"HAC" (space) message & send to 7575

پاک روس تعلقات میں نئے امکانات

پاک روس تعلقات میں بہت سے نشیب و فراز آتے رہے ہیں۔ اب ان میں بہتری کا رجحان پایا جاتا ہے۔ 2018ء میں پاکستان نے روس سے ہیلی کاپٹر اور عسکری ٹرانسپورٹ کے آلات خریدے تھے۔ اس سے قبل محض ایک مثال ملتی ہے جب سوویت یونین نے 1968-69ء میں پاکستان کو چند ہیلی کاپٹرز کچھ ٹینک اور محدود تعداد میں عسکری آلات فراہم کیے تھے۔ اب 2019ء میں پاکستان روس کے ساتھ اپنی تینوں مسلح افواج کے لئے اسلحے کا ایک بڑا معاہدہ کرنے کا خواہش مند ہے‘ مگر روس کی جانب سے اس تجویز پر ابھی تک خاموشی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔
جنوبی ایشیا کے امور کے حوالے سے روسی رویے میں تبدیلی کی ایک اور مثال یہ ہے کہ اس نے 26-27 فروری 2019ء کو پاک بھارت محدود عسکری محاذ آرائی کے دوران دونوں ممالک کے ساتھ غیر جانبدارانہ رویہ اپنائے رکھا۔ رشین فیڈریشن نے اپنی گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے فریقین کو تحمل اور برداشت سے کام لینے کا مشورہ دیا اور پاک بھارت اتفاق رائے کی صورت میں دونوں ممالک کے مابین مصالحت کرانے کی پیشکش بھی کر دی۔
روایتی طور پر سوویت یونین یا روس 1954ء سے بھارت کا حلیف رہا ہے۔ جب پاکستان نے امریکی سرپرستی میں قائم ہونے والے علاقائی اتحاد میں جانے کا فیصلہ کیا تو سوویت یونین نے پاکستان کے ساتھ تنازعات میں کھل کر بھارت کی حمایت کی۔ وہ بھارت کو اسلحہ سپلائی کرنے والا سب سے بڑا ملک بن گیا اور بھارت میں دفاعی صنعت کے قیام میں سوویت یونین نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ اس کے پاکستان کے ساتھ محدود اور کسی حد تک کشیدہ تعلقات رہے۔ پاک سوویت کشیدہ تعلقات کے تین اہم ادوار تھے۔
1950ء کی دہائی کے وسط سے ساٹھ کی دہائی کے ابتدائی سالوں تک، پھر 1971ء میں مشرقی پاکستان کا بحران اور اس کے بعد 1979-89ء کا دور۔ 1965-70ء کے عرصے میں دونوں ممالک کے باہمی تعلقات میں عارضی نوعیت کی بہتری دیکھنے میں آئی جب سوویت یونین نے 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل سے نبرد آزما ہونے کے لئے پاکستان اور بھارت کے درمیان معاہدہ تاشقند کرانے میں تعاون کیا تھا۔ اسی عرصے میں اس نے محدود عسکری آلات کی ایک کھیپ پاکستان کو فراہم کی تھی۔
پاک روس تعلقات میں تازہ ترین بہتری سرد جنگ کے خاتمے اور دسمبر 1991ء میں سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد دیکھنے میں آئی۔ چونکہ اب سوویت یونین کی جگہ روس عالمی کھلاڑی بن کر سامنے آیا ہے‘ اس لئے عالمی برادری میں نظریاتی تقسیم بھی ختم ہو گئی ہے اور اب دنیا بھر کے ممالک نے دیگر ریاستوں کے سیاسی نظریات سے قطع نظر مشترکہ مفاہمت کی روشنی میں تعلقات کو فروغ دینا شروع کر دیا ہے۔
آج کل روس اور پاکستان کسی بھی علاقائی یا عالمی تنازعے میں ایک دوسرے کو اپنا حریف نہیں سمجھتے۔ پاکستان میں تو اب یہ احساس پایا جاتا ہے کہ اسے اپنے خارجہ پالیسی کے آپشنز کو وسعت دینی چاہئے اور روس سمیت ان تمام ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات استوار کرنے چاہئیں‘ جن کے ساتھ ماضی میں کشیدگی پائی جاتی تھی۔ دونوں ممالک میں نئے دور کا آغاز اس وقت ہوا‘ جب دونوں طرف سے سینئر حکام اور پالیسی سازوں نے ایک دوسرے ممالک کے دورے کیے اور دو طرفہ تجارتی تعلقات کے فروغ پر زور دیا۔ 1990ء کے عشرے میں ہونے والے اہم دوروں میں 1992ء میں پاکستان کے سیکرٹری خارجہ اور 1994ء میں وزیر خارجہ کے دورے شامل ہیں۔ روسی وزیر خارجہ نے اپریل 1993ء میں اور ڈپٹی وزیر خارجہ نے مئی 1994ء میں پاکستان کے دورے کئے تھے۔
روس نے 2005ء کے بعد سے بھارت کے امریکہ کی طرف جھکائو کا نوٹس لیا ہے۔ پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات میں بہتری لا کر روس بھارت کو یہ احساس دلانا چاہتا ہے کہ وہ بھی اپنی خارجہ پالیسی کی ترجیحات کا از سر نو جائزہ لے رہا ہے۔ 1990ء کے عشرے میں باہمی تعلقات میں آنے والی مثبت تبدیلی سے اکیسویں صدی کے دوسرے عشرے میں اور بھی گرم جوشی دیکھنے میں آئی۔ مئی 2012ء میں روسی صدر کے نمائندہ خصوصی نے پاکستان کا دورہ کیا اور جواب میں اگست 2012ء میں پاک فضائیہ کے سربراہ نے روس کا دورہ کیا تھا۔ پاکستان نے پہلے شنگھائی تعاون تنظیم میں آبزرور کا سٹیٹس حاصل کیا‘ اور پھر 2017ء میں اس کا مکمل رکن بن گیا۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اور وزارتی اجلاسوں میں صدر اور وزیر اعظم سمیت پاکستانی قیادت کو روسی رہنمائوں سے ملنے کے مواقع ملے۔ پاکستان کے وزیر دفاع اور وزیر خارجہ نے 2017ء میں ماسکو کے دورے کئے تھے۔
پاکستان اور روس نے دفاع اور سکیورٹی امور‘ اور خاص طور پر انسداد دہشت گردی اور علاقائی استحکام کی خاطر باہمی تعاون کو فروغ دیا ہے۔ اپریل 2018ء میں جن دو اہم ترین پاکستانی شخصیات نے روس کے دورے کئے‘ ان میں قومی سلامتی کے مشیر جنرل ناصر جنجوعہ کی قیادت میں پاکستانی وفد نے سوچی میں ہونے والی نیشنل سکیورٹی کانفرنس میں شرکت کی‘ اور اس کے بعد پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے روس کا سرکاری دورہ کیا‘ اور روسی کی اعلیٰ عسکری قیادت سے مل کر سکیورٹی تعاون کی نئی راہیں تلاش کرنے کی کوشش کی۔
پاکستان نے 2015ء میں پہلی مرتبہ روس کے ساتھ مل کر مشترکہ جنگی مشقوں میں حصہ لیا۔ 2016ء سے پاکستان اور روسی افواج کے خصوصی یونٹس انسداد دہشت گردی کی مشقیں کر رہے ہیں‘ جنہیں Druzhbz کا نام دیا گیا۔ اب تک 2016, 2017, 2018 میں تین مشقیں ہو چکی ہیں۔
پاکستان اور روس میں افغانستان کا مسئلہ بھی پر امن طریقے سے حل کرنے پر اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔ روس نے طالبان اور امریکی حکومت کے درمیان مذاکرات کی راہ ہموار کرنے کی پاکستانی کوششوں کو سراہا ہے۔ اس سے قبل پاکستان نے بھی روس کی جانب سے افغانستان کے تنازعے کے پرامن حل میں دلچسپی کا خیر مقدم کیا تھا۔ 2018ء میں روس نے افغان طالبان اور افغانستان کے ہمسایہ ممالک کو ماسکو آنے کی دعوت دی تاکہ افغانستان میں خانہ جنگی کے بحران کا کوئی پرامن حل تلاش کیا جا سکے۔ فروری 2019ء میں پچاس طالبان رہنمائوں اور سرکردہ افغان شخصیات نے ماسکو کانفرنس میں شرکت کی تاکہ افغان مسئلے کے پرامن سیاسی حل کی راہیں تلاش کی جا سکیں۔ افغان حکومت کو اس میں شرکت کی دعوت نہیں دی گئی تھی جب کہ پاکستان نے اس میں اپنی نمائندگی بھرپور طریقے سے کی تھی۔
2017-19ء کے دوران پاکستانی معیشت کو مستحکم کرنے کیلئے تین معاہدوں پر دستخط کئے گئے۔ روس کراچی لاہور کے درمیان ایک گیس پائپ لائن کی تعمیر پر بھی متفق ہے۔ روس ایک آف شور پائپ لائن بھی تعمیر کرے گا تاکہ پاکستان مشرق وسطیٰ سے گیس حاصل کر سکے۔ روس کی سرکاری فرم نے پاکستان میں پانی اور بجلی کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنے میں اپنی دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔
اگرچہ روس اور پاکستانی رہنما گفتگو کے دوران پُر جوش معاشی اور تجارتی تعلقات قائم کرنے کا عندیہ دیتے ہیں مگر گزشتہ پانچ سال کے دوران کوئی خاطر خواہ اضافہ نہیں ہو سکا۔ اسی طرح معاہدوں اور ایم او یوز پر بھی تیز رفتاری سے عمل نہیں کیا جا رہا۔ مثلاً نارتھ سائوتھ گیس پائپ لائن منصوبہ کئی سال سے زیر التوا ہے۔ روس نے کراچی سٹیل مل کی اپ گریڈنگ میں دل چسپی کا اظہار کیا ہے‘ جو 1970ء کے عشرے میں روس ہی کی مالی اور تکنیکی مدد سے قائم کی گئی تھی۔
پاکستان کو روسی کمپنیوں کی طرف سے بھاری سرمایہ کاری کی پیش کش کو فوری طور پر قبول کر لینا چاہئے۔ اگر حکومت پاکستان اس مسئلے پر مستعدی کا مظاہرہ کرتی ہے تو تجارتی حجم میں بہتری لا سکتی ہے۔ روس اور پاکستان کو ٹیرف اور نان ٹیرف رکاوٹوں کا جائزہ لینا چاہئے‘ جو باہمی تجارت میں رکاوٹ بن رہی ہیں۔ روس پاکستان کی تیل و گیس اور معدنیات کی تلاش میں تکنیکی تعاون کی پیش کش کر سکتا ہے۔ روس اور پاکستان کو معاشی تعاون اور تجارت کی مکمل استعداد کو استعمال کرنے کے لئے ٹھوس کام کرنا چاہئے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں