حکومت پاکستان نے غیرملکی سیاحوں کی حوصلہ افزائی کے لئے ویزہ اجرا کا عمل آسان بنانے کا جو فیصلہ کیا ہے‘ اس سے ریاستی پالیسی میں انقلابی تبدیلی کی عکاسی ہوتی ہے۔ پاکستان میں سیاحت کا عمل نائن الیون کے بعد سے زبوں حالی کا شکار ہے‘ خصوصاً 2007ء کے بعد جب پاکستان میں داخلی سطح پر دہشت گردی بڑھی‘ تو ہمیں 2011-12ء میں ویزے جاری کرتے وقت بعض اضافی سکیورٹی چیکس پر عمل کرنا پڑا؛ چنانچہ امریکہ اور دیگر یورپی ممالک کے سیاحوں کی آمد میں خاصی کمی واقع ہوئی۔
ویزہ پالیسی میں یہ تبدیلی اس لئے ممکن ہو سکی کہ جون 2014ء کے بعد کامیاب فوجی آپریشنز کی وجہ سے ملک میں داخلی سکیورٹی کی صورت حال میں خاطر خواہ بہتری دیکھنے میں آئی ہے۔ اس بہتری کے نتیجے میں مقامی سیاحت میں تو پہلے ہی اضافہ ہو چکا ہے۔ اب وفاقی حکومت کا اعتماد اس حد تک بحال ہو گیا ہے کہ اس کے خیال میں غیر ملکی سیاحوں کو بھی پاکستان میں خوش آمدید کہا جا سکتا ہے۔اگر حکومت کی یہ کوشش کامیابی سے ہم کنار ہوتی ہے تو اس سے دنیا بھر میں پاکستان کی ساکھ اور امیج میں بہتری آئے گی۔ اس سے پاکستان کی عالمی اور علاقائی ڈپلومیسی میں بھی پیش رفت ہو گی۔
ایک زمانہ تھا جب ڈپلومیسی صرف ریاستوں کے مابین سرکاری سطح کے شراکت عمل تک محدود تھی۔ عہد حاضر میں ڈپلومیسی ایک کثیر جہتی عمل بن چکا ہے۔ ریاستی سطح کا تال میل آج بھی ڈپلومیسی کے میدان میں خاص اہمیت کا حامل ہے کیونکہ وہ تمام بنیادی فیصلے اسی لیول پر کئے جاتے ہیں جن سے خارجہ پالیسی کی سمت کا تعین ہوتا ہے؛ تاہم یہ ڈپلومیسی کا صرف ایک پہلو ہے۔ ریاستوں کے درمیان کئی طرح کے غیر سرکاری روابط بھی ہوتے ہیں‘ جنہیں غیر سرکاری ڈپلومیسی کہا جاتا ہے اور اس کی مدد سے بعض اوقات مشکلات کی شکار ڈپلومیسی کو درست ٹریک پر چڑھانے میں مدد ملتی ہے۔
غیر سرکاری ڈپلومیسی میں معاشرے کے اہم افراد کے درمیان روابط قائم ہوتے ہیں مثلاً ریٹائرڈ بیوروکریٹس، ریٹائرڈ ملٹری افسران، میڈیا کے لوگ، ماہرینِ تعلیم و دانشور، انسانی ترقی میں مصروف عمل غیر سرکاری تنظیمیں، سیاسی جماعتیں یا پارلیمنٹ کے ارکان وغیرہ۔ حکومت ان کے میل ملاپ سے کچھ فاصلہ رکھتی ہے‘ مگر ان کی کارروائیوں اور سفارشات پر اس کی پوری نظر ہوتی ہے۔ ریاستیں ایسے غیر سرکاری چینلز کو پیغام رسانی یا کسی نئے یا خاص نقطۂ نظر کے بارے میں دوسرے فریق کا رد عمل جاننے کے لئے بھی استعمال کرتی ہیں۔
جدید مواصلاتی نظام یا انفارمیشن ٹیکنالوجی، انٹر نیٹ، سیٹلائٹ ٹیلی ویژن اور ریڈیو کی بدولت ایسے غیر سرکاری نیٹ ورکس کا استعمال آسان ہو گیا ہے۔ اب کسی ملک کا دورہ کئے بغیر بھی ایک دوسرے کے ساتھ آسانی سے رابطہ ممکن ہے۔ جدید پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو پیغام رسانی یا نئے اقدامات پیش کرنے کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ایسی کئی مثالیں موجود ہیں کہ کس طرح سیٹلائٹ ٹی وی کی بدولت دو ممالک کی اعلیٰ قیادت میں رسمی ملاقات کا بندوبست ہو گیا۔ اسی طرح مختلف ممالک کے دانشور حلقے، سینئر میڈیا پرسنز، تھنک ٹینکس ایسے ایسے آئیڈیاز پیش کرتے ہیں‘ جنہیں بعد میں سرکاری سطح پر بروئے کار لایا جاتا ہے۔ انٹر نیٹ کی مدد سے مسلسل ایسی مہم چلائی جاتی ہے جس پر حکومت توجہ دینے پر مجبور ہو جاتی ہے۔
دنیا میں ایک سافٹ ڈپلومیسی کا نظریہ بھی پایا جاتا ہے‘ جس میں مختلف طریقوں سے عالمی سطح پر اپنے ملک کے سافٹ امیج کو فروغ دیا جاتا ہے۔ اس کے لئے کلچر، آرٹ، موسیقی، سپورٹس، ادب کے میدان میں سابقہ اور موجودہ نسلوں کے انسانی اور سماجی بھلائی کے کردار کو استعمال کیا جاتا ہے۔ کسی ریاست کے شہریوں کے سائنس، ٹیکنالوجی اور علم کے دیگر میدانوں میں کارہائے نمایاں کی عکاسی سے بھی ریاست کے مثبت امیج کو تقویت ملتی ہے۔
کسی ریاست کا مثبت امیج تخلیق کرنے کا ایک اور اہم ذریعہ اس کا قدیم ثقافتی ورثہ، تہذیبی تاریخ اور یادگاریں ہیں‘ جن کی بدولت عوام کی اپنی دھرتی کے ساتھ ہزاروں سالوں پر محیط گہری وابستگی کی ترجمانی ہوتی ہے۔
یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان ایک نئی خود مختار ریاست ہے‘ جو اگست 1947ء میں معرض وجود میں آئی تھی‘ مگر جہاں تک اس کی کلچر اور تہذیب کی جڑوں کا تعلق ہے تو یہ ایک قدیم سر زمین ہے۔ پاکستان کے زمینی ورثے کے ڈانڈے موجودہ بلوچستان میں مہر گڑھ کے آثارِ قدیمہ اور عالمی سطح پر مسلمہ وادیٔ سندھ کی تہذیب سے جا ملتے ہیں۔ ہڑپہ اور موہنجو داڑو کی کھدائی برطانوی عہد میں بالترتیب1921ء اور 1922ء میں شروع ہوئی تھی۔
شمالی پاکستان میں گندھارا ریجن ہمارا ایک اور تاریخی و تہذیبی خزانہ ہے‘ جو بدھ مت کی روایات کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ پہاڑی چٹانوں پر کندہ تحریریں اور تصاویر، مہاتما بدھ کے مجسمے موجودہ ٹیکسلا، پشاور، سوات، باجوڑ حتیٰ کہ افغانستان کے ملحقہ علاقوں تک میں پائے جاتے ہیں۔ پاکستان کی سرزمین پر آریہ تہذیب کا بہت گہرا اثر نظر آتا ہے۔ پھر یہاں اسلامی دورِ حکومت میں سلاطین دہلی اور مغلیہ خاندان کے کارنامے عالمی توجہ کا مرکز ہیں۔
ایسا قیمتی اور متنوع ثقافتی ورثہ نہ صرف سیاحوں بلکہ محققین اور دانشوروں کی دلچسپی کا بھی مرکز بنے گا۔ روایتی طور پر برطانوی، یورپی اور امریکی دانشوروں نے پاکستانی زبانوں، کلچر اور تہذیبی ورثے کو اپنا مرکز نگاہ بنایا ہوا ہے۔ یہ سلسلہ ہمارے داخلی سکیورٹی کے مسائل کی وجہ سے منقطع ہوا تھا۔ اب حکومت کو چاہئے کہ وہ سیاحوں کے ساتھ ساتھ سکالرز کی بھی پاکستان آمد کی حوصلہ افزائی کرے۔
بیرون ملک پاکستان کا سافٹ امیج قائم کرنے کے لئے ہم سکھ مت، بدھ مت اور ہندو مت کے پیروکاروںکو ان کے مذہبی مقامات کی زیارت کی پیشکش کر سکتے ہیں۔ اس سال کے آخر تک کرتار پور کوریڈور کھلنے سے دنیا بھر کے سکھوں میں پاکستان کے بارے میں مثبت اور خوشگوار جذبات فروغ پائیں گے۔ بدھ دور حکومت کے مہاتما بدھ کے مجسمے اور دیگر یادگاریں‘ دونوں دنیا بھر کے بدھ مت کے پیروکاروںکے لئے مذہبی دلچسپی کا باعث ہوں گے۔ مشرق بعید اور سری لنکا کے بدھ مذہب کے عوام نے پاکستان میں پائے جانے والے بدھ عہد کے ورثے میں خاصی دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔ پاکستان نے مہاتما بدھ کا ایک مجسمہ اور دیگر اشیا نمائش کے لئے2016ئ‘ 2017 ئ‘ 2018ء میں جنوبی کوریا، سری لنکا اور سوئٹزر لینڈ بھی بھیجی تھیں۔ مئی 2012ء میں ایک بدھ پروہت کی قیادت میں ایک کورین وفد نے پشاور میوزیم میں مہاتما بدھ کے ایک مجسمے کے سامنے اپنی مذہبی رسومات بھی ادا کی تھیں۔ اس وفد میں جنوبی کوریا کے ایک سابق آرمی چیف بھی شامل تھے۔ ایک ایسی ہی تقریب 2014ء میں ٹیکسلا میوزیم میں بھی منعقد ہوئی تھی۔ جنوبی کوریا کے مذہبی حلقوں کو خیبر پختون خوا کے ساتھ ایک خصوصی عقیدت ہے۔ جنوبی کوریا والوں کے مطابق 384 AD میں ضلع صوابی کے ایک مقام چھوٹا لاہور سے ایک راہب نے جنوبی کوریا جا کر وہاں بدھ مت کو متعارف کرایا تھا۔
اسی طرح سندھ اور پنجاب میں کئی اہم ہندو مندر اور عبادت گاہیں موجود ہیں۔ ہندو یاتری ان مقامات کی یاترا کے لئے پاکستان آتے رہتے ہیں۔
ہمارا مشورہ ہے کہ عالمی سطح پر پاکستان کا مثبت اور سافٹ امیج پروان چڑھانے کے لئے غیر سرکاری اور سماجی ڈپلومیسی کے نئے ذرائع کی مدد سے سرکاری ڈپلومیسی کو فروغ دیا جائے۔ ثقافتی ورثے، آرٹ، ادب، علم و دانش اور میڈیا کے باہمی تبادلوں کی حوصلہ افزائی ہونی چاہئے۔ سیاحت خصوصاً مذہبی سیاحت بہت مفید ثابت ہو سکتی ہے بشرطیکہ حکومت ان دونوںکیلئے خاطر خواہ انتظامات بھی کرے۔ اگر سیاحوںکو پاکستان آ کر مشکلات کا سامنا کرنا پڑے یا وہ حریص ٹھگوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں تو یہ ساری کوششیں بے نتیجہ بھی ثابت ہو سکتی ہیں۔ بہتر ہو گا کہ سیاحوں کی گروپس کی شکل میں آمد کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ آثار قدیمہ، عجائب گھروں اور مذہبی مقامات کو عالمی معیار کے مطابق آراستہ کیا جائے۔