وہ ایک مختلف تقریب تھی، بالکل اور طرح کی، جس کے لیے باقاعدہ نہ کوئی سٹیج تھی نہ صدارت ؛ البتہ اِس پروگرام کا آغاز تلاوت ِکلامِ پاک اورنعتِ رسول مقبول ﷺ سے کیا گیا۔ روشنیوں سے مرصع وسیع لان میں زندگی کے مختلف شعبوںسے وابستہ چنیدہ خواتین و حضرات جمع تھے۔ یہ سبھی معززافراد صوبائی وزیر تعلیم و امورِ نوجوانان رانا مشہود احمدکی دعوت پر تشریف لائے تھے جنہوں نے یہ پروگرام شکاگو( امریکہ) سے آئے ہوئے اپنے پاکستانی احباب کے لیے ترتیب دیا تھا۔بالکل ایسی ہی ایک تقریب چند برس پیشتر بھی رانا مشہود احمد نے شکاگو ہی سے آئے ہوئے اپنے بہترین دوست، شاعر اورکالم نگار افتخار نسیم افتی کے اعزاز میں منعقدکی تھی۔آج باقی تو سب موجود تھے مگر افتی نہیں تھا۔البتہ شکاگو سے افتی اور رانا مشہودکے دیرینہ دوست راناجاویداورشکاگوکی پاکستانی کمیونٹی کے ممتازرہنما منیراحمدچودھری اورنعمت چودھری موجود تھے۔راناجاوید وہاں سے ریڈیو سرگم اور پاکستان نیوز شائع کرتے ہیں۔ ان کی خدمات سے وہاں کے سبھی پاکستانی آگاہ ہیں۔افتی اسی اخبار میںکالم لکھتا اور ریڈیو سرگم پرایک مقبول پروگرام کرتا تھا۔وہ جدید ترغزل کا نمائندہ شاعر ہی نہ تھا اس کے تیکھے کالم بھی قارئین میں مقبول تھے۔ وہ ایک صاف گواوراچھے دل کا مالک تھا اور ہمیشہ سچی بات لکھتاتھاجس سے ہمارے بہت سے ادیب اورشاعر نالاں رہتے۔اس کے کالموں کے دومجموعے شائع ہوچکے ہیں، شاعری تو خیر اس کی پہچان تھی ہی۔اس تقریب سے کیا کیا یاد آگیا۔ مانچسٹر میں صابر رضا کاروان ادب کے زیر اہتمام ہر سال کانفرنس اور مشاعرے منعقد کرتا ہے جن میں پاکستان اور بھارت کے ممتازاہلِ قلم شریک ہوتے ہیں۔ میں جب قاہرہ میں تھا،اِن تقریبات میں مسلسل شریک ہوتا رہا۔ صابر رضاکی تقریبات میں جولوگ باقاعدگی سے شریک ہوتے تھے ان میں جہاں آغا نثار، زاہد فخری، خالد مسعود،انعام الحق جاوید شامل تھے وہیں امریکہ سے افتخار نسیم بھی ہوتے تھے ۔ان محافل میں ادبی، سیاسی مباحثے بھی ہوتے اور چٹکلے بھی۔افتخار نسیم کے بارے کوئی کچھ کہے مگراس کی تخلیقی صلاحیتوں سے کبھی کسی نے انکار نہیں کیا، وہ اوّل تاآخر شاعراورایک سچا پاکستانی تھا۔آپ اس کے کالموںکی کتب پڑھ لیں، آپ محسوس کریں گے کہ اس کی تحریروں میں پاکستانیت اورانسانیت کے دردکی خوشبونمایاں ہے۔ بھارتی لابی کی آنکھوں میں وہ خاربن کرکھٹکتا تھا، پاکستان کے خلاف کبھی ایک لفظ نہیں سن سکتا تھا۔افتی پاکستان آتا تو رانا مشہود اس کے اعزازمیں شاندار شام کا انعقادکرتے جس میں شہر بھرکے اہل ِقلم کو مدعوکیا جاتا۔ مذکورہ پروگرام میں بھی ویسا ہی سماں تھا،افتی کی کمی سب نے محسوس کی ، سبھی دوستوں نے اسے یادکیا۔ تقریب کے مہمانِ خاص رانا جاوید نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے دیر تک اپنے استاد اور ہمدم ِ دیرینہ افتخار نسیم کو یادکیا۔انہوں نے پاکستان سے باہر رہنے والوں کے مسائل اور جذبات کے حوالے سے کہا کہ ہم لوگ اگرچہ وطن سے دور ہیں مگر دیار ِ غیر میں مقیم سبھی پاکستانیوں کے دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ یہاں کسی قسم کی مصیبت یا آفت آجائے توسب پاکستانی نہ صرف دکھی ہوتے ہیں بلکہ وہاں سے ہر قسم کی امداد بھی ارسال کرتے ہیں۔زلزلے اور سیلاب کے دنوں میں اوورسیز پاکستانیوںکی امدادکسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔انہوں نے کہا جب نائن الیون کا واقعہ ہوا اورامریکہ میں مقیم پاکستانیوں کو نشانہ بنایا جانے لگا تو شکاگو میں خون جما دینے والی سخت سردی میں افتی سڑکوں پراحتجاج کرتا دکھائی دیا اورتمام پاکستانیوں نے اس کڑے وقت میں امریکیوںکو باورکرایا کہ ہم دہشت گرد نہیں۔ ہماری کمیونٹی کے چودھری منیراورنعمت چودھری وہ پاکستانی ہیں جن کی سابق سیکرٹری خارجہ ہیلری کلنٹن اورصدر اوباما بھی عزت کرتے ہیں۔ رانا جاوید نے بتایا کہ افتی کو ہم سب وہاں بری طرح مس کرتے ہیں ، وجہ یہ
ہے کہ وہ بیرون ملک پاکستانیوں کی اہم آواز تھا۔ رانا مشہود نے اس موقعے پر اپنے تمام مہمانوںاور خاص طور پر میڈیا کے احباب کا شکریہ اداکیا اورکہاکہ اس تقریب کا واحد مقصد دیارغیر میں بسنے والے اپنے محب وطن پاکستانیوں کو میڈیا کے دوستوں سے ملاناتھا۔انہوں نے کہا کہ یہاں نوجوانوں کے کچھ نمائندے بھی موجود ہیں جنہوں نے یوتھ فیسٹیول کوکامیاب بنانے میں اہم کردارادا کیا۔ ہمارے بعض کرم فرما یوتھ فیسٹیول کو کار ِفضول بھی قرار دیتے ہیں اور سر سے اخروٹ توڑنے کے ریکارڈ پر پھبتی کستے ہیں لیکن یاد رہے کہ عالمی ریکارڈ میں ہمیشہ ملک کا نام آتا ہے ، یہ انفرادی نیک نامی ہرگز نہیں ہوتی۔ مقصدکسی بھی طرح وطنِ عزیزکا پرچم بلند کرنا ہے۔ یوتھ میلہ صرف میلہ نہیں بلکہ اب یہ ایک تحریک بن چکی ہے،ہم نے اپنے دیس کے نوجوانوں کو متحرک کر دیا ہے۔ یہ صرف پنجاب کے نوجوانوں کی بات نہیں، اِس میں پور ے پاکستان کے نوجوان شامل ہیں۔انہوں نے کہاکہ آئندہ کسی بھی پارک یاکھیل کے میدان کو پلازے میں تبدیل نہیں ہونے دیا جائے گا۔ ہم وفاقی سطح پر لیپ ٹاپ دے رہے ہیں تاکہ نئی نسل کھیل کے ساتھ ساتھ تعلیمی سرگرمیوں میں پیچھے نہ رہے ۔اپنے شکاگو سے آئے ہوئے مہمانوں کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ
رانا جاوید وہاں اپنے اخباراورریڈیو کے ذریعے پاکستان کا تاثر بہتر کرنے میں پیش پیش ہیں جبکہ منیر چودھری پاکستان میں صرف اس لیے آئے ہیں کہ وہ یہاں توانائی پراجیکٹ میں ذاتی سرمایہ کاری کا منصوبہ شروع کر رہے ہیں ۔ رانا مشہود نے کہا: بیرونِ ملک پاکستانی ہمارا اثاثہ ہیں،میاں نواز شریف اورمیاں شہبازشریف نے ایک سال ہی میں ملک کو پٹڑی پرڈال دیا ہے۔ ہم بہت جلد پاکستان کے بنیادی مسائل یعنی توانائی اوردہشت گردی پر قابو پا لیں گے۔اس موقع پر سابق وزیر تعلیم مجتبیٰ الرحمان نے بھی اپنے خیالات کا اظہارکیا۔ علاوہ ازیں لوک فنکار شوکت علی اور ان کے صاحبزادے عمران شوکت نے میاں محمد بخش اور ڈاکٹر فقیر محمد فقیرکا کلام پیش کر کے سماں باندھ دیا۔شوکت علی اور ہر دلعزیز عزیزی سہیل احمد سب کی توجہ کا مرکز بنے رہے۔اگر چہ یہ ایک غیر روایتی تقریب تھی مگراس میں جانے پہچانے صحافی،کالم نگار، اینکر پرسنزکثیر تعداد میں دکھائی دے رہے تھے۔ آخر میں بلا تبصرہ افتخار نسیم کی ایک مختصر نظم :
وہ بھی کیا دن تھے
جب میں کونج قطاریں اڑتے دیکھتا تھا
میں بھی ان کے ساتھ کہیں اُڑ جاتا تھا
اب یہ دن ہیں
جب میں کونج قطاریں اڑتے دیکھتا ہوں
میرا ہاتھ میری بندوق پہ آجاتا ہے