اس سے میری ملاقات داتا دربار کے احاطے میں ہوئی تھی۔میں سلام کے بعد ایک قدرے خالی کونے میں بیٹھا تھاکہ ایک نوجوان اسے میرے قریب بٹھا کر بولا! یہاں بیٹھ جائو میں بھنڈارا لے کر تھوڑی دیر میں آتا ہوں۔میں نے یونہی اس سے پوچھ لیاکہ وہ کہاں سے آئے ہیں؟ تووہ بے تکان بولنے لگا: '' ہم داروغہ والا سے آئے ہیں۔یہ میرا چھوٹا بیٹا تھا جو لنگر خانے کی طرف گیا ہے۔میں ہر جمعرات داتا صاحب حاضری دیتا ہوں ۔یہاں آکر مجھے بڑا سکون ملتا ہے۔جتنی دیر کسی دربارپر رہوں میرے جسم میں درد محسوس نہیں ہوتالیکن جیسے ہی میں یہاں سے نکلوں گا میرے جسم میں ہلکا ہلکا درد پھر سے شروع ہو جائے گا۔اگرچہ یہ درد قابل برداشت ہے مگر پھر بھی درد تو درد ہوتا ہے۔گھر والے بھی میری اس حالت سے اب تنگ ہیں۔بچوں کے پاس اتنا وقت ہی نہیں کہ وہ مجھے درباروں اور خانقاہوں پر لیے پھرتے رہیں۔ یہ چھوٹا میری بات مان لیتا ہے اور مجھے یہاں لے آتا ہے‘‘۔
''لیکن یہ کیسا درد ہے جو ہر وقت آپ کے تن بدن کو بے چین رکھتا ہے اور اگر کسی دربار پر رہنے سے آپ افاقہ محسوس کر تے ہیں توپھر یہیں کیوں نہیں رہ جاتے؟‘‘میں نے اچانک سوال کر ڈالا۔ جس پر وہ بتانے لگا : '' ایسا بھی کر کے دیکھا ہے ۔اِن درباروں پر مستقل رہنا بھی آسان کہاں ہے؟اوّل تو گدا گر مافیا کے لوگ مجھ ایسے کسی شخص کو یہاں ایک رات ٹکنے نہیں دیتے ۔دوسرا پولیس بھی تنگ کرتی ہے۔پھر میرے لیے یہاں رہنا بہت مشکل ہے کہ ایک عمر عیش و آرام میں گزار کر اِن جگہوں پر گزر بسر کرنا نہایت دشوار ہوتا ہے۔ زیادہ دیر نیچے بیٹھنے یا سونے کی عاد ت بھی نہیں ۔پھر گھر جیسا بھی ہووہاں کی سہولتیں درباروں یا خانقاہوں میں کہاں مل سکتی ہیں؟پھر گھر والے بھی پسند نہیں کرتے۔میرا ایک بیٹا محکمہ نہر میں ایس ڈی او ہے۔دوسرا پلاسٹک بنانے والی ایک چھوٹی سی فیکٹری کا مالک ہے۔یہ سب لوگ مجھے کہیں اور رہنے نہیں دیتے ۔ ‘‘
میں نے ادھیڑ عمر شخص کی ساری گفتگو سننے کے بعد کہا : ''اگر آپ ایک قدرے خوشحال گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں تو اپنا علاج کیوں نہیں کراتے؟ ‘‘
اس نے میری بات سنی اور ایک لمبی ٹھنڈی آہ بھر کر بولا : '' علاج بھی بڑا کرایا ہے۔مگر نصیب میں یہ درد لکھا تھا۔اب تو ایک مدت سے کسی ڈاکٹر حکیم کے پاس جانا چھوڑ دیا ہے۔اور بس اسی درد کے ساتھ زندگی بسر کرنی شروع کردی ہے۔جمعرات کو داتا جی کے حضور آجاتا ہوں۔چند گھنٹے یہاںگزارتا ہوں۔داتا جی کا لنگر ضرور کھاتا ہوںاور پھر مغرب کے بعد بچہ مجھے گھر لے جاتا ہے۔یہاں آنے سے درد میں قدرے کمی آجاتی ہے۔‘‘
'' لیکن پھر بھی اس درد کے بارے میں ڈاکٹر حضرات کہتے کیا ہیں؟ ‘‘مجھ سے رہا نہ گیا اور ایک اور سوال کر دیا۔
'' جناب بتایا نا ،یہ نصیبو ں کا درد ہے۔آپ بضد ہیں تو تفصیل سے بیان کرتا ہوں‘‘۔اب وہ دھیرے دھیرے اپنی کہانی کھول رہا تھا۔درمیان میں اس کا بیٹا دال روٹی لے آیا۔اس نے دال روٹی کھائی اور کہانی پھر سے شروع کر دی۔
'' بات یہ ہے جی کہ میں موٹرسائیکلوں کا کام کرتا تھا۔ایک بیوی ،تین بیٹوں اور ایک بیٹی کے ساتھ گزر بسر چل رہی تھی۔ پھر ایک عامل بابا سے دوستی ہو گئی ۔اس نے مجھے لوگوں کو جھانسہ دینے کے کچھ ایسے گُر سکھائے کہ میں محنت مزدوری چھوڑ کر عامل بن گیا۔اُن دنوں عملیات نے میرا دماغ خراب کر دیا تھااور میں بھی اپنے آپ کو چھوٹا سا '' خدا ‘‘ ہی سمجھنے لگا تھا۔سادہ لوح، معصوم لوگ، جن میں کثیر تعداد دیہاتی عورتوں کی ہوتی تھی، آسانی سے میرا شکار بن جاتے۔میں نے شکر گڑ ھ کے قریب ایک مکان لے کر اپنا ڈیرہ بنا یا ہوا تھا۔ہمارا تعلق سیالکوٹ سے ہے۔میرے آبائو اجداد شروع سے سیالکوٹ میں رہتے تھے۔میری موٹر سائیکلوں کی ورک شاپ بھی سٹیشن کے قریب تھی مگر عامل کے ہتھے چڑھنے کے بعد میں نے ورک شاپ بیچ دی اور شکر گڑھ کے علاقے میں عامل بن کر موج کرنے لگا ۔شکر گڑھ میں میری اچھی خاصی پیری مریدی چلنے لگی تھی۔خاوندوں کو مٹھی میں رکھنے،گھریلو ناچاقی،پسند کی شادی کے خواہشمند لوگوں کا میرے پاس تانتا بندھا رہتا تھا۔لوگ منہ مانگی رقم دے کر اپنا کام کرانے آتے۔گویا میرا جادُو سر چڑھ کر بول رہا تھا۔بس ایک روز قسمت کے چکر میں آگیا۔ایک گائوں میں اپنے بہت ہی گہرے عقیدت مند کے گھر ٹھہرا ہوا تھا کہ پتہ چلا میرے مرید کے بھائی کے گھر میں اُن کے مرشد آئے ہوئے ہیں۔میں نے اپنے مرید کے بھائی سے کہا اپنے مرشد کو ہم سے ملوائو۔انہیں کہو کہ آئیں ہماری دعوت کھائیں۔میرے مرید نے زبر دست دعوت کی ۔اپنے بھائی کے مرشد کو مدعو کر لیا، دعوت کے بعد گپ شپ شروع ہو گئی۔وہ آرام سے بیٹھے حقہ پی رہے تھے۔میں نے بتایا نا میرا دماغ اس وقت بہت اونچی ہوائوں میں تھا۔میں نے سید بادشاہ سے کہا:
''شا ہ جی ! یا تو کچھ لے لو یا پھر کچھ دے کر جائو ‘‘
وہ مسکراتے رہے اور کہنے لگے : '' نہیں جی ! ہم آپ کے مہمان ہیں۔آپ نے بڑی اچھی دعوت کھلائی ہے۔اب یہ کسی باتیں کرنے لگے ہیں۔میں نے دوبارہ اپنی بات دہرائی کہ آپ یا تو کچھ دے دیں یا کچھ لے لیں۔ میںدوسرے معنوں میں اُن کی فقیری کو للکار رہا تھا۔مگر وہ ٹالتے رہے کہ ہم یہاں کچھ لینے دینے نہیں آئے۔اب میں نے طنز کیا اور بولا: ''کچھ پلّے ہے تو دکھائو ورنہ ہم سے لے جائو۔‘‘
اچانک مرد ِ درویش کا چہرہ سرخ ہو گیا ۔وہ اٹھ کھڑے ہو ئے اور بولے ''تم کچھ دینے کے لائق تو نہیں...ہاں ،جائو ہم نے تو تمہیں عمر بھر کا بخار دیا۔ساری عمر اس سے تمہاری جا ن نہ چھوٹے گی ‘‘اور وہ دروازے سے باہر نکل گئے۔بس وہ دن اور آج کا دن میرا بخار کم نہ ہوا۔کئی روز تک بخار میں جلنے کے بعد ان کے اسی مرید کے ساتھ ان کے آستانے پر بھی حاضری دی مگر ان کا یہی فرمان تھا ''یہ فقیر کی دین ہے اور تم نے خود مانگی ہے۔اب یہ بخار نہیں اُترے گا ،البتہ ہم یہ کر سکتے ہیں کہ تمہارا درد قابل برداشت رہے‘‘۔
بس اسی دن سے میں اس درد کی ''پنجالی‘‘ میں ہوں۔وہ سارے عملیات ،چلّے،جادُو ٹونے،اپنی تکلیف میں بھول چکا ہوں۔بچوں نے گھر بار سنبھالا ہو ا ہے۔بظاہر کوئی دنیاوی پریشانی نہیں ہے مگر روح کا بخار ہے کہ کسی طرح کم ہی نہیں ہوتا۔داتا ؒ کے حضور آنے سے اپنا درد بھول جاتا ہوں۔یہاں بیٹھے ہوئے کوئی تکلیف نہیںہوتی۔اس درد کا معجزہ یہ ہے کہ میں کسی حد تک دنیا سے کٹ چکا ہوں ۔اندر ایک لگام سی پڑی ہوئی ہے جو مجھے جگائے رکھتی ہے۔ہم سیالکوٹ سے لاہور شفٹ ہو گئے تھے۔سبھی کو پتہ چل گیا تھا کہ کسی فقیر نے مجھے بخار عطا کیا ہے۔لوگ مجھے دیکھنے آتے تھے۔محلے میں لوگ مجھے بخار شاہ کہنے لگے تھے۔میں اس نئی شناخت سے بھاگنا چاہتا تھا ، میرا بھائی داروغہ والا رہتا تھا ۔ہم اس کے پاس آگئے۔بس دعا کریں کہ میرا خاتمہ بالخیر ہو جائے۔‘‘
اُس شخص کی کہانی نہ جانے کب ختم ہوئی اور اسے اس کا بیٹا کب اپنے ساتھ لے گیا لیکن میں ایک مردِ درویش کے اِس قول میں کھو یا ہوا تھا:
''مومن کی فراست سے ڈرو کیونکہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے‘‘