کرچی کرچی…کراچی

ایک آدمی کی گاڑی ویران سڑک پر خراب ہو گئی ۔ اس نے گاڑی سڑک کے کنارے کھڑی کی ، بونٹ کھولا اور خرابی دور کرنے کیلئے آدھا دَھڑ اندر جھکاکر دیکھنے لگا۔ اچانک اُسے چٹخ چٹخ کی آواز سنائی دی۔ اس نے سراٹھا کر دیکھا تو حیران رہ گیا کہ ایک آدمی اس کی گاڑی کے ویل کیپ اتار رہا تھا۔ گاڑی والا غصے میں چیخا… یہ کیا کر رہے ہو؟ ’’چور نے آرام سے جواب دیا: ’’چیخو نہیں! تم نے جو کچھ نکالنا ہے نکال کر لے جائو‘ میں صرف ویل کیپ اتار لیتا ہوں‘‘۔ اِن دنوں وطنِ عزیز کے ساتھ کچھ ایسا ہی سلوک ہو رہا ہے ۔ جس کے ہاتھ جو لگتا ہے یا جس کا جہاں دائو لگتا ہے‘ لوٹ کھسوٹ میں مشغول ہے۔ کیسے کیسے سکینڈل ، لوٹ مار اور کرپشن کی کہانیاں اخباروں کی زینت بن رہی ہیں ۔ ہر شخص اپنی بساط کے مطابق پاکستان کو ’’چونڈ‘‘ رہا ہے۔ پیپلز پارٹی اور اسکے اتحادیوں نے مبینہ طور پر کرپشن کے سارے ریکارڈ توڑ دیے۔ کئی اداروں کے کرپشن کیس بڑی عدالتوں میں چل رہے ہیں۔ قانون پر عمل نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی۔ کراچی اور بلوچستان کے حالات و واقعات جان کر یوں محسوس ہو تا ہے جیسے وہاں مختلف ’’مافیا‘‘ چھائے ہوئے ہیں۔ حکومت نام کی کوئی شے نہیں۔ یوں لگتا ہے کہ سندھ کے وزیر اعلیٰ بس نام کے ہی وزیر اعلیٰ ہیں۔ انہیں دیکھ کر پنجاب کے ایک سابق گورنر یاد آتے ہیں جو ہر سائل کی فریاد پر دعا کے لئے ہاتھ اٹھادیا کرتے تھے۔ کراچی کو فوج کے حوالے کرنے کے مطالبے کے بعد وہاں ٹارگٹڈ آپریشن کی باتیں ہو رہی ہیں ۔ وزارت ِداخلہ کی طرف سے عدالت عظمیٰ میں مہاجر ری پبلک آ رمی کے حوالے سے رپورٹ پیش کی گئی۔ اب حکومت اِس رپورٹ سے دستبردار ہو رہی ہے۔ عام آدمی حیران ہے کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ کراچی کا مسئلہ کب کا حل ہو جاتا اگر سابق حکومت سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عمل درآمد کرتی۔ سابق ادوار میں پیپلز پارٹی اور اے این پی بھی حکومت میں تھے، تینوں سیاسی جماعتیں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش میں لگی رہیں۔ کراچی میں کئی گروپ عوام کو خوفزدہ کر کے بھتہ وصول کر رہے ہیں۔ خوف کی فضا قائم کر کے تاجر برادری کا جینا محال کیاجا چکا ہے۔ تاجروں نے حکومت کی گمشدگی کا طنزیہ اشتہار شائع کرا دیا۔ کئی صنعت کار اور بزنس مین کراچی سے ہجرت کر چکے ہیں مگر کسی حکومت نے کراچی کے مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ کون نہیں جانتا کہ اگر پولیس اور رینجرز کو مکمل اختیار دیا جائے اور سیاسی اثر و رسوخ سے بالا تر ہو کر بھتہ خوروں اور دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کیا جائے تو کراچی کی رونقیں بحال ہونے میں کوئی دیر نہیں لگے گی۔ لیکن ہوتا یہ رہا ہے کہ جس کی بھی حکومت آئی اپنی جماعت کو مضبوط کرنے میں لگی رہی۔ ذوالفقار مرزا کے دور میں اپنے لوگوںمیں اسلحہ لائسنس ریوڑیوں کی طرح تقسیم کیے گئے ۔ جہاں ہزاروں کی تعداد میں اسلحہ کے کنٹینر غائب کیے گئے ہوں ، وہاں امن کیسے قائم ہو سکتا ہے ؟کیا لیاری پاکستان کا حصہ نہیں ہے کہ جہاں پولیس اندر جانے سے گھبراتی ہے؟ پولیس کے جوانوں کو جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں ۔ سیاسی پارٹیوں نے مبینہ طور پر پولیس میں اپنے لوگ بھرتی کرائے ہوئے ہیں جو کسی آپریشن کا فیصلہ ہونے سے قبل ہی خبر افشا کر دیتے ہیں۔ اب تو سیاسی پارٹیوں کے مسلح ونگز کے علاوہ ہمسایہ ملک کی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کے ایجنٹ ، دہشت گرد اور جرائم پیشہ افراد بھی کراچی کو کرچی کرچی کرنے میں شامل ہو چکے ہیں ۔ وہ دن گئے جب کراچی میں لوگوں کو روز گار ملتا تھا ۔ پاکستان کے کونے کونے سے لوگ وہاں روزگار کے لیے جاتے تھے۔اس شہر کی راتیں جاگتی تھیں۔ ادبی ثقافتی تقریبات اور مشاعرے رات گئے تک جاری رہتے تھے ‘ مگر اب تو لوگ کسی حد تک گھروں میں قید رہنے لگے ہیں ۔ کراچی بھی انڈر ورلڈ کی سی تنظیموں کا گڑھ کہا جانے لگا ہے۔ کراچی کی وبا دھیرے دھیرے ملک کے دیگر شہروں میں پھیل رہی ہے۔ بھتہ خوری اور اغوا برائے تاوان کی وارداتیں تو لاہور اور اسلام آباد میں بھی ہونے لگی ہیں اور سکیورٹی کی قلعی تو اسلام آباد کے سکندری واقعہ سے کھل چکی ہے۔ ہماری پولیس کے پاس تو سٹن گن بھی نہیں تھی۔ اس سے دہشت گردوں کو کیا پیغام گیا ہو گا۔ دن دیہاڑے ایک گورنر اور ایک وزیر اعظم کے بیٹے اغوا ہوئے مگر ابھی تک ان کو بازیاب نہیں کرایا جا سکا۔ اصل بات یہ ہے کہ قانون پر عمل درآمد نہیں ہوتا ۔ جیلیں جرائم پیشہ افراد کیلئے عیش و عشرت اور جنت کا نمونہ بن چکی ہیں ۔ جیلوں میں قاتلوں اور بڑے مجرموں کی حکومت ہے۔ جیلوں میں رہ کر بھی وہ مختلف جگہوں پر وارداتیں کراتے ہیں۔ اب تو جیلیں بھی ٹوٹنے لگی ہیں۔ پھانسی کے مجرموں کے ’’لواحقین‘‘ حکومت کو دھمکیاں دیتے ہیں۔ جج خوف کے مارے سے مقدمات سننے سے انکار کر دیتے ہیں۔ اِن سارے حالات میں حکومت کہاں ہے ؟ بہت سے اداروں کے سربراہ اور کئی محکموں کے سیکرٹری تعینات نہیں کیے جا سکے۔ مسلم لیگ نون کا ہنی مون پیریڈ تمام ہوا چاہتا ہے مگر ابھی تک وعدے وفا نہیں ہو سکے۔ حکمرانوں کی نیت پر شک نہیں کیا جا سکتا مگر ابھی تک حالات نئی حکومت کی گرفت میں نہیں آ سکے ۔ وزیرِ داخلہ قیام امن کے لیے کوششوں میں مصروف ہیں۔ انہیں سابق حکومت کی کوتاہیوں کو یاد کرنے اور ماضی میں ان پر اپنی خاموشی کا کریڈٹ لینے کی بجائے آج عملی طور پر کچھ کر گزرنے پر توجہ دینی چاہیے۔ یہ اقتدار بھی ڈھلتے سائے کی طرح ہوتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو موقع دیا ہے تو کچھ ایسا مثبت کا م کر جائیں کہ لوگ ہمیشہ یاد کریں ۔ ورنہ رہے نام اللہ کا۔ کہتے ہیں ایک بادشاہ نے نیا محل تعمیر کرایا اور کہا کہ ہر کسی کو اس محل کے نظارے کی اجازت دی جائے۔ ناظرین یا تو دوست ہوں گے یا دشمن ۔ اگر دوست ہیں تو خوش ہونگے اور ہمیں دوستوں کی خوشدلی مطلوب ہے اور اگر دشمن ہیں تو رنج اٹھائیں گے اور ہر شخص کی یہی مراد ہوتی ہے کہ اس کے دشمن کو رنج پہنچے یا شاید وہ کوئی عیب ڈھونڈیں اور ہم نقص دور کر سکیں۔ ایک فقیر نے محل کے نظارے کے بعد شاندار تبصرہ کیا‘ بولا: ’’اِس محل میں دو نقص ہیں۔ ایک یہ کہ آپ اِس میں ہمیشہ نہ رہیںگے ، دوسرا یہ کہ یہ محل ہمیشہ نہ رہے گا۔‘‘ بادشاہ اِس کلام سے اس قدر متاثر ہوا کہ وہ محل غربا اور فقرا کے لیے وقف کر دیا۔ ہمارے حکمرانوں کے محلات اور سرکاری رہائش گاہوں کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں