قانون صرف غریب کیلئے ؟

ہم بھی ایبٹ آ با د کمیشن رپور ٹ پر کچھ کہنے کے لیے پَر تول رہے تھے کہ وزیر اطلاعا ت پرویزرشید نے ہمار ی مشکل حل کر دی ،ورنہ ہم بھی اپنے دیگر احبا ب کی طرح خواہ مخواہ کمیشن رپورٹ کے حوالے سے جانے کیا کیا کہہ جاتے۔صد شکر کہ ایبٹ آ باد کمیشن کی اصل رپورٹ حکومت کے پاس محفو ظ ہے۔پرویز رشید کے مطا بق ’’اصل رپورٹ کے ایک بھی لفظ کا کسی کو علم نہیں اور ہر طرف غیر مصدقہ دستاویزات پر تبصرے کیے جا رہے ہیں۔‘‘ بہت اچھا کیا کہ پرویز رشید صاحب نے قوم کو اصل صورت ِحال سے آ گاہ کر دیا ، ورنہ انہی دستا ویزا ت کی روشنی میں ابھی اور نجا نے کتنی گرد اُڑتی ،کیا کیا بیانات آ تے۔ویسے تو اب بھی جتنی با تیں ہو چکی ہیں ان کے بعد باقی کوئی خا ص کسر تو نہیں رہ گئی۔ کمیشن کے قیام اور سال بھر اُس کی تحقیقا تی کارروائی کے دورا ن بھی کیا کیا بیا نات سامنے نہیں آ ئے، کتنے تبصرے ہوئے۔ ہو نا تو یہ چاہیے تھا کہ کمیشن کی رپو رٹ پر ذمہ داروں کو سزا ئیں دی جاتیں، مگر ہما رے ہاں کمیشن شاید بنائے ہی اس لیے جا تے ہیں کہ انہیں دفن کر دیا جا ئے۔ ایبٹ آ با د کمیشن ایک بہت ہی حساس معا ملے پر قا ئم کیا گیا تھا ۔ لیکن کمیشن پر چپ سا دھ لی گئی اور رپو رٹ پر سا بقہ حکو مت خزا نے پر سانپ کی طر ح بیٹھ گئی تھی۔مسلم لیگ (ن) کے ترجمان پرویز رشید نے بتا یا ہے کہ کمیشن رپو رٹ کو عام کر نے یا نہ کر نے کے لیے ایک کمیٹی بنا ئی گئی تھی جس کے سربرا ہ فا روق نا ئیک تھے۔تاہم کمیٹی کا فیصلہ ابھی آ نا با قی ہے اور اگر قوم کے مفا د میں ہوا تو ایبٹ آ با دکمیشن کو عوام پر ظاہر کر دیا جائے گا ۔ گو یا ابھی رپو ر ٹ کے حقیقی مندرجا ت قوم کے سامنے آ نا باقی ہیں ۔قوم، کمیشن کے بعد اب کمیٹی کے فیصلے کا انتظار کرے۔ انشا اللہ دودھ کا دودھ اور پا نی کا پانی ہو جا ئے گا۔غیر مصدقہ دستاویزات جیسے بھی لیک ہو ئیں کیونکہ وہ اصل رپو ر ٹ کے مطا بق نہیں لہٰذااس پر تبصرو ں، بیانا ت اور کالمو ں کو عوام نظر اندا ز کریں بلکہ ان تجزیوں کو بالکل بھو ل جا ئیں ۔ویسے تو گڑھے مر دے اکھا ڑ نے سے بہتر ہے کہ ما ضی فراموش کر دیا جائے اور جیسے سابقہ حکو مت چو دھری شجا عت حسین کی ’ ’ مٹی پا ئو ‘‘ پا لیسی پر عمل پیرا تھی ، مو جو دہ حکومت کو بھی قوم کے مفا د میںاس رپو رٹ کو منظر عام پر لا نے سے پر ہیز کر نا چاہیے ۔ تمہید قدرے طویل ہو نے پر ہم معذرت خواہ ہیں ۔آ ج کے کالم میں ہم تو شہر سے آوارہ کتوں کے تلف کیے جا نے پر ضلعی انتظامیہ کا شکریہ اداکرنا چاہتے تھے۔ شہر سے یہ ’’ کُت خانہ ‘‘ ختم کر نے کے لیے انتظا میہ کا رمضان میں متحر ک ہو نا قابلِ تحسین ہے۔یوں تو ایک عرصے سے ضلعی انتظامیہ شہر کے آوارہ کتوں کے تعا قب میں ہے اورماضی میں بھی کتوں کو تلف کر نے کے لیے با قا عدہ فی کتا پچاس رو پے انعام بھی دیا جا تا رہا ہے ، لیکن یہ پرا نی با تیں ہیں ، اب تو مہنگائی کے مطا بق فی کتا ریٹ بڑ ھ چکا ہو گا۔جب ریٹ صرف پچا س رو پے ہوا کر تا تھا، کئی نشئی بھی اِس کتا مار مہم میں شریک ہوجایاکر تے تھے۔ ایک ’’جہاز‘‘ تا جو نے اپنا نام چھا پنے کی استدعا کر تے ہو ئے بتا یا کہ ’’ہما رے کئی ساتھی اُن دنوں صرف کُتے کی دُم دکھا کر پچا س روپئے وصول کر لیا کر تے تھے‘‘۔آجکل کتے مار مکا نے والے کو فی ’’ دُم ‘‘ کیا دیا جا رہا ہے ، خبر میں نہیں بتا یا گیا، البتہ اتنا ضرور پتہ چلا ہے کہ ضلعی انتظامیہ کی مختلف ٹیموں نے مجموعی طو رشہر سے 309 کتے ٹھکانے لگا دیئے ہیں۔ضلعی انتظامیہ کو آ وارہ کتوں کے علا وہ مختلف جرا ئم میں ملو ث چوروں ڈاکوئوں، بھتہ خوروں، ذخیرہ اندوزوں،ملاوٹ کرنے والوں اور اغوا کی وارداتیں کرنے والے اُن تمام درندوں کو بھی تلف کرنے کی کوئی مہم چلانی چاہیے ، ویسے بھی وزیر اعلیٰ شہباز شریف اِن دنوں بجلی اور گیس چوروں کو نتھ ڈالنے کا مکمل ارادہ کیے ہوئے ہیں ۔ اس گند کو صاف کرنے کے لیے عملی اقدامات نظر آنے ضروری ہیں۔بااثر مجرموں کاکسی نہ کسی با اثر شخصیت سے رابطہ ہے۔ جس کے سبب اس کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا جاتا، جب تک اثر ورسوخ والے افراد کو قانون نظر انداز کرتا رہے گا ۔ معاشرے کا گند صاف کرنا مشکل ہے ۔ وطن عزیزکو اگر واقعتاً دہشت گردی ، چور بازی ، بھتہ خوری ، ٹارگٹ کلنگ جیسے جرائم سے پاک کرنا ہے تو ان سے ’’ منہ زبانی ‘‘ آ ہنی ہاتھوں سے نمٹنے کی بجائے ، عملی طور انھیں عبرت کا نشان بنانا پڑے گا۔بجلی چوری کرنے والا کوئی نہ کوئی سیاستدان سابق وزیر مشیر یا اس کا ’’چیلا چانٹا ‘‘ صنعت کار نکلتا ہے۔ ایسے با اثر افراد کو کون لگام ڈالے گا؟اس کا فیصلہ ہماری نئی حکومت کو کرنا ہے ۔اب تو کرپشن بیوروکریسی کی بھی رگوں تک سرایت کر چکی ہے۔ پوسٹنگ ٹرانسفر پر سرِ عام رشوت لی جارہی ہے ۔قومی اداروں میں میرٹ پر با صلاحیت اور اہل افراد لگانے کا وعدہ مسلم لیگ نون نے بھی کر رکھا ہے۔عدالتوں میں بڑی بڑی شخصیات کے مقدمے چل رہے ہیں۔اگر یہ سارے بڑے لوگ با عزت بری ہو جاتے ہیں یا انہیں کسی بھی ڈیل کے ذریعے خاموشی سے بیرونِ ملک فرار کرا دیا جاتا ہے اگر با اثر اور خصوصاََ سابق حکومت کے کار پردازوں کو ڈیل دے کر کر بھگا دیا گیا تو پی ٹی آئی کی ’’ مک مکا ‘‘والی بات سچ ثابت ہو جائے گی۔میاں محمد نواز شریف ابھی تک بہت سے ’’ بولڈ سٹیپ ‘‘لے کر مک مکا کا تاثر ختم کر رہے ہیں۔لیکن ڈھیلے ڈھالے اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ جس طرح کی اپوزیشن کر رہے ہیں اور جس طرح نیب کے چیئر مین کے لیے وہ من پسند عمر رسیدہ اور ناساز طبع افراد کے نام سامنے لا رہے ہیں اگر ان میں سے حکومت نیب کا کوئی چیئر مین لگاتی ہے تو عمران خان کے سارے شکوک درست ثابت ہو جائیں گے۔اس سے قبل معمر فخرو بھائی کے حوالے سے تبصرے تو ابھی تک جاری ہیں ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قوم کو ایک با صلاحیت ،جرأت مند چیئر مین نیب کی ضرورت ہے اس کے لیے کسی عمر رسیدہ بابے کی بجائے مضبوط ارادے اور کسی کے سامنے نہ جھکنے والے محبِ وطن توانا شخص کو نیب کا چیئر مین بنایا جائے جس کی آنکھوں میں نوکری دینے والوں کے لیے بھی کوئی لحاظ نہ ہو۔ورنہ سوچنے والے یہی سوچیں گے کہ قانون صرف عام اور غریب لوگوں کے لیے ہے اور بااثر شخصیات کو کوئی پوچھنے والا نہیں۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں