رب دِلاں وِچ رہندا

قیام پاکستان سے بہت پہلے کا واقعہ ہے کہ ایک سکھ تھانیدار نے سیالکوٹ کے دیہات کے لوگوں کا ناک میں دم کر رکھا تھا۔وہ بے حد سخت اورجابرانہ طبیعت کا افسر تھا۔مسلمانوں سے بھی اس کا سلوک اچھا نہیں تھا۔اس کی دہشت کا اتناچرچا تھا کہ وہ جس علاقے سے گزرتا لوگ دبک کر رہ جاتے۔ وہ راہ چلتے لوگوں کے سر پر اپنی چھڑی دے مارتا۔اس کا پہلا سوال یہ ہوتا: '' تم کون ہو؟ کس کے بندے ہو؟‘‘سادہ دیہاتی مسلمان عموماً یہی جواب دیا کرتے کہ ہم رب کے بندے ہیں۔اس پر وہ اور سیخ پا ہو جاتااور مزید سوالات کرنے لگتا۔ وہ اکثر پوچھا کرتا:''کہاں ہے تمہارا رب؟‘‘ یہ سوال سن کر معصوم دیہاتی خاموش ہوجاتے۔ایک بار تھانیدار کا گزر ایک ایسے گائوں سے ہواجہاں ایک غریب موچی کے گھر، پسرورکے درویش حضرت عبداللہ شاہ تشریف لائے ہوئے تھے۔گلی سے گزرتے ہوئے تھانیدار نے نلکے پرحقّہ تازہ کرتے ہوئے موچی کے سر پر چھڑی لگائی اورکہا: تم کون ہو؟ 
موچی نے بر جستہ کہا: رب کا بندہ ہوں۔ تھانیدار بولا: کہاں ہے تیرا رب؟موچی نے جواب دیا :اندر جا... اچانک اس طرح کا جواب پا کر تھانیدارکی سٹی گُم ہوگئی، حیرت واستعجاب سے اس دروازے کی طرف بڑھا جس طرف موچی نے اشارہ کیا تھا۔ اندر داخل ہوتے ہی زور سے بولا:ہاں بھئی! کہاں ہے تمہارا رب؟ 
اندر مردِ درویش تشریف فرما تھے ۔انہوں نے کہا: جی بسم اللہ! فرمائیں؟
تھانیدار بولا: رب کدھر رہتا ہے؟ درویش نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کرکہا:رب ٹُوٹے ہوئے دلوں میں رہتا ہے، ہاں رب شکستہ دلوں میں رہتا ہے، جااورتلاش کر۔
یہ سنتے ہی سکھ تھانیدارکی حالت غیر ہوگئی، اس پرکپکپی سی طاری ہوگئی،پسینے میں شرابور ہوکر وہ کانپنے لگا۔اسی اثنا میں اس نے پہلے اپنی پیٹی اتاری اورگریباں چاک کر ڈالا، پھر اپنی پتلون اتاری ، نیچے کچھے کو ہاتھ ڈالا ہی تھا کہ بابا جی نے آواز دی کہ اسے باہر نکالو‘ یہ ننگا ہونے لگا ہے۔ پھر وہ دیوانوں کی طرح بستی سے باہر نکل گیا۔بتانے والے بتاتے ہیں کہ مدتوں اس کا کوئی سراغ نہ ملا۔ کافی عرصہ بعد کشمیر کے علاقے میں اس کی بزرگی کا چرچا ہوا، وہ ہر جمعرات کو عصر کے مقررہ وقت پر لوگو ں کے لیے دعا کیا کرتاتھا۔لوگ اپنے دل کی مرادوں کے لیے ہجوم کی صورت اکٹھے ہو جاتے۔دعا کے وقت خود موجود ہونا ضروری شرط تھا۔ انہی دنوں کی با ت ہے کہ ایک شخص اسی گرو کی دعا کے حصول کے لیے بھاگا جا رہا تھا، راستے میں ایک ضعیف بزرگ (جو کھرپے سے گھاس کھود رہے تھے) نے اسے روک کر پوچھا: کیوں اور کہاں بھاگے جاتے ہو؟
بتایا: وقت بہت کم ہے مجھے نہ روکو، ایک گرو دل کی مرادوں کے لیے دعا کرتا ہے، میں اسی کے دعائیہ جلسے میں شریک ہونے جا رہا ہوں تاکہ اپنی مراد پا سکوں۔ دعا کا وقت نکل گیا تو سفر رائگاں جائے گا۔ ضعیف بزرگ بولے: ''انہیں کہنا‘ خود حاضر ہونے سے معذور ہوں، میرے لیے بھی دعا کرنا‘‘۔
دعا کرانے والے نوجوان نے کہا ٹھیک ہے، میں آپ کے لیے دعا کرائوں گا،اب مجھے اجازت دو۔ادھر بزرگ نے دعا لیٹ کر دی تھی کہ ہمارا ایک مہمان آ رہا ہے۔ نوجوان محفل میں پہنچا تو صاحبِ دعا نے پوچھا :''ہاں بھئی‘ ادھر آئو ‘پہلے ہمارا پیغام دو،کیا پیغام لائے ہو؟‘‘ نوجوان ہکا بکا کہ کون سا پیغام؟ پھر بولا‘ اور تو کوئی پیغام نہیں البتہ مجھے راستے میں ایک ضعیف شخص نے باقاعدہ روک کر اپنے لیے دعا کرانے کی درخواست کی تھی۔یہ بات سن کر صاحبِ دعا کی آنکھیں نم ہو گئیں،انہوں نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیے اور پھر ایک کاغذپر دو مصرعے تحریر کیے اور اس نوجوان کے سپرد کیے کہ ان ( بزرگ) کو دے دینا۔ مصرعے یہ تھے:
ہم پنچھی تم کولسر، سدا رہو بھرپور
کِرپا تُمری چاہیے، پاس رہو یا دُور
بہت بعد میں کھلا کہ صاحب ِ دعا، وہی جابر سکھ تھانیداراورضعیف شخص مردِ درویش پسرورکے حضرت عبداللہ شاہ تھے جنہوں نے کہا تھا:''رب ٹوٹے ہوئے دلوں میں رہتا ہے‘‘۔
یہ واقعہ پسرور ہی کے ایک چھوٹے سے گائوں میں بابا جی کی محفل میں سنا تھا۔ مگرہمارے ہاں دلوں کو کون دیکھتا ہے۔ ہم دن بھر اڑھائی انچ کی زبان سے چھ فٹ کے لوگوں کے پرخچے اڑاتے رہتے ہیں۔ہمیں ہماری آواز سنائی نہیں دیتی کہ وہ سننے والے کے دل پر کیا اثرکر رہی ہے۔صبح سے شام تک ہم کس کِس کی دل آزاری نہیں کرتے۔ہم بات بات پر دوسروں کی تضحیک کرتے ہیں۔اپنی بڑائی ثابت کرتے ہیں یعنی خود کو دانا اور دوسروں کو نادان قرار دیتے ہیں ۔سرِبزم لوگوں کو ان کی غلطیوں اور نقائص پر بے عزت کرتے ہیں۔اس سے بظاہر ہماری انا کو تسکین ملتی ہے مگر ہم دوسروں کا احساس نہیں کرتے کہ ان پرکیا گزرتی ہے۔ عزیز قارئین ! اگر آپ کو احساس ہو جائے کہ آپ کے ارد گرد کے لوگ خاصے نادان ہیں،یعنی آپ کو دوسروں کے نقص اور غلطیاں دکھائی دینے لگیں تو دوسروں کو طنزکا نشانہ مت بنائیں بلکہ شکر کریں کہ وہ نقائص،غلطیاں اور بدحواسیاں آ پ میں نہیں ہیں۔اگر ربِ ذوالجلال نے آپ کو وہ عینک عطا کر دی ہے اور آپ اپنی سمجھ بوجھ سے دوسروں کی غلطیاں اور نقائص دیکھنے لگے ہیں تو تنقید مت کریں(ویسے علیحدگی میں کسی شخص کو شائستگی سے غلطی بتانا الگ بات ہے) کیا کوئی شخص دانستہ غلطی کرتا ہے؟ نہیں‘ ہر گز نہیں۔کوئی شخص نہیں چاہتا کہ بھری محفل میں اسے رسوا ہونا پڑے۔ کوئی انسان جان بوجھ کر غلطی نہیں کرتا، مگر ہم غلطیاں کرنے والوں کو کبھی معاف نہیں کرتے۔قیاس کیجیے اگراس کی جگہ آپ ہوتے تو؟سو ‘ لوگوں کی دل آزاری کے بجائے ان سے شائستگی اور محبت سے بات کرنے کی عادت ڈالیں،اسی سے انسان محبوبیت کا درجہ حاصل کر سکتا ہے۔دل کے حوالے سے عظیم صوفی شاعر حضرت میاں محمد بخش ؒ فرماتے ہیں:
مسجد ڈھا دے‘ مندر ڈھا دے،ڈھادے جو کُجھ ڈھیندا
اِک بندیا ں دا دل نہ ڈھانویں،رب دلاں وچ رہندا

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں