خبر ہے کہ محکمہ ٹرانسپورٹ کے افسروں کی نااہلی کے باعث پنجاب میں چلنے والی 60 فیصد پبلک ٹرانسپورٹ، موٹر وہیکلز قوانین کے برعکس سڑکوں پر رواں دواں ہے۔اس پبلک ٹرانسپورٹ کو موٹروہیکلز ایگز امینر کی جانب سے باقاعدہ فٹنس سرٹیفیکیٹ جاری کیے جاتے ہیں۔قانون کے مطابق گاڑیوں کو فٹنس پرمٹ جاری کرنے سے قبل ایک سو پچاس شرائط پورا کرنا لازمی ہے جبکہ چالیس فیصد گاڑیوں کو بغیرجانچے اور بیس فیصدکو صرف باڈی دیکھ کر پاس کر دیا جاتا ہے۔دو ماہ قبل گاڑیوں کی حدِ عمر کی پابندی بھی ختم کر دی گئی جس کے بعد سڑکوں پر کھٹارا اور پرانی گاڑیوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔ ادھر موٹر وہیکلز ایگزامینر کے پاس گاڑی کی فٹنس چیک کرنے کے لیے متعلقہ آلات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ سانحہ گجرات کے بعد محکمہ ٹرانسپورٹ کے افسران سمیت دیگر ایجنسیوں کی جانب سے اِس حوالے سے جو رپورٹ تیار کی گئی اس میں بتایا گیا ہے کہ پنجاب بھر میں چلنے والی پبلک ٹرانسپورٹ کی زیادہ تعداد کی حالت انتہائی خستہ ہے لیکن حیرانی کی بات ہے کہ ان گاڑیوں کو بھی فٹنس پرمٹ جاری کیے جا رہے ہیں۔ یہ محض ایک خبر نہیں بلکہ لمحہ فکریہ ہے۔ہمارے ہاں روایت بن گئی ہے کہ جب کوئی حادثہ رونما ہو جاتا ہے تب اس کی وجوہ پر غورو فکر کیا جاتا ہے اور تبھی اس حوالے سے متعلقہ محکمے بھی حرکت میں آتے ہیں۔سال دوسال پہلے کی بات ہے موٹروے پر سکول کے بچوں کی بس کو ایک حادثہ پیش آیا تھا۔ اس وقت بھی بسوں ،گاڑیوں کے فٹنس سرٹیفکیٹ جاری کرنے کے حوالے سے محکمانہ غفلت پر بہت وا ویلا ہوا تھا۔میڈیا نے کچھ عرصہ اس خبر کا پیچھا کیا پھر کسی اور خبر کی باری آگئی۔ہمارے ہاں میڈیا جب تک کسی خبر کا تعاقب کرتا رہتا ہے متعلقہ ادارے میں پائی جانے والی کوتاہیوں کو درست کرنے کی باتیں ہوتی رہتی ہیں۔ جب خبر میڈیا سے دور ہوجاتی ہے تو ان اداروں کے اہل کار بھی کان میں تیل ڈال کر خراٹے لینے لگتے ہیں۔ ہمارے ہاں انسانی فلاح اور بہتری کے لیے قوانین تو موجود ہیں، کاش ان قوانین اور ضابطوں پر عمل ہو نا شروع ہو جائے۔ مگر میرٹ کو ملحوظ نہیں رکھا جاتا۔ تمام قوانین صرف اور صرف عام آدمی کے لیے ہیں۔ اشرافیہ کے لیے نہ کوئی قانون ہے اور نہ کوئی رکاوٹ، جس کے سبب سارا معاشرہ ہی ’’ان فٹ‘‘ ہے۔ معاشرے کے بہت سے شعبوں کو فٹنس سرٹیفکیٹس کی ضرورت ہے اور یہ سرٹیفکیٹ باقاعدہ دیکھ بھال اور جانچنے کے بعد جاری ہونے چاہئیں۔ ابھی چند روز پہلے لاہور میں جعلی مشروبات تیار کرنے والی ایک فیکٹری پر چھاپہ مار کر اسے سیل کر دیا گیا۔ فیکٹری سے جعلی مشروبات کی بوتلیں برآمد کر لی گئیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ کام مدت سے ہو رہا تھا۔ یہ اقدام پہلے کیوں نہ کیا گیا۔ اب بھی جعلی ادویات، مشروبات، ناقص مصالحہ جات اورپرفیوم، شیمپو، صابن مارکیٹ میں فروخت کیے جارہے ہیں۔کبھی کوئی خبر آجاتی ہے کہ فلاں جگہ جعلی مشروبات بنانے والا کارخانہ پکڑا گیا اور بس… خبر پرانی ہوتے ہی عوام بھی بھول جاتے ہیں اور وہ سارا کاروبار پھر سے شروع ہو جاتا ہے۔ شہر میں پٹاخے بنانے والی دکانوں کی صورت میں بارُود کے ڈھیر موجود ہیں۔غیر معیاری اور ناقص گیس سلنڈر بھی ہر جگہ ملتے ہیں۔فکر کی بات یہ ہے کہ پٹاخے بنانے والے اور گیس سلنڈر فروخت کرنے والوں پر چیک رکھنے والے ادارے موجود ہیںلیکن جب کوئی حادثہ ہو جاتاہے تب حرکت میں آتے ہیں اور تبھی محکمے کو پتہ چلتا ہے کہ غیر معیاری سلنڈر بیچے جا رہے تھے یا پٹاخے والے بغیر لائسنس اور بغیر اجازت کے کاروبار کر رہے تھے۔ آخر حادثات کے بعد ہی ہم سب کیوں جاگتے ہیں؟بارشوں اور سیلاب سے قبل حفاظتی تدابیر اور محکمانہ سقم اور کوتاہیاں دورکیوں نہیں کی جاتیں؟آگ لگنے کے بعد ہمارے علم میں آتا ہے کہ فائر بریگیڈ کی گاڑیاں ہی خراب ہیں۔ دھکا سٹارٹ کر کے گاڑیاں لائی جائیںتو آگ بجھانے والے آلات جواب دے جاتے ہیں۔ وبائیں پھیلتی ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ فلاں جعلی دوائی کے استعمال سے سینکڑوں افراد موت کے منہ میں چلے گئے ہیں اور پھر غیر معیاری سیرپ بنانے والی فیکٹری کو سیل کر دیا جاتا ہے۔ کبھی کبھی ملیریا اور خسرے کی جعلی ادویات سے لوگ مر جاتے ہیں۔ نہ جانے ہم وقت سے قبل ہوش میں کیوں نہیں آتے؟اس نظام کو ٹھیک کرنے کے لیے کیا کوئی اوپر سے آئے گا؟۔ یہ سب فرائض ہمیں از خود ادا کر نے ہیں ۔ یہ حکومت کے کام ہیں۔ اگر سارے افسران اپنے اپنے فرائض ہر شہر اور ہر ضلع میں نہایت دیانتداری سے ادا کریں تو ہمارے حالات بہتر ہو سکتے ہیں۔ تھانے اور پٹواری کلچر کا خاتمہ کیا جائے ، ہر محکمہ کی کارکردگی پر نظر رکھنے کے لیے خصوصی کمیٹیاں قائم کی جائیں ،پولیس اور دیگر اداروں کو بھی مزید چوکس بنادیا جائے تو معاشرے سے جرائم کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ خادم اعلیٰ میاں شہباز شریف پنجاب کے بلکہ تمام صوبوں کے وزرائے اعلیٰ ، میرٹ پر افسران تعینات کریں‘غافل کرپٹ اور نااہل افرادکو سزائیں دی جائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ اداروں میں اصلاح نہ کی جا سکے۔ کون نہیں جانتا کہ اگر صرف چند چینی چوروں ،ذخیرہ اندوزوں، ملاوٹ کرنے والوں، جعلی اشیا بنانے والوں‘ ناجائزمنافع کمانے والوں اور کرپشن اور پیشہ ورانہ غفلت کے مرتکب افسران کو بازاروں میں سرِ عام الٹا لٹکا دیا جائے تو دوسرے اِس سے عبرت پکڑیں گے اور پھر کوئی شخص دوبارہ ایسا غلط کام نہیں کرے گا۔مگر اس کے لیے انصاف قانون اور دیگر اداروں کے سربراہوں کو ٹھیک ہونا پڑے گا۔اگر قانون صرف کمزور کے لیے ہو گا تو معاشرے کی زبوں حالی کو ختم کرنا دشوار تر ہو تا چلا جائے گا۔ اب نیا دور ہے، ہمیں ہر کام کے لیے چیف جسٹس کے سو موٹو نوٹس کا انتظار نہیں کرنا چاہیے۔یہ سارے کام حکومتوں کے کرنے کے ہیں۔ اب عوام کوئی بہانہ سننے کے موڈ میں بھی نہیں۔ لوگ گڈگورننس کی توقع لگائے ہوئے ہیں۔ پنجاب اگر کچھ بدلا ہے تو اب پاکستان بھی بہتر تبدیلی کا منتظر ہے۔ عوام چاہتے ہیں کہ وزیر اعظم میاں نواز شریف اور شہباز شریف اہل افسران کو چن چن کر اداروں میں تعینات کریں۔ امید کی جا سکتی ہے کہ مختلف اداروں میں اچھی شہرت کے حامل افسران اعلیٰ کارکردگی دکھائیں گے۔ بس ذرا سے خلوصِ نیّت کی ضرورت ہے کہ: ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی