بھارت کی پاکستان پر جنگ مسلط کرنے کی حالیہ ناکام کوشش سے ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان کو سنگین بیرونی خطرات لاحق ہیں۔ وطن عزیز کی آزادی کے ابتدائی برسوں سے لے کر آج تک ہمیں کوئی اور بیرونی خطرہ اتنے تواتر سے درپیش نہیں رہا۔ پاکستان اور بھارت 1971,1965,1947-48 کی تین بڑی جنگیں اور 1965 کی رن آف کچھ‘ 1999ء کی کارگل جنگ اور جاری حالیہ محاذآرائی سمیت تین چھوٹی جنگیں لڑ چکے ہیں۔ حالیہ جنگ 26 فروری کو پاکستانی فضائی حدود کی خلاف ورزی سے شروع ہوئی۔
اگر پاکستان کے پاس ایٹم بم اور اس کا ڈلیوری سسٹم نہ ہوتا تو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی 2014ء میں برسر اقتدار آنے کے بعد پہلے ہی سال میں پاکستان پر بھرپور روایتی فوجی حملہ کر چکا ہوتا۔ مئی 1998ء میں جنوبی ایشیاء میں ایٹمی ہتھیار متعارف ہونے کے بعد سے بھارت کے سرکاری اور نیم سرکاری سکیورٹی ماہرین بار بار پاکستان کے خلاف ایسی فوجی کارروائی کے آپشن کا سوچتے رہے ہیں‘ جس سے کسی مکمل جنگ کو اتنا بڑھاوا نہ ملے کہ وہ ایک ایٹمی جنگ کی صورت اختیار کر لے۔ انہوں نے ہمیشہ ایک ''محدود جنگ‘‘ اور ''چند مخصوص اہداف پر تیز رفتار اور حیران کن فوجی کارروائی‘‘ کرنے کی بات کی۔ بھارت کی ایک اور مجوزہ سٹریٹیجی کو ''کولڈ سٹارٹ‘‘ کا نام دیا جاتا ہے جس کے تحت بری، فضائی اور بحری افواج کے کچھ سپیشلائزڈ یونٹس کی مدد سے تیز رفتار فوجی حملے کے بعد پاکستان کے بعض علاقوں پر قبضہ کرنے کا پلان ہے۔ پھر پاکستان پر بھارت کے من پسند حل مسلط کرنے کے بعد ان مقبوضہ علاقوں کو واپس کیا جائے گا۔
بھارت میں یہ آپشن بھی زیر غور رہا ہے کہ پاکستانی سرزمین پر کوئی جنگی طیارہ بھیجے بغیر زمین سے زمین یا فضا سے زمین پر حملہ کرنے والے روایتی اسلحہ بردار میزائلوں کے ذریعے پاکستان کی بعض مخصوص فوجی تنصیبات کو تباہ کر دیا جائے۔ چونکہ پاکستان کے پاس بھی یہی ٹیکنالوجی موجود ہے اس لئے بھارت ایسی کارروائی سے خوف محسوس کرتا ہے۔ حال ہی میں پاکستان نے بھارت پر یہ واضح کر دیا ہے کہ وہ ایسے کسی حملے کا پوری قوت سے جواب دے گا۔ اب دونوں ممالک میں جاری کشیدگی کے بعد پاکستان کو آنے والے میزائلوں کو راستے میں روکنے یا تباہ کرنے کی غرض سے فضا میں سنگل یا ملٹی پل میزائل شیلڈز بنانے کی ضرورت ہے؛ تاہم بھارت اور پاکستان میں قلیل فاصلے اور جوابی کارروائی کے لئے کم وقت ہونے کے پیش نظر میزائل ڈیفنس شیلڈ کے ساتھ ساتھ بھاری روایتی فوجی کارروائی کی بھی ضرورت ہو گی۔
کتنی ستم ظریفی ہے کہ بھارت کے سرکاری پالیسی ساز اور نیم سرکاری سکیورٹی ماہرین پاکستان کے خلاف تادیبی فوجی حملوںکے بارے میں سوچتے ہیں حالانکہ وہ بخوبی جانتے ہیںکہ پاکستان کے پاس بھی روایتی اور غیر روایتی انداز میں جواب دینے کی صلاحیت اور عزم موجود ہے۔ ایٹمی ہتھیار رکھنے والی ریاستیں کبھی جنگ کے بارے میں نہیں سوچتیں کیونکہ اگر نوبت ایٹمی جنگ تک آ گئی تو دونوں میں سے کوئی ملک بھی فاتح نہیں ہو گا۔
بھارت عرصے سے پاکستان کے خلاف تادیبی فضائی حملوں کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ جب 1981ء میں اسرائیل نے عراق کے زیر تعمیر ایٹمی ری ایکٹر پر حملہ کیا تھا تو 1980ء کی دہائی کے وسط میں بھارت میں بھی یہ تجویز زیر غور تھی کہ اسرائیل کی طرز پر پاکستان کی ایٹمی تنصیبات پر فضائی حملہ کر دیا جائے۔ 1985-86ء میں بھی بھارتی حکومت اس بات پر انتہائی سنجیدگی سے غور کر رہی تھی کہ پاکستان کی ایٹمی تنصیبات پر بھارت اکیلے یا اسرائیل کے تعاون سے حملہ کر دے۔ 2001ء میں بھارتی پارلیمنٹ پر دہشت گردانہ حملے کے بعد بھارت نے پاکستان پر اس حملے کا الزام عائد کر دیا‘ اور2002ء کے آغاز میں اپنے فوجی دستوں کو پاک بھارت سرحدوں کی طرف متحرک کر دیا تھا۔ ساتھ ہی پاکستان سے تمام زمینی، فضائی اور ریل رابطے منقطع کر دیئے تھے؛ تاہم امریکہ سمیت بعض ممالک کی جانب سے تحمل و برداشت کے مشورے اور اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہونے پر کہ پاکستان کے پاس بھی ایٹمی ہتھیار موجود ہیں‘ بھارت پر مثبت اثر ہوا۔ اسی طرح مارچ 2003ء میں عراق پر امریکی فضائی حملوں کے بعد ایک سینئر بھارتی وزیر نے سر عام یہ اعلان کر دیا کہ پاکستان بھی بھارت سے اسی قسم کے سلوک کا مستحق ہے۔
پھر یوںہوا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں دہشت گردی کے ہر واقعے کے بعد بھارت کے سرکاری حلقوں اور میڈیا پر پاکستان کے خلاف انتقامی فوجی کارروائی کا ہنگامہ شروع ہو جاتا۔ شاید ہی کوئی شخص پاکستان پر الزام تراشی سے پہلے دہشت گردی کے واقعے کی تفتیش کی ضرورت محسوس کرتا ہو۔
مودی حکومت نے پاکستان کو اپنے عسکری دبائو میں رکھنے کیلئے ایک الگ سٹریٹیجی اختیار کی ہے۔ پالیسی یہ ہے کہ کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر محدود زمینی حملے شروع کر دیئے جاتے ہیں۔ دراصل نومبر2003ء سے ایل او سی پر جاری جنگ بندی کو نظر انداز کرتے ہوئے وہاں2012ء میں محاذ گرم کر دیا گیا۔ 2013ء میں بھی ایل او سی کے آر پار فائرنگ کا سلسلہ چلتا رہا۔ نریندر مودی نے 2014ء میں اقتدار سنبھالا اور ان کی حکومت نے اگست میں پاکستان کے ساتھ جاری مذاکرات معطل کر دیئے تو ایل او سی پر اشتعال انگیزی میں اضافہ ہو گیا۔ فروری2019ء میں بھارت نے ایل او سی کی صورتحال کو پاکستانی سرزمین کے اندر فضائی حملے کرکے مزید کشیدہ بنانے کا فیصلہ کیا تاکہ حکمران جماعت کو آئندہ الیکشن میں سیاسی فائدہ پہنچایا جائے اور ہندی بولنے والی اکثریتی ریاستوں میں ''ہندتوا‘‘ کی آڑ میں ہندو قوم پرستی کے نام پر ووٹ لے کر لوک سبھا میں حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کی اکثریت کو برقرار رکھا جائے۔
اگرچہ بھارت پاکستان پر کاری ضرب لگانے کی اپنی پہلی کوشش میں تو کامیاب نہیں ہو سکا‘ مگر بھارت سے یہ توقع عبث ہے کہ وہ مستقبل قریب میں الیکشن میں ہندو انتہا پسندی کا کارڈ استعمال کرنے کی غرض سے اس کشیدگی میں کوئی کمی آنے دے گا۔ ہمیں بھارت سے پوری توقع رکھنی چاہئے کہ وہ بری، فضائی اور بحری فوج کی مدد سے محدود سطح کی جارحانہ سرگرمیاں جاری رکھے گا۔ اس کا مقصد پاکستان کو عسکری دبائو میں رکھنا یا پاکستان کو اشتعال دلا کر کوئی ایسی فوجی کارروائی کروانا ہے‘ جس سے بھارت کو بڑے پیمانے پر ملٹری ایکشن کا جواز مہیا ہو جائے۔
پاکستان نے اپنے سکیورٹی سسٹم کو اس حد تک بہتر کر لیا ہے کہ بھارت کسی قسم کی جنگی مہم جوئی کی بھاری قیمت چکانے کے خوف سے پاکستان پر حملہ کرنے سے باز رہے۔ اس نے اپنے ہتھیاروں کی کوالٹی اور اپ گریڈیشن، پیشہ ورانہ ٹریننگ اور اپنے جوانوں کے حوصلے بلند رکھنے کو فوقیت دی ہے۔ پاکستان ہر لحاظ سے چوکنا، محتاط اور متحمل مزاج ہونے کے باوجود دفاعی حکمت عملی پر کاربند رہا ہے۔ اس نے بھارت کو فوری اور منہ توڑ جواب دینے کیلئے روایتی اور ایٹمی اسلحے کے میدان میں بھرپور صلاحیت حاصل کر لی ہے۔
جاری پاک بھارت کشیدگی سے ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان نے بھارتی ملٹری مہم جوئی کا اسی زبان میں جواب دینے اور اپنے قومی ایجنڈے کی تکمیل کے لئے سفارت کاری کا بہت موثر اور کامیاب استعمال کیا ہے۔ قومی اہداف اور مفادات کے حصول میں بین الاقوامی حمایت حاصل کرنے کیلئے موثر سفارت کاری ایک اہم ہتھیار ثابت ہوتی ہے۔ بھارت کے ساتھ محاذ آرائی پر پاکستان کا موقف عالمی برادری کے مشوروں کے عین مطابق ہے کہ متنازعہ امور پر تحمل اور پرامن مذاکرات کی راہ اپنائی جائے۔ پاکستان نے روس سمیت کئی ممالک کی یہ پیشکش قبول کر لی ہے کہ وہ پاک بھارت کشیدگی کم کرانے میں اپنا کردار ادا کرنے کے متمنی ہیں۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی خود پسندی اور اقتدار کی ہوس میں اس حد تک مبتلا نظر آتے ہیںکہ وہ آئندہ الیکشن میں اپنے سیاسی مفادات کے حصول کیلئے خطے کے امن کو بھی تہہ و بالا کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ امکان ہے کہ بھارت میں دو ہفتوں میں الیکشن کا اعلان ہو جائے گا اور قوی امید ہے کہ دیگر بھارتی سیاسی جماعتیں بی جے پی کو اپنے محدود سیاسی مفادات کے حصول کے لئے بھارتی فوج اور اس کے ڈیفنس سسٹم کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گی۔ پاکستان اور بھارت دونوں کو چاہئے کہ وہ اپنے دو طرفہ شکوے شکایتوں کے ازالے کیلئے بات چیت اور پرامن تال میل کا راستہ اپنائیں۔