با صلاحیت لوگ اور شہر لاہور

اِس عہد کی ایک بڑی شاعرہ نسرین انجم بھٹی ہے۔بڑی شاعرات کچھ اور بھی ہیںمگر نسرین انجم بھٹی ان سے قطعی مختلف اور اپنی تخلیقی توانائی کے سبب نمایاں اورسر بلند ہے۔ اس کی نظم سے چند سطریں ملاحظہ ہوں :
'' نامحرم ! تیری آنکھیں کیسی ہیں؟کچی ہوائوں سے جیسے گھبرائی ہوئی
مجھے یاد ہے جب تو پہلی بار ہمارے گھر آیا تھا تو ہمارے گھر میں پہلا فاقہ تھا
اور ہمارے ہاں دیا بھی نہیں جلایا گیا تھا کہ ہماری آنکھوں کی گھبراہٹ
ابھی نا پختہ تھی اور ہم ماں باپ بیٹے بیٹیوں کے درمیان کوئی رشتہ طے نہیں ہوا تھا
شام ِغریباں کی طرح ہم چپ تھے
جب ہمارا پانچواں بھائی پیدا ہوا تو ہم نے سنا کہ وہ بہت خوبصورت تھا
شاید وہ مر گیا تھاان دنوں ہم صرف پانی پیتے تھے
ہوا ہمارے ہاں آنسو سکھانے کے کام آتی تھی
اب کسی کام نہیں آتی
سورج سے ہم نے سندھور کا کام لیا اور بال کھول دیے
ہم زمین پر سوئے کہ اس کی گردشیں کانوں میں سنائی دیں،
آنکھوں سے سننے کے جرم میں میرے باپ کو پھانسی لگ چکی تھی
گھر کے کواڑ برسات میں بھیگنے کی وجہ سے پھول گئے تھے‘ بند نہیں ہوتے تھے
اور ہمسایوں کی مرغیاں ہمارے آنگن میں فاقے چُگتی تھی
پھر ہم نے ان کو کنکریاں چگنی سکھائیں اور مٹی کھانا سکھائی
ہم خود جو کھاتے پیتے لوگ تھے...‘‘
نسرین انجم بھٹی نے اپنی پروجیکشن کے لیے کبھی دھڑے بندی کی طرف توجہ نہیں دی ،اس سے کم تر درجے کی تخلیقی حیثیت رکھنے والی کئی شاعرات اس سے زیادہ مشہور سمجھی جاتی ہیں۔
انیس ناگی نے بلاشبہ درست لکھا تھا کہ :
''وہ ناقدری کے دور کی شاعرہ ہے۔وہ اس عہد میں نظمیں لکھ رہی ہے جب لفظ اپنی حرمت کھو چکا ہے‘‘
بات تو دل کو لگتی ہے،آج کے بیشتر شاعر ادیب ،حکمرانوں کے ساتھ چائے پینے، کھانا کھانے میں عزت محسوس کرتے ہیں۔ایوارڈز کے لیے سیاسی گماشتوں کی خوشامدیں کرنے والوں اور شہرت سے بے نیاز لکھاریوں میں فر ق ہو ا کرتا ہے۔اہلِ قلم معاشرے کی آنکھیں اور زبان ہو ا کرتے ہیں۔ آنکھیں دنیاوی لذتوں سے '' پِلپلی‘‘ ہو جائیں تو بصارت کا ماتم ہی کیا جاسکتا ہے۔کان خود اپنی آواز سننا بند کر دیں تو '' اثر آفرینی ‘‘ دم توڑ دیتی ہے۔نسرین انجم بھٹی یاد آنے کا سبب یہ ہے کہ اگلے روز ہم نے انہیں ایک مشاعرے میں سنا جہاں وہ صدارت بھی کر رہی تھیں ۔یہ مشاعرہ ایسٹر کے حوالے سے منعقد کیا گیا تھا۔اس کے روح و رواں ڈاکٹر لیاقت قیصرہیں جو ایف جی بائیبل کالج پیکو روڈ لاہور کے ایسے پرنسپل ہیں جو بہت اچھا شعری ذوق بھی رکھتے ہیں۔ورنہ بہت سے سرکاری و غیر سرکاری کالجوں کے پرنسپل تو سرکاری فائلیں پڑھنے اور چیکوں پر دستخطوں کے علاوہ کوئی اورذوق نہیں رکھتے۔تدریسی اداروں میں اگر ادب کا ذوق رکھنے والے سربرا ہ ہوں تو وہاں ادبی ماحول احسن طریقے سے پروان چڑھتا ہے۔ڈاکٹر قیصر ادب اور روشن خیالی کے فروغ کے لیے بہت کچھ کر رہے ہیں۔ان کے ادارے میں سال میں دو تین بار اعلیٰ سطح کا مشاعرہ بھی منعقد کیا جاتا ہے جس میں لاہو ر اور گردو نواح کے شہروں سے نمایاں شعرا مدعو کیے جاتے ہیں۔معاونت کے لیے انہیں اعجاز اللہ ناز جیسا بانکا شاعر میسر ہے۔علاوہ ازیں کنول فیروز بھی ڈاکٹر لیاقت قیصر کے اہم مشیروں میں شامل ہیں۔ڈاکٹر لیاقت وہ سچے اور کھرے پاکستانی ہیں جو ِپاکستان کو خوشحال اور پر امن دیکھنے کے آرزو مند ہیں ۔وہ اخوت اور بھائی چارے کی تبلیغ میں پیش پیش رہنے والوں میں سے ایک ہیں۔ادبی حلقوں میں ان کا مشاعرہ بہت مقبول ہو چکا ہے۔سبب یہ ہے وہ اسے خلوص اور سلیقے سے منعقد کرتے ہیںاور مہمانوںکی عزت افزائی سے ان کے دل جیت لیتے ہیں۔اس مرتبہ نسرین انجم بھٹی کی صدارت میں منعقدہ مشاعرے میں کنول فیروز کی سالگرہ کا کیک بھی کاٹا 
گیا۔کنول فیروز کی ادبی خدمات کا ایک زمانہ معترف ہے۔وہ برسوں سے ماہنامہ '' شاداب ‘‘ شائع کرتے ہیں۔ایسٹر مشاعرے میں کنول فیروز اور ناصر زیدی کے علاوہ امریکہ سے آئے ہوئے معروف شاعر افضال فردوس بھی مہمانان ِ خصوصی تھے۔مشاعرہ لگ بھگ تین گھنٹے تک جاری رہااور کیا مجال کہ سامعین تھکن یا بوریت کا شکار ہوئے ہوں۔یہاں بہت سے شعرا موجود تھے مگر زیادہ توجہ حاصل کرنے والوںمیںیوسف نئیر،ارشد ثانی،فرانسس سائل،اکرم شیخ ،شریف انجم اور انجم سلیمی شامل تھے۔مشاعرے میں ہمیشہ کی طرح اعجاز اللہ ناز کی بے ساختہ نظامت بھی پسند کی گئی۔ایسا ہی ایک مشاعرہ گورنمنٹ سول لائن کالج میں منعقد کیا گیا۔یہاں '' شمع تاثیر ‘‘ مشاعرہ کی دیرینہ روایت ہے۔مشاعرے میں پرنسپل کالج خالد جاوید صاحب نے خصوصی دلچسپی لی۔مہمان ِ خصوصی ظفر اقبال اور ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا تھے۔جب کہ نقابت کے فرائض سعد اللہ شاہ نے ادا کیے۔ہم ایک عرصے بعد اس مشاعرے میں شریک ہوئے اور بہت سے دوستوں سے ملاقات ہوئی۔ لاہور کے کالجوں میںاس وقت سب سے زیادہ ادیب شاعر اسی کالج میں پائے جاتے ہیں۔کبھی یہ اعزاز ایف سی کالج کو حاصل تھا۔اگر چہ ان دنوں علی ظہیر منہاس، سیف اللہ خالد، ناصر بشیر اور لطیف ساحل یہاں سے جا چکے ہیںمگر اہلِ قلم میں سعداللہ شاہ ،حسن کاظمی ،محمد سلیم الرحمن ،جمشید چشتی اختر سندھو،پروفیسر زاہد محمود ، اصغر یزدانی اور افتخار سہیل کے دم سے یہاں ادبی فضا مہک رہی ہے۔سول لائن کالج کے مشاعرے میں روحی کنجاہی، امجد اسلام امجد، باقی احمد پوری، گلزار بخاری،شفیق احمد خان، سرورامان، ثنااللہ شاہ، تیمورحسن تیمور،ڈاکٹر محمد طاہر شہیر،سلمان گیلانی ،فرخ محمود، اورندیم محمود نے کلام پیش کیا اور خوب 
پذیرائی حاصل کی۔تیمورحسن اور ڈاکٹر محمدطاہر شہیر کو یہاں زبردست داد ملی۔سول سروس اکیڈمی کا مشاعرہ بھی بہت اچھا تھا مگر والڈسٹی اتھارٹی کا ذکر اس لئے ضروری ہے کہ یہ ادیبوں کے حوالے سے مشہور پاک ٹی ہائوس کی پرانی شکل و صورت بحال کرنے میں بہت زیادہ دلچسپی لے رہی ہے۔پاک ٹی ہائوس میں بیٹھنے والے شعرا کو یاد کرنے کے لئے ان کی ولادت یا تاریخ وفات پر خصوصی نشستیں منعقد کرنے کا سلسلہ بھی شروع کر دیا گیا ہے ، پہلے ناصر کاظمی کے لئے پروگرام کیا گیا تھا اس بار منیر نیازی کی یاد میں مشاعرہ منعقد کیا گیا ۔ صدارت ممتاز ڈرامہ نگار اور نظم گو اصغر ندیم سید نے کی۔ مہمانِ خصوصی جدید غزل کے نمائندہ شاعر منصور آفاق تھے۔اصغر ندیم سید نے منیر نیازی کے حوالے سے شاندار گفتگو کی۔شاعروں میں یہاں باقی احمد پوری، سعداللہ شاہ، اقبال راہی،ڈاکٹر صغرا صدف، غافر شہزاد، آغا نثار، ندیم بھابھہ ، راجا نیر، افضال عاجزاور راقم شامل تھے۔والڈ سٹی کے آصف ظہیر ، ثمینہ اور ان کی ٹیم نے پاک ٹی ہائوس میں ادیبوں کو اکٹھا کرنے کا بہت اچھا سلسلہ شروع کیا ہے۔والڈسٹی اتھارٹی کے فوڈ فیسٹیول نے فوڈ سٹریٹ فورٹ روڈ پر بھی رونق لگائے رکھی۔ اہل قلم کو یہاںکا دورہ بھی کرایا گیا۔اِس فوڈ فیسٹیول کا ایک مقصد یہ تھا کہ لاہور کے قدیم مشہور اور روایتی پکوانوں کو شہر بھر سے چن کر ایک جگہ اکٹھا کیا جائے تا کہ پرانے اور مشہور جدی پشتی کھاناپکانے والوں کو فوڈسٹریٹس میں بھی متعارف کرایا جاسکے۔ ان کے درمیان مقابلہ کرایا گیا اور یوں لاہور کا '' کھابہ استاد‘‘ بھی منتخب کیے گئے۔ اس میلے میں کھانوں کے اسٹال کے علاوہ لاہور کی ثقافت کے کئی دوسر رنگ بھی نمایاں تھے۔ یہاںگھریلو دستکاریوں، مصوری، پینٹنگز کے علاوہ موسیقی کا اہتمام بھی تھا۔جس سے لاہور کا حقیقی رنگ اور ورثہ نمایاں ہوا۔ والڈ سٹی اتھارٹی ، شہرلاہور کے پرانے خدو خال اور آثار و نقوش محفوظ اور بحال کرنے میں رات دن ایک کئے ہوئے ہے۔ اس ادارے کے سربراہ جناب کامران لاشاری ہیں۔ بیورو کریسی میں اپنے کام اور قائدانہ صلاحیتوں کے حوالے سے ناموری حاصل کرنے والے ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں۔لاشاری انہی افسران میں سے ایک ہیں ۔جہاں تعینات کئے جاتے ہیں اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں ۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں