ہنس بے توقع

مزاح نگاری بڑے دل گُردے کا نام ہے۔مزاح نگار'' بھانویں‘‘ شاعر ہو یا ادیب بلاشبہ بڑے دل والا ہوتا ہے۔اسے مزاح کے لیے سارے خاندان کو '' بروئے مزاح ‘‘ لانا پڑتا ہے۔بیشتر مزاح کے خالق نہ صرف اپنے آپ کو تختۂ مشق بناتے ہیں بلکہ اس سلسلے میں اُن بیچاروں کو اکثرو بیشتر اپنی بیگمات کا سہارا لینا پڑتا ہے۔دنیا کے بہترین مزاح نگاروں کے کاندھوں سے اگر ان کی بیگمات ہاتھ اُٹھا لیں تو ان کی مزاح نگاری دھری کی دھری رہ جائے۔آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ طنز و مزاح پر بیگمات کے بڑے احسانات ہیں۔دھن جگرا ہے ان بیویوں کا جن کے شوہر مزاح نگاری (بیگم نگاری) میں ید ِطولیٰ رکھتے ہیں۔کہتے ہیں سب سے مشکل کام اپنے آپ پر ہنسنا ہے، مزاح نگار معاشرے کی کج ادائی اور ناہمواری کو اجاگر کرنے کے لیے سب سے پہلے اپنے آپ کو پیش کرتا ہے۔ویسے اپنے بال اور منہ نوچنا کس قدر مشکل کام ہے۔ اس کا اندازہ صرف مزاح نگار ہی کر سکتا ہے۔گویا دوسروں کو ہنسا نے کے لیے اپنا ''توا‘‘ آپ لگانے کی جرأت مندی صرف اور صرف مزاح نگاروں میں ہوتی ہے۔
تنویر حسین کو ''رشتہ مزاح‘‘ سے منسلک ہوئے ایک مدت ہو چکی ہے ،اب تو خیر سے اس کے چار '' نورِنظر‘‘مجموعے بھی طلوع ہو چکے ہیں اور انہیں ادب کا ڈاکٹر بھی کہا جاتا ہے۔ہم تنویر حسین کو اس زمانے سے جانتے ہیں جب وہ ایم اے انگریزی کرنے کے بعد تازہ تازہ اردو کا لیکچرار بھرتی ہو گیا تھا۔یہ وہ دن تھے جب ہم ابھی لیکچرار نہیں ہوئے تھے۔گویا تنویر حسین سے ہماری یاد اللہ اُن دنوں کی ہے جب ہم یہاں نئے نئے ''لاہوری چلہ ‘‘ کاٹنے میں مصروف تھے۔دوسرے معنوں میں آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہم ایک مقامی روزنامے میں '' ریاضت ‘‘کے '' اعتکاف ‘‘میں تھے۔صاحبو ! آپ کے لیے خبر ہے کہ ہم نے آدھا لاہور تنویر حسین کی موٹر سائیکل پر دیکھا ہے ۔اب تو اس موٹر سائیکل کی سلور جوبلی منائے ہوئے بھی ایک عشرہ ہو چکا ہے مگر مجا ل ہے کہ اس نے تنویرحسین کو ''داغِ مفارقت‘‘ دینے کا کبھی سوچا بھی ہو‘ حالانکہ تنویر اب اہلِ کار میں بھی شامل ہوگیاہے۔تنویر پچاس کے پیٹے میں ہونے کے باوجود اپنی موٹر سائیکل کی طرح ویسے کا ویسا ہی ہے‘بس سر کے بال اس سے اجازت لے کر رخصت ہو چکے ہیں۔اس کی صحت کا واحد راز اس کی ''بد خوراکی‘‘ ہے۔ وہ کہتا ہے کہ خوش خوراک، جلد ہی '' بد ہیت ‘‘ ہو جاتا ہے ، لہٰذا خورا ک کو '' جیسی اور جہاں ہے ‘‘کی بنیاد پر تناول کیا جائے تو بندہ فٹ رہتا ہے۔ تاہم موصوف سردیوں میں مچھلی ،سری پائے اور گرمیوں میں فالودہ کی برانڈڈ دکانیں تلاشنے میں ماہر سمجھے جاتے ہیں۔ تنویر حسین کو ساتھ لے کر آپ کسی سے ملنے چلیں جائیں تو وہ جاتے ہی آپ کے دوست سے بے تکلف ہو جائے گا‘ یہی نہیں وہ اِس بے تکلفی میں اس قدر آگے نکل جائے گا کہ آپ خود بہ خود '' انگشت بد نداں‘‘ ہو کر رہ جائیں گے۔تنویر حسین جس کے پاس بیٹھا ہو، بے تکان خوشبو کی طرح اُس کی پذیرائی کرتا ہے اور کبھی کبھی یہ پذیرائی'' مسیحائی‘‘ سے دوہاتھ آگے بھی نکل جاتی ہے لیکن حرام ہے جوتنویر حسین کے خلوص نیت میں ذرا سی بھی کمی واقع ہو۔
تنویر حسین جدید مزاح نگاروں میں ایک سنجیدہ تخلیق کار ہے۔ وہ جملہ سازی کے ہنر میں اس عہد کے کئی جغادری مزاح نگاروں سے زیادہ چست اور توا نا ہے۔اس کی تحریریں پڑھ کر آپ کے کانوں کی لویں سرخ نہیں ہوتیں۔وہ گھسے پٹے لطائف لکھ کر دوسروں کو ہنسانے کی کوشش نہیں کرتا‘ نہ ہی جنسی تلذذ کا چٹخارہ ڈالتا ہے۔و ہ شائستہ اندازِتحریر کا مالک ہے ۔اس کی سطر سطر میں تخلیقیت اور درد جھلکتا ہے۔ اس کی تازہ وارداتِ کتاب''ہنس بے توقع ‘‘ ہے۔اس سے قبل اس کی طنزو مزاح کے حوالے سے تین کتب ''مزاح بخیر‘‘، ''خوش آمدید‘‘ اور ''شاباش طبع‘‘ ہو کر قارئین سے داد حاصل کر چکی ہیں۔
ان دنوں عام آدمی کی زندگی اجیرن ہو چکی ہے۔مرنا بھی دشوار تر ہو چکا ہے۔آج کے دور میں تجہیزو تکفین اور قبر کے اخراجات بھی عام آدمی کی دسترس سے دور ہو چکے ہیں۔تنویر حسین اس حوالے سے ایک مضمون میں لکھتے ہیں :
''شہروں میں جس طرح قبرستان میں خالی جگہ کا ملنا محال ہو گیا ہے،اگر یہی حال رہا تو شاید اخبارات میں قبروں کے ایسے اشتہارات شائع ہونا شروع ہو جائیں۔مثلاً
قبر کرائے کے لیے خالی ہے
ایک کشادہ ‘ہوادار اور دکان نما قبر جس کے سر پر سکھ چین کا درخت ہے کرائے کے لیے خالی ہے۔اس کا کرایہ پچاس روپے مہینہ ہے۔اس کے نزدیک سرکاری نلکا موجود ہے اور سرکاری کھمبے پر ایک عدد ٹیوب نصب ہے ‘جس کا بل مردے کو الگ سے جمع کرانا ہو گا۔قبر کا پہلا مردہ ڈیپوٹیشن پر گیا ہوا ہے۔‘‘
''ہنس بے توقع ‘‘ میں مختلف موضوعات پر ہلکے پھلکے انداز میں ہمارے معاشرتی رویوں اور انسان کی بد حواسیوں کو موضوع بنایا گیا ہے۔شادی بیاہ کے موقع پر ہمارے ہاں لوگ جس طرح کھانوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں‘ محسوس ہوتا ہے کہ ان لوگوں نے ایک مدت سے کھانا نہیں کھایا۔اس بد تہذیبی پر تنویر حسین یوں روشنی ڈالتے ہیں :
''ہمارے باراتیوں کے پیٹ ڈونگوں ،پراتوںسے زیادہ گہرے اور ندیدی آنکھیں جھیل سے بھی گہری رہی ہیں۔بوٹیوں کے معاملے میں یہ لوگ ہمیشہ نک چڑھے رہے ہیں۔کام کی بوٹی نگلنا اور ناقص بوٹی اگلنا ان کا شیوہ رہا ہے۔یعنی دو کلو کھانا اور چار کلو ضائع کرنا۔‘‘
تنویر حسین فحش اور لطیفہ گوئی کا سہارا لیے بغیر نہایت تخلیقی انداز میں معاشرے کے المیوں کو موضوع بناتا ہے۔جنہیں پڑھ کر ہنسی کے ساتھ آنکھوں میں نمی بھی تیرنے لگتی ہے۔وہ ایک درد مند مزاح نگار ہے جو قلم سے نشتر کا کام نہیں لیتا‘ نہ ہی تلوار سے گدگدی کرنے کی کوشش کرتا ہے۔اس کی تحریروں میں قوم کا درد بھی ہے اور معاشرے کا کرب بھی۔وہ انسانوںکو مطمئن اور خوش حال دیکھنے کا آرزومند ہے مگر فرسودہ روایات اور بدلتے رویوں کو پسند نہیں کرتا ...یقین نہ آئے تو '' ہنس بے توقع‘‘ ایک بار پڑھ کے دیکھ لیجیے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں