر بھی کیا گیا ۔ تمہید اتنی لمبی ہو گئی کہ ایک موقع پر صاحب ِ نظامت کو کہنا پڑا کہ قاسمی صاحب غزل پیش کریں ۔یاسمین حمید کی غزل بھی سناٹوں میں ڈوب گئی ۔حالانکہ تعارفی کلمات میں اصغر صاحب کا کافی زور لگ گیا مگر نتیجہ وہی صفر۔ یاسمین اس وقت خواتین شاعرات میں بے حد احترام سے دیکھی جاتی ہیں ، وہ ایک سنجیدہ شاعرہ ہیں ۔ہم نے پہلی بار غالباً انہیں 1985ء میں دیکھا تھا، پنجاب یونیورسٹی کے ایک مشاعرے کے اختتام پر وہ اپنی کتاب کے ساتھ ٹی وی پرڈیوسر حفیظ طاہر کے ساتھ متعارف ہور ہی تھیں اور ہمارے سینئر شعراء، اُن کا فون نمبر لکھ رہے تھے۔ ٹی وی پر انہیں رفیق وڑائچ جیسا ''جوہری ‘‘ نصیب ہو گیا جس نے ان کی صلاحیتوں کو حقیقی معنوں میں جلا بخشی‘ تاآنکہ وہ ٹی وی کی منجھی ہوئی میزبان بن گئیں ۔ افتخار عارف کے '' حلقہ ادب ‘‘ کی بدولت ان کی شہرت عالمی سطح چھونے لگی۔ آج اللہ تعالیٰ نے پروین شاکر کے بعد انہیں منفرد مقام سے نواز رکھا ہے۔ بقول باقی احمد پوری یاسمین حمید نے کویت سے لے کر لاہور تک کے سفر میں اپنا ادبی مقام بنانے میں بہت محنت کی ہے۔مشاعرے میں ڈاکٹر محمد خان اشرف کی '' اوول‘‘ والی نظم بہت پسند کی گئی ۔سعادت سعید کی نظمیں اچھی تھیں مگر یہاں تو عباس تابش جیسا غزل گو بھی نہایت احترا م سے سنا گیا ،نظم کیا کرتی۔آخر میں ایک شعر آپ کی نذر:
ہمیشہ سچ نکل جاتا ہے منہ سے
کچھ ایسی ہی طبیعت ہے، کریں کیا 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں