رمضان کی دعائیں اور ترقیاتی منصوبے

رمضان المبارک رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ ہے ۔ہمیں اس بابر کت مہینے میں اپنے علاوہ وطن ِ عزیز کی بہتری اور خوشحالی کی بھی دعائیں کرنی ہیں ۔سب سے پہلے نومولود حکومت کی درازیٔ عمر اور تندرستی کی دعا ضروری ہے۔ الحمدللہ وزیر اعظم پاکستان چین کے کامیاب دورے سے واپس آگئے ہیں۔ انہوںنے چین کے تعاون سے توانائی کے بحران کے ساتھ ساتھ گوادر سے کاشغر تک تیز رفتار ٹرین منصوبوںکے معاہدے بھی کیے ہیں۔ توقع ہے کہ ملک میں بلٹ ٹرین کے منصوبے سے ہمارے بہت سے مسائل حل ہو جائیں گے۔دعا کریں کہ ہم بلٹ ٹرین کو بلٹ پروف ٹرین بنانے میں کامیاب و کامران رہیں۔بلٹ پروف ٹرین سے ہمیں اپنے وزراء اور دیگر قیمتی شخصیات کے لئے بلٹ پروف کاریں خریدنے سے بھی نجات مل جائے گی۔زیرِ زمین ریل منصوبے کی کامیابی سے ہم موجودہ بے ہنگم ٹریفک سے بھی چھٹکارا پائیں گے،خصوصاََ بڑے شہروں کی ٹریفک شُتر بے مہار ہو چکی ہے۔ اور اسے ہمارے ’’ سمارٹ‘‘ پولیس مین قابو کرنے سے قاصر ہیں ۔زیرِ زمین ریل کیلئے کوئی الگ وزارت قائم نہیں کی جائے گی بلکہ ہمارے ہر دلعزیز سعد رفیق ہی اس کے بھی وزیر ہونگے۔سعد رفیق ایک محنتی سیاسی کارکن ہونے کے سبب ہمیں پسند ہیں ۔ان پر کسی قسم کی کرپشن کا الزام بھی نہیں۔ وہ ریلوے کے بگڑے نظام کو سدھارنے میں مصروف ہونے کی وجہ سے وزیر اعظم کے وفد میں شامل نہیں ہوسکے۔ ان کے بعض چاہنے والوں کو یہ بات محسوس بھی ہوئی مگر خاطر جمع رکھی جائے وہ چین بھی ضرور جائیں گے۔ ہمیں یقین ہے کہ وہ بہت جلد ریل کو پٹڑی پر لے آئیں گے۔۔اس ٹرین منصوبے سے ہمارے کئی دیگر مسائل حل ہونے کی توقع ہے۔خاص طور پر بغیر پھاٹک ریلوے کراسنگ پر یہ جو آئے روز حادثات ہوتے ہیں،زیرِ زمین ریل سے یہ اَن مینڈ ریلوے کراسنگ کا جھنجٹ بھی ختم ہوجائے گا۔بجلی بحران کے لئے بھی چین کی مدد لی جارہی ہے۔بفرضِ محال اگر اس میں تاخیر ہوتی ہے تو بھی بلٹ ٹرین چلنے سے لوگوں کو اتنا فائدہ ضرور ہوگا کہ وہ گھروں میں بغیر بجلی، گھر میں پڑے رہنے کی بجائے سفر کو ترجیح دیںگے۔ ع سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے شدید گرمی اور حبس میں بلٹ ٹرین کا سفر عوام الناس کے لیے بہت مفید ثابت ہوگا۔ ویسے بھی کہتے ہیں زندگی کا میلہ چل پھر کر دیکھنا چاہیے۔اس سے ایک اور فائدہ بھی ہوگا کہ یہ روز روز کے احتجاجی مظاہروں میں کمی واقع ہو گی۔کراچی میں بالخصوص چھینا جھپٹی کی وارداتیں اس وقت ہوتی ہیں جب شہر کی سڑکوں پر ٹریفک جام ہوا کرتا ہے۔ زیرِ زمین ریل سے شہر کی سڑکوں پر ٹریفک کا دبائو بھی کم ہو جائے گا۔اور موبائل چھننے اور رہزنی کا خوف بھی جاتا رہے گا۔ویسے تو موبائل کا استعمال کم کرنے کے لیے موجودہ حکومت نے بھی کچھ اقدامات کر لیے ہیں۔ موبائل کارڈ پر ٹیکس لگنے سے لوگ موبائل سے بتدریج خود بہ خود دور ہوتے چلے جائیں گے۔حکومت کے اس اقدام سے ، نئی نسل جو ہر وقت موبائلوں سے چپکی رہتی ہے،ریلیکس ہو جائے گی۔اس طرح نوجوانوں کی ذہنی اور جسمانی صحت پر بھی خوشگوار اثرات مرتب ہونگے۔میسجنگ اور چیٹنگ سے باز رہ کر وہ اپنی تعلیم پر توجہ دے سکیں گے۔یوں تعلیم کے فروغ سے لوگوں میں عقل و شعور کی سطح بھی بلند ہوگی اور وہ کم از کم ترکی کے بھونڈے انداز میں ڈب کئے گئے ڈرامے بھی نہیں دیکھیں گے۔اس کی حوصلہ شکنی کے لیے اگر چہ اسحاق ڈار بھی مستعد رہے ہیں اور ان ڈراموں پر بھی انہوں نے ٹیکس لگا کر اپنی ثقافت کو غرق ہونے سے بچالیا ہے۔مگر عوام جہالت کے اندھیروں سے نکلنے کے بعد جب مزید باشعور ہو جائیں گے تو وہ ایسے کرارے ڈراموں کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھیں گے۔اس سے ہمارے ڈرامے کی صنعت کو فروغ نصیب ہو گااور پی ٹی وی پر اپنے پاکستانی ڈراموں اورحقیقی ثقافت کا دوبارہ ڈنکا بجنے لگے گا،پھر سے ’’ ایک حقیقت ایک افسانے ‘‘ جیسے ڈرامے تخلیق ہونے لگیںگے۔اور آپ تو جانتے ہیں کہ معاشرے کی تہذیب و تربیت کے لیے ادب و ثقافت کا ہتھیار بھی کام میں لایا جاتا ہے۔ اگر ہم اپنے ادب کو فروغ دیں گے تو سماج میں امن و محبت اور برداشت کا کلچر بھی پروان چڑھے گا۔اور بہت جلد ہم بھی ترقی یافتہ اقوام میں شمار ہونے لگیں گے۔پھر ہمیں کسی ڈرون سے خطرہ نہ رہے گا۔لوگ ہمارے اپنے ڈرون طیاروں سے تھر تھر کانپا کریں گے۔یوں ہمیں محض ڈرون روکنے کے لیے آل پارٹیز کانفرنسوں کے انعقادکی ضرورت بھی نہیں رہے گی نہ ہی کسی سپر طاقت کے خلاف قرارداد پاس کرنے اور پھر اس پر عمل درآمد نہ کرنے پر شرمندگی سے دوچار ہونا پڑے گا۔ سو رمضان المبارک میں ہمیں سب سے زیادہ بلٹ ٹرین منصوبے کی کامیابی کے لیے دعائیں مانگنی ہو ں گی۔ ابھی ہم نے اپنے دیرینہ دوست چین سے اور بھی شعبوں میں مدد حاصل کرنی ہے۔ اس سلسلے میں چینی بھائیوں کو سر آنکھوں پر بٹھانا ضروری ہے ۔چینی دوستوں کو بھی اعتماد رکھنا چاہیے کہ ہم ان کی پذیرائی ،احترام اور حفاظت کے لیے اپنی تمام صلاحیتیں بروئے کار لائیں گے۔ویسے چین کے دوستوں کو اب کسی قسم کی شکایت نہیں ہونی چاہیے کہ خود وزیراعظم پاکستان نے انہیں اپنا ذاتی ای میل دے دیا ہے۔انہیں کوئی مسئلہ پیش آئے تو وہ براہ راست میاں محمد نواز شریف صاحب سے رابطہ کر سکتے ہیں۔بس دعا کریں بلٹ ٹرین منصوبہ جلد سے جلد عملی صورت اختیار کر جائے کیونکہ یہ ایک ایسا منصوبہ ہے جس سے ہماری بہت زیادہ توقعات ہیں۔ گوادر سے کاشغر تک تیز رفتار ٹرین سے تجارت کو فروغ حاصل ہوگا۔ یہ منصوبے خواب نہیں بلکہ حقیقت ہیں بس اس کے لیے پائوں دیکھنے کی بجائے نظریں آسمان کی جانب رکھی جائیں بالکل اپنے عمران خان کی طرح کہ : نگہ بلند‘ سخن دل نواز‘ جاں پرسوز یہی ہے رختِ سفر میرِ کارواں کے لیے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں