بسم اللہ کا دروازہ

اُس سے میری ملاقات ایک تکیے پر ہوئی تھی۔رسمی تعارف کے بعد وہ اپنے بارے میں قدرے تفصیل سے بیان کر رہا تھا: '' اُن دنوں میں انعامی بانڈوں کے نمبروں کی حرص میں گھرا ہوا تھااور اِس چسکے میں رات دن کئی ملنگوں اور بابوں کے پیچھے پھرا کرتا ۔ نمبروں کے معاملے میں تو میں خاصا بدقسمت ثابت ہوا البتہ اس '' نمبرداری ‘‘ کے چکر میں ایک بزرگ نے مجھے ''راستے‘‘ پر ڈال دیا تھا۔ ہُوا یوں کہ ایک دوست نے مجھے ایک پتہ تھمایا کہ فلاں بستی کی ایک ویران سی مسجد میں عصر کے وقت ایک شخص تیل ڈالنے آتا ہے ۔ اس سلسلے میں اس کی تعریف سنی ہے ۔اگروہ کسی پہ راضی ہو جائے تو کام بن سکتا ہے۔ میں تین روز تک اس مسجد میں عصر کی نماز ادا کرتا رہا مگر وہاں کوئی نہ آیا البتہ اگلے روز ایک عمر رسیدہ شخص آگیا۔ اس نے پہلے چراغ میں تیل ڈالا اور پھر وضوکر کے نماز پڑھنے لگا ، میں قریب ہی بیٹھا اسے واچ کر رہا تھا۔ وہ نماز سے فارغ ہوا تو میں نے سلام دعا کا آغاز کیا، وہ بے نیازی سے میری گفتگو سن رہا تھا۔اپنی بے ربط سی باتوں پر میں خود بھی پریشان تھا،کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ میں کیا کہہ رہا ہوں، مجھے اس سے اپنے نمبروں کی بات کرنی تھی مگر ابھی تک کوئی بات بن نہیں رہی تھی۔ میں اسی گو مگو میں تھا کہ اس نے ''ٹھاہ ‘‘ کر کے ایک سوال دے مارا۔کہا: '' کبھی اپنا نمبر بھی پوچھا ہے؟‘‘ اس کی بات سن کر یوں لگا جیسے میری چوری پکڑی گئی ہو، میں مزید پریشان ہوگیا،یا اللہ اسے میرے دل کی بات کیسے معلوم ہوگئی ہے۔میرے پیروں سے زمین سرکنے لگی۔ میں ابھی سنبھل نہ پایا تھا کہ آواز آئی: '' اپنے اندر جھانک کے دیکھو،کتنے ہی نمبر تمہارے اندر رینگ رہے ہیں۔‘‘
اب واقعی میرے تن بدن میں چیونٹیاں سی رینگنے لگیں۔ اتنے میں ایک اور جملہ میرے کانوں سے ٹکرایا: ''من کو نمبروں سے پاک کرو،پھر ایسا نمبر لگے گا کسی اور نمبر کی ضرورت نہیں پڑے گی۔‘‘ یہ کہہ کر وہ مسجد سے آناََ فاناََ رخصت ہو گیا۔میں دوبارہ کئی بار اس مسجد میں گیا مگر اس شخص سے ملاقات نہ ہو سکی۔ ایک خواب میں اسی تکیے کا نقشہ دیکھا ،میں خواب کے تعاقب میںکئی شہروں اور دیہات تک گیا‘ آخر کار منزل مل گئی۔ یہ جگہ دیکھی‘ مزار پر سلام کیا، مچ پر ایک ملنگ بیٹھا ہوا تھا‘ سلام کیا تو ''جی بسم اللہ ‘‘ کی آواز آئی، کہا‘ تشریف رکھیں، کچھ دیر میں میرے سامنے ایک روٹی اور چٹنی تھی۔ کہا گیا : '' جی بسم اللہ کریں‘‘۔ میںنے نوالہ حلق میں ڈالا تو میرے آنسو نکل آئے۔ کھانا کھایا تو قہوہ آگیا، پھر آنسوئوں کا سبب پوچھا گیا۔ میں نے بتایا کئی دنوں سے ایسے ڈیروں پر بھوکا پیاسا چکر لگا رہا ہوں، ہر کوئی مجھ سے نام اور کام پوچھتا‘ کسی نے اپنائیت سے اپنے پاس جگہ نہ دی ۔ بس کیا بتائوں یہاں آیا تو محسوس ہوا جیسے میرے سر پر '' بسم اللہ ‘‘ کی چادر تن گئی ہو، اُس دن سے مجھے کسی نے یہاں سے نہیں اٹھایا، نہ ہی کوئی سوال کیا۔اب ایک عرصے سے اسی بسم اللہ کی چھتری کے نیچے ہوں۔‘‘
اپنی کہانی کے بعد وہ خاموش ہو گیا تو میں نے سوال کیا: '' آپ جس مقصد کے یہاں آئے تھے کیا وہ پالیا؟‘‘ وہ بولا: ''جی بسم اللہ۔ میں نے بتایا ناں اس تکیے نے مجھے باندھ لیا تھا، دل کو ایک گونہ سکون میسر آگیا تھا۔پھر یہاں کے مردِ درویش جنھیں ہم بادشاہ جی کہتے ہیں، کی محبت نے مجھے دنیا و مافیہا سے بے نیاز کر دیا‘‘۔ ''تو کیا پایا آپ نے یہاں سے؟‘‘ میں اپنے سوال پر قائم تھا۔
اس نے دھیرے سے کہا: '' بسم اللہ ‘‘ ہی پایا ہے، ہمہ وقت زبان پر یہی کلمہ میری ''عادتِ ثانیہ‘‘ بن چکا ہے، اس کلمے کے بڑے معجزے ہیں،آپ کسی سے بات کریں یا کوئی آپ سے مخاطب ہواگر زبان سے بسم اللہ نکلے تو سننے والے کے دل پر اس کے نہایت گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں،مدِ مقابل کیسا ہی سفّاک، سخت دل، اور آپ کا مخالف ہی کیوں نہ ہو یہ کلمہ سنتے ہی اس کے حواس کا موسم یکسر بدل جائے گا۔ گویا بسم اللہ ایک ایسا نسخۂ کیمیا ہے جو ہر مشکل کی کنجی بن جاتا ہے۔میں نے تو اِس سکّے سے بہت کچھ حاصل کیا ہے، آزمائش شرط ہے۔بات یہ ہے سر جی! میں نے ٹھیکیداری سے لے کر دکانداری اور مختلف ملازمتیں کی ہیں ، پیسہ بھی بہت کمایا ہے، ماں باپ کے علاوہ محبت اگر کہیں پائی ہے تو بس اسی فقر کی راہ میں پائی ہے،آپ اِس ڈیرے پر آنے والوں اور سرکار سے محبت کرنے والوں سے ملیں تو وہ ہاتھ باندھے ، ''جی بسم اللہ، جی بسم اللہ ‘‘ کرتے، ایثار و محبت کا مرقع بنے دکھائی دیتے ہیں،کھانے پینے کی کوئی شے پیش کی جائے تو''جی بسم اللہ ‘‘ کہہ کر آگے دوسرے کو پیش کر دی جاتی ہے۔ یقین کریں اِن چٹائیوں پر ایک خاص قسم کا نظم وضبط اور پیا ر آپ کے حصے میں آتا ہے۔انسان اگر اندر سے تبدیل نہ ہو تو عبادات کا فائدہ؟اِنس، اُنس کے لئے ہے، محبت کے بغیر کائنات میں کچھ نہیں۔نفرت، تقسیم، حرص وہوس، نے ہمیں ایک
دوسرے سے دور کردیا ہے۔لوگ پیار کے بھوکے ہیں مگر چاروں طرف ایک عجیب سی بے حسی اور حرص نے جال پھیلائے ہوئے ہیں۔ جن لوگوں کو کوئی منہ نہیں لگاتا، جنہیں بُرا، گنہگار، غریب، لفنگا سمجھ کر دنیا دھتکار دیتی ہے ، درویش فقیر انہیں بغیر کسی طمع کے، اپنے سینے سے لگا لیتے ہیں۔ہمارے بادشاہ فرماتے ہیں: '' اگر کوئی سخت گرمی میں قریب سے گزرے توہنس کر اسے بلانے یا دو گھڑی چھائوں میں، اپنے پاس بٹھانے پر کون سا خرچ آتاہے؟ اور گھڑے سے ٹھنڈا پانی پیش کر دیا جائے تو کون سا بِل آجاتاہے۔توفیق ہو تو انسان کی مزید تواضع بھی کرنی چاہیے کہ یہی ہمارا دین کہتا ہے۔میٹھی اور اچھی بات بھی صدقہ جاریہ ہوتی ہے، کیا حرج ہے، دوسروں سے ہنس بولنے میں اور اگر اِس میں'' جی بسم اللہ ‘‘ بھی شامل کر لیں اور اس عادت کو حرزِجاں بنا لیا جائے تو سماعتیں روشن ہو جاتی ہیں،بس یہی زندگی ہے ورنہ آج مَرے کل دوسرا دن۔ پہلے انسان بندہ بن جائے اور اپنے باطن کو روشن کر لے پھر کئی اور دروازے بھی کھلتے چلے جاتے ہیںمگر پہلا دروازہ کھولنے کے لئے بسم اللہ تو کریں۔جانے کیوں ابوالعلامعّری یاد آگیا ہے:
'' دنیا میں سب سے بے نیاز وہ پارسا ہے جو تھوڑی چیز پر راضی ہو، ریشمی پوشاک اور تاج سے نفرت کرے اور پہاڑ کی چوٹی پر بسیرا کرے اور سب سے زیادہ حاجتمند بادشاہ ہے جو ہمیشہ فوجی دستوں اور لشکروں کا محتاج رہتا ہے۔‘‘

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں