سیاسی رہنما اور حکومتیں‘ دونوں سماجی و معاشی ترقی اور فلاح و بہبود کے لئے بلند بانگ دعوے کرتے رہتے ہیں‘ مگر ان کی کارکردگی اتنی قابل رشک نہیں ہوتی۔ گزشتہ چالیس برسوں کی پاکستانی سیاست میں اس بات کو دو اہم عوامل کے تناظر میں پرکھا جا سکتا ہے۔ اول یہ کہ سیاست اور دولت کا باہمی تعلق مضبوط ہونے سے پاکستان کا سیاسی عمل رو بہ زوال ہے۔ بہت سے پاکستانی سیاست دان ہیں جو اپنے سرکاری عہدے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ذاتی دولت کے انبار لگانے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے۔ وہ اپنی دولت بیرون ملک ہی کیوں رکھنے کے خواہش مند ہوتے ہیں؟ دوم یہ کہ عام آدمی کے سماجی و معاشی مسائل پر تسلی بخش طریقے سے توجہ دینے کیلئے حکومتی کوششوں کی راہ میں کئی اہم عوامل رکاوٹیں ڈالتے ہیں۔
ان دونوں عوامل نے عوام کی خدمت کے بجائے سیاسی موقع پرستی اور من پسند فوائد حاصل کرنے کی روایت کو پروان چڑھایا ہے۔ ہمارے ملک میں آزادی کے وقت سے ہی بے جا حمایت، اقربا پروری، کرپشن اور سرکاری وسائل کا ناجائز استعمال شروع ہو گیا تھا۔ بڑے بڑے صنعتکار الیکشن میں امیدواروں کو فنڈز دے کر سیاسی اثرورسوخ حاصل کر لیتے تھے۔ کبھی دولت سرکاری ٹھیکے حاصل کرنے میں مددگار ثابت ہوتی؛ تاہم یہ سلسلہ محدود پیمانے پر تھا۔ اہم عہدوں پر متمکن چند ہی لوگوں کی مالی بدعنوانیوں کی داستانیں سننے میں آتی تھیں۔ اس طرح کی مثالیں بہت کم ملتی تھیں کہ اشرافیہ میں سے کسی نے بیرون ملک منقولہ یا غیرمنقولہ اثاثے بنائے ہوں۔ قائد اعظم اور لیاقت علی خان نے ذاتی اور سرکاری دائرہ کار کا واضح تعین کر دیا تھا۔ اگر کوئی کام ان کی ذاتی کیٹگری میں آتا تو اس کے اخراجات ذاتی طور پر برداشت کیے جاتے۔ خواجہ ناظم الدین ذاتی خطوط اپنی جیب سے بھیجتے تھے۔ ان کے جانشینوں نے بھی ان کی اس روایت کو برقرار رکھا۔
1960ء کے عشرے کے اواخر تک ذاتی اور سرکاری دائرہ کار میں امتیاز برقرار رکھنے کا سلسلہ بتدریج کمزور پڑتا گیا۔ 1970ء کی دہائی کے آخر تک سیاست میں دولت کا کردار بڑھ گیا۔ پاکستانی معاشرے اور سیاست میں سب سے پہلے دولت کا استعمال 1970ء کے عشرے کے وسط سے ان لوگوں نے شروع کیا‘ جنہوں نے سب سے پہلے مشرق وسطیٰ اور خلیجی ممالک کو افرادی قوت فراہم کرکے بے پناہ دولت کمائی تھی۔ 1990ء کے بعد رئیل اسٹیٹ کے شعبے کو عروج ملا اور ایسے ایسے گروپ سامنے آئے جنہوں نے اپنے بزنس کے فروغ کے لئے اپنی دولت کے استعمال سے حکومتی سپورٹ حاصل کی۔
1980ء کے بعد بیرون ملک سے سرکاری اور نیم سرکاری چینلز سے بے پناہ دولت پاکستان آئی۔ 1979ء میں افغانستان کے خلاف جارحیت کے بعد سوویت افواج کے خلاف جنگ اور ستمبر 2001ء کے بعد دہشتگردی کے خلاف جنگ کے نتیجے میں غیر ملکی وسائل سے بڑے پیمانے پر پاکستان میں فنڈنگ ہوئی۔ بعض پاکستانیوں کو بھی سرکاری ذرائع سے آنے والی فنڈنگ سے ہاتھ رنگنے کا موقع مل گیا۔ یہ دولت پاکستانی معاشرے میں شامل ہو کر ان عناصر کی مضبوطی کا باعث بنی جو ان دونوں واقعات میں عالمی ایجنڈے کی تکمیل کے لئے موزوں تھے۔ دولت کی اس ترسیل نے ہماری اخلاقی روایات بدل ڈالیں اور دولت اور ہمارے سماجی و سیاسی معاملات کے باہمی تعلق کو مستحکم کر دیا‘ جس کے نتیجے میں پاکستانی ریاست کو کئی ایک سماجی، سیاسی اور معاشی مضمرات کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی عرصے میں پاکستان کے بعض بااثر افراد کی دولت کمانے کی داستانیں منظر عام پر آئیں؛ تاہم سرکاری حکام کا ایک چھوٹا سا طبقہ اپنے پیشہ ورانہ عزم اور دیانتداری کی ڈگر پر ثابت قدم رہا اور اپنے جائز وسائل میں رہتے ہوئے سادہ زندگی بسر کرتا رہا۔
جب پاکستانی سیاست کی اخلاقی روایات بدلیں تو اس دوران بعض اہم سیاسی رہنمائوں کے بارے میں کرپشن اور منی لانڈرنگ کی شکایات ملیں۔ پاکستانی سیاست پر اس وقت وہی لوگ چھائے ہوئے ہیں جو 1985ء کے بعد اس میدان میں داخل ہوئے اور جنہوں نے اپنی پہلی دو نسلوں کی سیاسی اور اخلاقی روایات کو پس پشت ڈال دیا تھا۔ ہمارے سیاسی رہنمائوں کی موجودہ کھیپ اس نئی سیاسی اخلاقیات کی ہی علمبردار ہے لہٰذا وہ نہیں سمجھتے کہ انہوں نے اپنے سرکاری عہدے سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے ملک میں اور بیرون ملک جو دولت جمع کر رکھی ہے‘ عدالتیں اس کے بارے میں ان سے جوابدہی کر سکتی ہیں۔
ترقی پذیر ممالک میں 1960ء اور 1970ء کے عشرے سے یہ روایت چل رہی ہے کہ بڑے بڑے سیاسی رہنما اپنی دولت بیرون ملک جمع کرتے رہتے ہیں تاکہ اگر اپنے ملک میں وہ اقتدار سے محروم بھی ہو جائیں تو انہیں ذاتی مالی تحفظ حاصل رہے۔ پاکستان کا متمول اور سیاسی لحاظ سے بارسوخ طبقہ بیرون ملک خصوصاً یو اے ای، یورپی ممالک، برطانیہ اور امریکہ میں جائیدادیں رکھنا پسند کرتا ہے۔ وہ اپنی دولت کا بڑا حصہ ان ممالک کے بینکوں یا آف شور کمپنیوں میں بھی رکھتے ہیں۔ وہ اپنے بچوں کوان ممالک میں سیٹل کروا دیتے ہیں۔
اس مسئلے سے متعلق دوسرا سوال یہ ہے کہ سیاسی رہنما اور دیگر حلقے غربت، پسماندگی اور دوسرے سماجی مسائل سے بخوبی آگاہی رکھتے ہیں۔ کم از کم نظریاتی حد تک وہ ان مسائل کا حل بھی جانتے ہیں‘ مگر سب سے مشکل چیلنج ان مسائل کے حل کا نفاذ ہے جس کی راہ میں وسائل کی کمی اور ترجیحات کے فقدان جیسی رکاوٹیں حائل ہیں۔ گورننس اور سیاست بڑی حد تک سیاسی رہنمائوں کی ترجیحات اور اپنے مفادات کے حصول کے طریقوں کی مرہون منت ہوتی ہے۔ حکومت یا اپوزیشن میں شامل سیاسی جماعتوں اور ان کے رہنمائوں کی سوچ اس قدر محدود ہے کہ وہ سماجی بہبود اور ترقی کے امور سے متفقہ اور پیشہ ورانہ انداز میں نمٹنے سے قاصر نظر آتے ہیں۔ اگر حکومت بہرصورت اپنا اقتدار بر قرار رکھنا چاہتی ہے تو اپوزیشن حکومت گرانے پر تلی ہوئی ہے۔ ہماری سیاسی سوچ اور فکر ہی غیر جمہوری ہے۔ ہمارے سیاستدان ایک دوسرے پر اور پالیسی اقدامات پر الزامات اور جوابی الزامات کا کھیل کھیلنے میں مصروف ہیں۔ وہ اس قابل بھی نہیں کہ زبوں حالی کا شکار معیشت، لا قانونیت خصوصاً مذہبی اور ثقافتی عدم برداشت اور دہشتگردی جیسے سنگین مسائل کے حل کیلئے مل کر کوششیں ہی کر سکیں۔
محاذ آرائی کی سیاست اور کرسی کی ہوس نے پالیسی میکرز کی توجہ سماجی اور اقتصادی ترقی جیسے اہم امور کی طرف جانے کی نہیں دی۔ اگر ہماری سیاست کا یہی چلن رہا تو حکومت کے لئے اپنے شہریوں کی بنیادی ذمہ داریاں پوری کرنا انتہائی مشکل ہو جائے گا۔ سیاسی جماعتیں اور ان کے لیڈر اپنے محدود گروہی مفادات میں اس قدر گھرے نظر آتے ہیں کہ وہ کسی بھی خدمت عامہ کے کام میں اس وقت تک شامل نہیں ہوتے جب تک انہیں یہ یقین نہ ہو جائے کہ یہ کام ان کی جماعت کے مفاد میں ہے۔
سیاست میں دولت کے بڑھتے ہوئے استعمال کی وجہ سے انسانی ترجیحات اور سماجی انصاف جیسی بنیادی ضرورت مہیا کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ بعض سیاسی رہنما اور ان کے قریبی رفقا فلاح و بہبود کے صرف ان منصوبوں میں دلچسپی دکھاتے ہیں جن سے انہیں بھاری مقدار میں کمیشن اور مالی فائدہ ملنے کی امید ہو۔ سماجی بہبود، تعلیم، صحت عامہ کی طرف ہماری حکومتوں کی عدم توجہی کی بڑی وجوہ کچھ اس طرح ہیں کہ ہمارے سیاسی رہنما سیاسی نظام کی وسیع تر متفقہ آپریشنل اقدار تشکیل دینے سے قاصر ہیں۔ سیاسی جماعتوں اور ان کے رہنمائوں کے اپنے مسائل ہیں۔ ہماری سیاست منقسم اور جارحانہ انداز رکھتی ہے۔ عسکری اداروں کی مداخلت کی وجہ سے طویل آئینی اور سیاسی تعطل رہا اور ہمارے ہاں کبھی غیر متنازعہ انتخابات منعقد نہیں ہوئے۔ سماجی و معاشی انصاف، جمہوریت، آئین پسندی اور سماجی ہم آہنگی کا حصول اسی وقت ممکن ہے‘ اگر سیاست سے دولت کی ریل پیل کو نکال باہر کیا جائے۔ یہ ہدف حاصل ہو سکتا ہے اگر کرپشن، منی لانڈرنگ اور ریاستی وسائل کا غلط استعمال کرنے والوں کا فوری اور منصفانہ احتساب کیا جائے۔ سیاسی قائدین کو چاہئے کہ وہ ذاتی اور جماعتی مفادات سے بلند ہو کر سوچیں اور مل کر انسانی ترقی اور فلاح و بہبود کے لئے کام کریں تاکہ عوام یہ جان سکیں کہ جمہوریت ان کے مفاد کے لئے کام کر رہی ہے۔ اس طرح ہمارے ہاں جمہوریت کی جڑیں مضبوط ہوں گی۔