ایک دفعہ بھیڑیا،شیر اور لومڑی اکٹھے شکار کو گئے۔انہوں نے گدھا ،ہرن اور خرگوش شکار کیا۔شیر نے بھیڑئیے سے کہا کہ تم شکار تقسیم کر دو۔بھیڑیا کہنے لگا‘ بات واضح ہے کہ گدھا آ پ کے لیے ،خرگو ش لومڑی کے لیے اورہرن میرے لیے مناسب رہے گا۔ شیر نے یہ تجویز سنی تو آگ بگولا ہو گیااور فوراََ بھیڑئیے کو بھنبھوڑ کر ہلاک کر دیا۔ پھروہ لومڑی کی طرف متوجہ ہوکر بولا: اب تم تقسیم کا فارمولہ بیان کرو۔تم عقل مند ہو تقسیمِ شکار کی کوئی عمدہ تجویز لائو گی۔لومڑی جھٹ بولی : ''اے ابو الحارث ! تقسیم بالکل واضح ہے،گدھا آپ کے ناشتے کے لیے ،ہرن عشائیہ کے لیے اور خرگوش ظہرانے میں کام آئے گا۔شیر نے فوراً کہا : '' واہ بی لومڑی : تم کتنی اچھی منصف ہو،یہ عمدہ ترین فیصلہ تمہیں کیسے سُجھائی دیا؟ ‘‘لومڑی ادب سے بولی : ''حضو ر عالی ! سامنے ہلاک پڑے بھیڑئیے کے سبب۔‘‘
درج بالا تمثیل سے اندازہ ہوتا ہے کہ طاقت ہمیشہ سکہ رائج الوقت رہی ہے ۔سچ ہے کہ انصاف کرنے والے اگر خود خوف زدہ ہو جائیں تو انصاف نہیں کیا جاسکتا۔ اِن دنوں کچھ ایسا ہی ہو رہا ہے ۔بہر حال یہ خوشخبری اطمینان بخش ہے کہ'' دہشت گرد ی‘‘ کا قلع قمع کرنے کی کوششیںکامیاب ہونے لگی ہیں۔عزیز قارئین ! آئندہ آپ کو ''دہشت گردی‘‘ کی اصطلاح کہیں پڑھنے سننے کو بھی نہیںملے گی اور میڈیا میں اس کی بجائے قدرے ملفوف الفاظ '' امن کے منافی سرگرمیاں‘‘ استعمال میں لانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ دہشت گردی ویسے بھی ایک'' ہولناک‘‘اصطلاح ہے ۔ کیا ہی اچھا ہو کہ وطنِ عزیز کے دیگر مسائل کے لیے بھی چند ایسی کمیٹیاں بنا دی جائیں جو لوڈ شیڈنگ ،غربت،مہنگائی اور ناانصافی جیسے مسائل کے لیے مناسب الفاظ یا اصطلاحات ڈھونڈ نکالیں۔ہم تو کرخت، سخت اور دلوں پر منفی اثرات مرتب کرنے والے الفاظ کو لغات سے بھی نکال دینے کے حق میں ہیںتاکہ نہ ایسے الفاظ اور تراکیب ہوںنہ ہی انہیں استعمال میں لایا جائے اور نہ ہی کوئی شخص ان پر عمل پیرا ہو سکے ۔بات دہشت گردی کی بجائے ملفوف الفاظ ''امن کے منافی سرگرمیاں‘‘ کی ہو رہی تھی۔ہماری مصالحتی کمیٹیوں نے دہشت گر دی کی جگہ جو الفاظ استعمال میں لانے کا فیصلہ کیا ہے ،وہ بے حد لائق تحسین ہے۔ بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق ، دہشت گردی کے الفاظ بھی ''سرُخ رومال ‘‘کی طرح ہیں، کمیٹیوں کو ڈر ہے‘ جس طرح سرخ رومال سے بیل مشتعل ہوتا ہے ، دہشت گردی کے لفظ سے ''امن کے منافی سرگرمیوں‘‘ میں حصہ لینے والے بھی آگ بگولہ ہو سکتے ہیںاور ہم پہلے ہی بڑی مشکل سے انہیں مذاکرات کی میز تک لائے ہیں۔
نادان ہے وہ طبقہ جو امن مصالحتی کمیٹیوں کے خلاف زہر اگلتا رہتا ہے۔یہ تو ''درمیان‘‘ کے وہ قابل احترام '' مردانِ قوم ‘‘ ہیںجنہیں حکومت اور طالبان دونوں '' اپنا ‘‘ سمجھتے ہیں۔دعا کریں یہ ''اپنے‘‘ لوگ کامیاب ہوجائیں۔مقام شکر ہے کہ ہم دہشت گردی سے ''امن کے منافی سرگرمیوں‘‘ تک تو آئے ہیں۔توقع رکھنی چاہیے کہ رفتہ رفتہ ہمارے سب مسائل کا ''خاتمہ بالخیر ‘‘ہو جائے گا۔ہاں ایک اور بات دہشت گردی کے الفاظ ختم ہو گئے ہیں تو اب انسدادِ دہشت گردی کے قوانین ،عدالتوں اور انسدادِ دہشت گردی فورس کے نام بھی تبدیل کر دیے جائیں۔کیونکہ ان ناموں سے بھی دہشت گردی ٹپکتی ہے۔ہمارے ہاں بہت سی وارداتیںنامعلوم افراد بھی کرتے رہتے ہیں۔ایسے افراد کے لیے الگ عدالتیں بنائی سکتی ہیں۔آپ سوچیں گے کہ ان کے خلاف سزائیں کیسے سنائی جاسکتی ہیں؟تو عر ض ہے کہ اگر تھانوں میں نامعلوم افراد کے خلاف '' ایف آئی آر ‘‘ کٹ سکتی ہے تو انہی نامعلوم افراد کو عدالتوں سے سزائیں بھی دلوائی جاسکتی ہیں۔ان دنوں ''امن کے منافی سرگرمیوں ‘‘ جاری رکھنے والوں سے اگرچہ مذاکرات جاری ہیںلیکن پھر بھی خون ریزی کے واقعات میںکمی نہیں آئی ہے بلکہ مذکرات بھی جاری ہیں اور خودکش دھماکے بھی گویا : ؎
ہے مشق ِ سخن جاری ''حملوں‘‘ کی مشقت بھی
لوگ حیران ہیں کہ یہ کیسے مذاکرات ہو رہے ہیںکہ جن سے مذاکرات ہو رہے ہیں وہ اپنا شغلِ غارت گری بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔اگلے روز ہمارا دودھ والاصدیق دودھی کہہ رہا تھا کہ ''حکومت کے ''گٹے گوڈے‘‘ جواب دے چکے ہیںورنہ یہ بڑی سادہ بات ہے کہ ناحق دوسروںکو قتل کرنے والوں سے مذاکرات نہیں ہوتے۔اصل میںقانون اگر سب کے لیے ہو اور اس کا خوف بھی ہو تو جرائم بھی کم ہوسکتے ہیں۔مگر ہو کیا رہا ہے۔حکومت میں شامل لوگ مال بنانے میں لگے ہوئے ہیں اور ہر جگہ اپنے لوگ لگا کر ،بادشاہی‘‘ ہو رہی ہے ۔ ‘‘
صدیق بظاہر دودھ بیچنے والا ہے مگر اس کی گفتگو سن کر میں نے کہا ''یار صدیق ! میں تو تمہیں صرف ایک دودھ والا سمجھا تھا مگر تم تو اچھا خاصا سیاسی ذہن رکھتے ہو۔ ‘‘صدیق بولا :'' او سر جی‘ یہ تو میرا پیشہ ہے مگر آپ کی اطلاع کے لیے میں اپنے علاقے کے کونسلر کا سیکرٹر ی بھی رہا ہوں۔میں ان پڑھ ،جاہل نہیں ہوں بلکہ اخبار کے علاوہ سارے ٹی وی ''ٹاک شوز‘‘ بھی دیکھتا ہوں ۔ویسے یہ حکومت کرکٹ کے ساتھ بھی کوئی اچھا سلوک نہیں کر رہی۔ ‘‘
وہ بات کو طول دینا چاہتا تھا مگر میں نے بات ختم کردی۔اور وہ اپنا دودھ کا ماہانہ بِل لے کر رخصت ہوگیا۔ اس کے جانے کے بعد میں کافی دیرسوچتا رہا ،واقعتاً جب قانون کی حکمرانی ختم ہو جائے تو پھر ''جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘والا محاورہ سمجھ میں آنے لگتا ہے۔انصاف کا دعویٰ کرنے والے، پہلے اپنا احتساب کرتے ہیں۔مگر ہمارے ہاں سب کچھ الٹا ہے۔برادرم رئوف کلاسرا ہر روز حکومت کی '' کرپشن کہانی ‘‘سناتے ہیں مگر کسی کے کان پر جوں تک نہیں ر ینگتی۔وجہ یہ ہے کہ ہمیں اپنی موت بھولی ہوئی ہے اگر انسان کو موت یاد رہے تو اِس پل دو پل کی زندگی کے لیے ''صراطِ مستقیم ‘‘ کبھی نہ چھوڑے۔ ایک گھڑ سوار نے ایک بزرگ سے پوچھا : بزرگو ! آبادی یہاں سے کتنی دور ہے؟
جواب ملا : دائیں دیکھو، سامنے آبادی ہی نظر آرہی ہے۔گھڑ سوارنے ادھر دیکھا تو سامنے قبرستان تھا۔بولا : میں نے آبادی کا پوچھاتھا۔قبرستان کا نہیں۔
بزرگ بولے : میں نے دوسرے مقامات کے لوگوں کو تو یہاں آتے دیکھا ہے ‘یہاں سے کسی کو کہیں جاتے نہیں دیکھا۔ یاد رہے کہ آبادی اس مقام کو کہتے ہیں جہاں دور دور سے لوگ آئیں اور وہاں سے پھر کہیں نہ جائیں۔میری نظر میں حقیقی آبادی یہی ہے۔نہ جانے یہ شعر کیوں یاد آرہا ہے۔ ؎
دیں ہاتھ سے دے کر اگر آزاد ہو ملت
ہے ایسی تجارت میں مسلماںکا خسارہ