ہنی مون پیریڈ میں خلع کی باتیں

بسم اللہ ! نئی حکومت کا ’ ’ ہنی مون‘‘ پیریڈ جاری ہے اور حکومتی اراکین ’’دکھی عوام‘‘ کو آنکھوں ہی آنکھوں میںدلاسہ دے رہے ہیںکہ فکر نہ کریں ابھی سو دن توپورے ہو لینے دیں۔تبدیلی کے آثار بھی واضح ہونے لگیں گے مگر بد امنی اور بد حالی میں گھرے عوام نئی نویلی حکومت کے وعدوں اور نعروں کو یاد کرتے ،ان کی ’’آنی جانیاں‘‘ دیکھ رہے ہیںاور تبدیلی پر سوچ رہے ہیں کہ: ؎ فقط اتنی سی تبدیلی ہوئی ہے زباں کاٹی نہیں، کِیلی ہوئی ہے عام تاثر یہی تھا کہ وزیر اعظم میاں نواز شریف حلف اٹھائیں گے تو کم از کم بجلی کی لوڈ شیڈنگ میں کچھ کمی ضرورآجائے گی مگر حالات ’’ جوں کے توں ‘‘ ہی رہے بلکہ اس سے بھی بد تر ہو گئے ہیں۔لوگ شدید گرمی میں بجلی کے ساتھ ساتھ پانی کو بھی ترسنے لگے ہیں۔اوپر سے بجٹ کے عذاب نے بھی عام آدمی کی کمر توڑ کے رکھ دی ہے ۔وہ لوگ جوپی پی کی حکومت کو پچھلے پانچ برس سے کوس رہے تھے اب انہیں سابقہ حکومت موجودہ سے بہتر نظر آنے لگی ہے۔کچھ عرصہ قبل تک عام آدمی جب اپنے موبائیل میں کارڈ ڈلواتا تواس میں سے دس فیصد ٹیکس کٹ جاتا تھا۔نئے بجٹ کے مطابق موبائیل فون کارڈ پر وِد ہولڈنگ ٹیکس کی شرح دس فیصد سے بڑھا کر پندرہ فیصد کر دی گئی ہے ،اگر سو روپے کا کارڈ لوڈ کرایا جائے گا تو تقریباََ اٹھاون روپے ملیں گے ۔عام آدمی پہلے، صدر آصف زرداری کو دعائیں دیتا تھا،اب میاں نواز شریف کو یاد کرتا رہے گا۔ادھر میاں صاحب ہیں کہ آتے ہی عوام کو ریلیف دینے کی بجائے سابق صدر کی ’’ریلیف ‘‘ کا سوچنے لگے ہیں۔ابھی حکومت اپنے پائوں پر کھڑی بھی نہیں ہوئی کہ (بقول تجزیہ نگار)میاں صاحب نے کلہاڑی بھی اٹھا لی ہے۔وہ آرٹیکل 6 کے تحت ، پرویز مشرف پر غداری کا مقدمہ چلانے کا اعلان کر چکے ہیں ۔اِن دنوں بجلی، پانی ،بجٹ ،ڈرون حملوں ، کوئٹہ ،کراچی ٹارگٹ کلنگ کے ایشوز کی بجائے پرویز مشرف پر آرٹیکل 6 کے تحت کاروائی زیر بحث ہے۔میاں صاحب کے بیشتر ’’ خیر خواہ‘ ‘ انہیں ہلا شیری بھی د ے رہے ہیںاوراِس حوالے سے میاں صاحب کے اعلان کا خیر مقدم بھی کر رہے ہیں۔شیخ رشید ،سینیٹر مشاہد حسین اور مولانا فضل الرحمن آرٹیکل 6 کی کارروائی کو پنڈورا بکس کھلنے سے تعبیر کر رہے ہیں ۔شیخ رشید کہتے ہیں کہ اس مقدمے کے بعد مسلم لیگ کے لیے چھ ماہ نکالنا بھی مشکل ہو گا۔واللہ اعلم با لصواب ۔۔۔ ہم تو پی پی کے رہنمائوں کے بیانات پر حیران ہیںجو اپنے دور کے آغاز میں ہی یہ کام آسانی سے کر سکتے تھے۔مگر اس وقت صدر مشرف کو ایوان صدر سے نہایت احترام اور توپوں کی سلامی کے ساتھ رخصت کر دیا گیا۔آج مخدوم امین فہیم فرماتے ہیں کہ : ’’ جمہوریت پر شب خون مارنے والوں کو قانون کی گرفت میں لانا ہو گا۔ ‘‘اعتزاز احسن بھی اس کے حق میں ہیں۔ آئین سے روگردانی کرنے والوں کے محاسبے کے خلاف کون ہو سکتا ہے؟ ایسے لوگوں کو سزا ملنی چاہیے مگر ہم تو سیاستدانوں کے ’’پینترا‘‘ بدلنے پر انگشت بدنداں ہیں۔پرویز مشرف ان دنوں جیل میں مقدمات کاسامنا کر رہے ہیں اور انہی کے کئی قریبی ساتھی مسلم لیگ ن میں شامل ہو چکے ہیں ۔عام آدمی کئی چہرے رکھنے والے سیاستدانوں اور ارکان اسمبلی کوجب ٹی وی چینلز کے ٹاک شوز میں بڑھ چڑھ کر باتیں کرتے دیکھتا ہے تواس کی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔پرویز مشرف کی حکومت تھی تو ٹی وی ٹاک شوز میں ان کا دفاع کرنے والوں میں شیر افگن نیازی (مر حوم)، وصی ظفر ،فواد چودھری اوربیرسٹر سیف نمایاں ہوا کرتے تھے۔چودھری پرویز الٰہی ،پرویز مشرف کو وردی میں دس بار صدر بنوانے کے حق میں تقریر یں کرتے تھے۔ ماروی میمن ،کشمالہ طارق،امیر مقام،خورشید قصوری اورطارق عظیم بھی پرویز مشرف کے دور میں ان کے قریب تھے ۔اب ان کے بارے میں جیل میں بیٹھے پرویز مشرف سوچتے ہوں گے۔ کہاں ہیں وہ مرے احباب آخر سب کہاں ہیں انہیں مشکل میں میرے ساتھ ہونا چاہیے تھا مگر کہتے ہیں کہ مشکل میں تو انسان کا اپنا سایہ بھی ساتھ چھوڑ دیتا ہے۔ پرویز مشرف کے ساتھی چُپ سادھے سب کچھ سن رہے ہیں۔ اب تو عمران خان بھی ڈرون حملوں کے حوالے سے سچ سننا چاہتے ہیں۔عمران خان نے اپنے تازہ انٹر ویو میں کہاہے کہ الیکشن کے حوالے سے ڈاکٹر طاہر القادری کے خدشات درست تھے ۔انہوں نے الطاف حسین کے اس بیان کی بھی تائید کی کہ پاکستان ڈوبتا ہوا ٹائی ٹینک ہے،(اللہ نہ کرے) کہ پاکستان کا حال ٹائی ٹینک جیسا ہو ۔ہم تو جناب مجیب الرحمن شامی سے اتفاق کرتے ہیں کہ پاکستان ٹائی ٹینک نہیں سمندر ہے۔ ہاں حالات خراب ہیں مگر مایوسی تو کفر ہوتی ہے۔بات پرویز مشرف کے مقدمات کی ہو رہی تھی،مسلم لیگ ن ابھی ہنی مون دور سے گزر رہی ہے اس نے بیک وقت بہت سے محاذ کھول لیے ہیں۔دہشت گردی، بد امنی کے ساتھ ساتھ توانائی کا بحران سب سے بڑا پاکستانی مسئلہ ہے۔بعد میں آئینی گتھیاں بھی سلجھائی جا سکتی تھیں۔سب سے پہلے اس عوام کی حالت کو مدنظر رکھا جانا چاہیے جو تبدیلی کے آرزومند ہیں۔ابتدا میں لوگوں کے بنیادی مسائل پر توجہ دی جائے بعد ازاں اس ملک کا آئین توڑنے اور وطنِ عزیز کی دولت لوٹنے والوں کا کڑا احتساب کیا جائے۔کس دہشت گرد ،کرپٹ سیاستدان،بیوروکریٹ یا جعلی ڈگری ہولڈرکو سزا کے ساتھ ساتھ اس سے مراعات، سہولیات اور تنخواہوں کی رقوم واپس لی گئی ہیں؟ اگر کرپٹ،نادہندہ اور جعلی ڈگری کے حامل امیدواروں کو الیکشن میں حصہ لینے سے روک دیا جاتا تو آج اسمبلیوں میں وہی چہرے دکھائی نہ دیتے جو ہر حکومت میں شامل ہوا کرتے ہیں ۔یہ ارکان اپنی قیمتی گھڑیوں،گاڑیوں اور موبائیلوں کو دکھانے اسمبلیوں میں آتے ہیں اور مفت میں قومی خزانے سے لاکھوں کی مراعات حاصل کرتے ہیں ۔یہ مراعات یافتہ طبقہ چڑھتے سورج کا پجاری ہے، جدھر کی ہوا ہو ادھر چلتا ہے۔ یہ لوگ آج میاں نواز شریف کے ساتھ ہیں تو چند روز بعد اگرکوئی اور ’’ مردِآہن ‘‘ اقتدار میں آگیا تو اس کے ساتھ کھڑے تالیاں بجا رہے ہوں گے۔ سوموجودہ حکومت کو اہم ترین ایشوز پر توجہ دینی چاہیے۔ پرویز مشرف کا کیا ہے وہ دلیر آدمی جیل میں ہے اور بھاگ کر جانے والا نہیں ہے۔زیادہ سے زیادہ آپ سے یہی کہہ سکتا ہے۔ ؎ یا اپنے پائوں پر مجھے گرنے سے روک دے یا میری لغزشوں کو عبادت شمار کر

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں