جون 2019ء میں کرغیزستان کے دارالحکومت بشکیک میں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہ اجلاس کے دوران وزیر اعظم پاکستان عمران خان اور روسی صدر ولادی میر پیوٹن کے درمیان پہلی ملاقات ہوئی۔ اس کے مثبت رد عمل میں عمران کو دعوت دی گئی ہے کہ وہ ستمبر کے پہلے ہفتے میں روس میں منعقد ہونے والی اکنامک افیئرز کانفرنس میں شرکت کریں۔ اس دعوت کے آس پاس دو اہم دورے ہوئے۔ روسی افواج کے کمانڈر انچیف جنرل اولیگ سیلیوکوف نے جولائی کے پہلے ہفتے میں پاکستان کا دورہ کیا۔ پاکستان کی قومی اسمبلی کے سپیکر اسد قیصر نے جولائی کے اوائل میں ایک پارلیمانی کانفرنس میں شرکت کے لئے روس کا دورہ کیا۔ انہوں نے روسی پارلیمنٹ ڈوما کے چیئرمین سے دونوں ممالک کی پارلیمان میںتعاون کے بڑھتے ہوئے امکانات پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ دسمبر 2018ء میں پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی اپنے چار ملکی دورے میں روس کا مختصر دورہ کیا تھا۔
یہ سب پاک روس باہمی روابط کے ضمن میں مثبت اشارے ہیں۔ دونوں کو اس بات کا ادراک ہے کہ اب ہمیں ماضی کی تلخیوں کو فراموش کرنے کی ضرورت ہے اور اکیسویں صدی کی دوسری دہائی میں بدلتے ہوئے علاقائی اور عالمی تناظر میں ہمیں اپنے تعلقات کا از سر نو جائزہ لینا چاہئے۔
1991ء میں سوویت یونین کے ٹوٹنے اور اپنے معاشی بحران پر قابو پانے کے بعد روس اب دوبارہ عالمی سطح پر ایک متحرک کردار ادا کرنے جا رہا ہے۔ چین بھی ایشیائی سیاست کے ایک نئے محور کے طور پر ابھر رہا ہے۔ اگر چہ دونوں اپنی اپنی جگہ الگ کام کر رہے ہیں مگر امریکی پاور کے زوال کے بعد دونوں نئے حقائق کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ وہ ان ریاستوں کے لئے امید کی ایک کرن ہیں جو امریکی زوال کے بعد نئے آپشنز کی متلاشی ہیں۔
پاکستان نے بھی تیزی سے بدلتے ہوئے علاقائی اور عالمی حالات کا ادراک کر لیا ہے اور وہ پہلے چین اور اب روس کے ساتھ اپنی خارجہ پالیسی کے امکانات کو وسعت دینے کا خواہاں ہے۔ پاکستان کے کچھ ایشوز کی بنیاد پر مغربی ممالک خصوصاً امریکہ کے ساتھ معمول کے تعلقات قائم ہیں نہ کہ 1950, 1980ء اور 2001ء کے نائن الیون حملوں کے بعد ایک اتحادی اور حلیف والے تعلقات۔
پاکستان کو ہمیشہ اپنی بری، بحری اور فضائی افواج کے لئے اسلحہ کی خریداری کے حوالے سے بیرونی ذرائع کا سہارا لینا پڑا ہے۔ پاکستان نے زیادہ تر اسلحہ امریکہ برطانیہ چین اور فرانس سے خریدا ہے۔ اب جب کہ پاکستان کے روس کے ساتھ تعلقات میں بھی بہتری آرہی ہے، وہ اس سے بھی اسلحہ خریدنا چاہتا ہے۔ ماضی میں پاکستان 1968-69 اور پھر 2018ء میں روس سے محدود پیمانے پر اسلحہ خرید چکا ہے۔
پاکستان کی خارجہ پالیسی اس کے سکیورٹی چیلنجز خصوصاً قیام پاکستان سے شروع ہونے والے بھارت کے ساتھ کشیدہ تعلقات سے متاثر ہوئی۔ 1947-48ء میں کشمیر کی پہلی جنگ نے ہی سکیورٹی ضروریات کو ہماری اولین ترجیح بنا دیا تھا؛ چنانچہ پاکستان 1954-55ء میں امریکی سرپرستی میں بننے والے SEATO اور بغداد پیکٹ جو بعد میں CENTO بن گیا تھا اور ایسے دیگر سکیورٹی انتظامات میں شامل ہونے پر مجبور ہو گیا تھا‘ جن کے نتیجے میں پاکستان کو امریکی اسلحے کی فراہمی شروع ہو گئی۔ اگلے دس سال کے دوران امریکہ پاکستان کو اسلحہ اور افسروں کو تربیت فراہم کرنے والا بڑا ملک بن گیا۔
امریکی سرپرستی میں بننے والے اتحادوں میں پاکستان کی شمولیت سے سوویت یونین ناراض ہو گیا‘ جس کی بدولت پاک بھارت تنازعات میں وہ بھارت کی سفارتی حمایت کرنا شروع ہو گیا۔ ساٹھ کی دہائی میں اس نے بھارت کو باقاعدہ اسلحے کی سپلائی شروع کر دی تھی۔ 1970ء کے عشر ے میں سوویت یونین بھارت کی بری، بحری اور فضائی افواج کو اسلحہ سپلائی کرنے والا بڑا ملک بن چکا تھا۔ اس نے بھارت میں مقامی طور پر فوجی ٹینک اور جنگی طیارے بنانے والی صنعت کے قیام میں بھی اہم کردار ادا کیا۔
دوسری طرف پاکستان نے اپنی اسلحے کی ضروریا ت زیادہ تر امریکہ سے پوری کیں اور پھر 1966ء کے بعد سے چین پاکستان کو اسلحہ سپلائی کرنے والے بڑے ملک کے طور پر سامنے آیا۔ اس نے پا کستان میں اسلحے کی مقامی صنعت کے قیام میں بھی تعاون کیا۔
جب پاکستان نے 1960ء کے عشرے کے وسط میں مغرب کے ساتھ اپنے اتحاد کی پالیسی پر نظر ثانی کی اور آزاد خارجہ پالیسی اپنائی تو چین اور سوویت یونین کی طرف سے بھی مثبت رد عمل آیا۔ پاکستان اور سوویت یونین میں اعلیٰ سطحی سفارتی اور عسکری تعاون شروع ہو گیا اور 1968-69ء میں سوویت یونین نے محدود پیمانے پر پاکستان کو اسلحہ فراہم کیا‘ جس میں T54/55 فوجی ٹینک،MI ہیلی کاپٹرز توپیں‘ جیپیں اور ٹرک بھی شامل تھے۔ اسی زمانے میں سوویت یونین نے پاکستان کو سٹیل مل بنانے کی پیش کش بھی کی جو 1970ء کی دہائی کے شروع میں مکمل ہوئی تھی۔
اکیسویں صدی کے دوسرے عشرے میں بدلتے ہوئے عالمی اور علاقائی حالات نے پاکستان اور روس کو سفارتی تعلقات میں بہتری لانے اور مل کر کام کرنے کا موقع فراہم کر دیا۔ اس ٹرینڈ میں دو عوامل نے اہم کردار ادا کیا۔ اول یہ کہ اب پاکستان اور روس کے درمیان سکیورٹی کے ایشو پر کوئی اختلافات نہیں ہیں۔ دوم یہ کہ 2005ء کے بعد سے جنوبی ایشیا میں روس کے روایتی حلیف بھارت نے معاشی، فوجی جوہری میدانوں میں امریکہ کے ساتھ ناتہ جوڑ لیا تو جواب میں روس بھی اپنے روایتی حلیف کے بارے میں اپنی پالیسی پر نظر ثانی پر مجبور ہو گیا۔ روس کی وسیع تر سفارتی سرگرمیوں کے لئے پاکستان ایک فطری آپشن تھا۔
2017ء کے بعد سے پاکستان افغانستان میں امن اور استحکام میں روس کی دلچسپی کی توثیق کرتا ہے۔ روس بھی نہ صرف 2014ء سے پاکستان کے اندر دہشت گردی کو کنٹرول کرنے کی پاکستانی کوششوں کا اعتراف کرتا ہے بلکہ دوحہ اور 2018-19ء میں ماسکو میں ہونے والے افغان مذاکرات کے تینوں رائونڈز میں پاکستان کے غیر جانب دارانہ کردار کو بھی سراہتا ہے۔
JF-17 جو پاک چائنا جوائنٹ پروجیکٹ ہے میں بھی روسی ساختہ RD-93 انجن استعمال ہوتا ہے۔ پاکستان نے روس کے ساتھ عسکری آلات کی سپلائی کے لئے بھی رابطہ کیا ہے۔ 2018ء میں پاکستان نے روس سے چھ MI ہیلی کاپٹرز اور ان کے فاضل پرزے لئے‘ جن سے 1968-69 کے بعد پھر سے فوجی ہتھیاروں کی فروخت کے راستے ہموار ہوئے ہیں۔
پاکستان ایک بڑی تعداد میں MI-35 ہیلی کاپٹرز، ٹینکس، مواصلاتی آلات اور ایئر ڈیفنس سسٹم خریدنا چاہتا ہے۔ پاکستان اس حوالے سے اپنے باہمی تعلقات کو باقاعدہ فروغ دینا چاہتا ہے۔ اس کے بعد پاکستان اپنی دفاعی پیداوار کی صنعت میں بھی تعاون مانگ سکتا ہے۔
پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی اپریل 2018ء میں روس کا دورہ کیا تھا اور 2015ء میں پاک فضائیہ کے سربراہ نے روس میں ہونے والی جنگی مشقوں میں پہلی مرتبہ شرکت کی تھی۔ 2016ء میں پاکستان اور روس کے فوجی یونٹوں نے Deuzhba نامی انسداد دہشت گردی جنگی مشقوں میں حصہ لیا تھا۔ اب تک 2016-17-18 میں تین مرتبہ یہ جنگی مشقیں ہو چکی ہیں۔
اگرچہ پاکستان روس کے ساتھ اپنے معاشی اور تجارتی تعلقات کو فروغ دینا چاہتا ہے مگر وہ سکیورٹی اور انسداد دہشت گردی کے فیلڈ میں تعلقات میں اضافہ کرنے کا بھی خواہش مند ہے۔ پاکستان اپنی تینوں افواج کے لئے اسلحہ اور فوجی آلات حاصل کرنا چاہتا ہے۔ پاکستان کو اسلحے کی سپلائی پاک روس تعلقات کی مضبوطی کا ٹھوس ثبوت ہو گا۔ اس طرح پاکستان کا فوجی آلات اور ٹیکنالوجی کے لئے مغربی ممالک پر انحصار کم کرنے کے ایجنڈا پر بھی عمل کرنا ممکن ہو جائے گا۔