پاکستان کے سیاسی حلقوں میں پارلیمانی جمہوریت پر ایک عمومی اتفاق رائے پایا جاتا ہے ‘تاہم جمہوری اداروں اور جمہوری عمل کی کارکردگی کے حوالے سے ایک عدم اطمینان بھی پروان چڑھ رہا ہے۔جمہوریت کی کوالٹی اس لئے اچھی نہیں رہی کیونکہ یہ بالا دست اشرافیہ کے درمیان محض اقتدار کی جنگ بن کر رہ گئی ہے‘ جس میں عوام کے مفادات اور پریشانیوں کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے ۔جمہوری ادارے اور جمہوری عمل شہریوں کے حوالے سے اپنی بنیادی ذمہ داریاں پوری کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں‘ جن میں بنیادی انسانی خدمات اور سہولیات کی فراہمی کے ساتھ ساتھ ایک روشن مستقبل کی امید دینا بھی شامل ہے۔بعض تجزیہ نگار سویلین اداروں اور جمہوری عمل کی دگرگوں کارکردگی اور عوام کے بنیادی مسائل پر عدم توجہی کے لئے سیاسی قائدین کوموردِ الزام ٹھہراتے ہیں۔دوسرے گروہ کا موقف ہے کہ ان اداروں اور سیاسی قائدین کو مؤثر انداز میں کام کرنے کا موقع ہی نہیں دیا جاتا ‘کیونکہ بعض دیگر ریاستی ادارے ان کو پنپنے ہی نہیں دیتے۔ایک اور حلقے کا خیال ہے کہ سیاسی قیادت میں ریاست اور سماج کے حوالے سے دیر پا ویژن کا فقدان پایا جاتا ہے اور جب ایک جمہوری فریم ورک کے اندر رہتے ہوئے سماجی اور معاشی ایشوز پر توجہ دینے کاموقع آتا ہے تو سیاسی اداروں میں استعدادِ کار کا مسئلہ پیش آتا ہے۔ تاہم اس کالم نگار کا موقف ہے کہ سیاسی اداروں اور سیاسی عمل کی خراب کارکردگی کو جواز بنا کر ان کی جگہ انتظامی اور مطلق العنان حکومتی بندو بست کو قبول نہیں کیا جانا چاہئے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ جمہوریت کی کوالٹی میں بہتری لانے کے لئے سیاسی اقدامات کئے جائیں اور سیاسی اداروں اور سیاسی عمل کو عوام کی خدمت کے ذریعے سماجی احترام حاصل کرنے کا موقع دینا چاہئے۔
چار اہم فیکٹرز سیاسی اداروں کی کار کردگی میں بہتری لا سکتے ہیں اور اس طرح عوام کی نظروں میں انہیں رضاکارانہ طور پر عزت و احترام دلا سکتے ہیں ۔اول: سیاسی قیادت کا کردار۔ دوم :بڑی سیاسی جماعتوں اور ان کے رہنمائوں کے باہمی تعلقات ۔سوم : سیاسی رہنمائوں کی جانب سے اداروں کا احترام۔ چہارم : سیاسی اداروں اور سیاسی عمل کی کار کردگی اور یہ کہ یہ ادارے کس حد تک عوام کے مسائل حل کرنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔اگر جمہوری جذبے اور سیاسی تحمل کے ساتھ ان چاروں فیکٹرز پر توجہ دی جائے توسیاسی ادارے اور جمہوری عمل خود بخود مستحکم ہوتا جائے گا ۔سویلین سیاسی ادارے اور سیاسی عمل اپنا استحکام عوام کی سپورٹ سے حاصل کرتے ہیں ‘ سیاسی اداروں اور سیاسی عمل کے لئے ایسی رضاکارانہ سپورٹ اور احترام اسی صورت میں مل سکتا ہے اگرعوام میں یہ احساس پایا جائے کہ سیاسی قیادت ان کی فلاح و بہبود کے لئے کام کر رہی ہے ۔
سیاسی عمل او راداروں کو مضبوط یا کمزور کرنے میں لیڈر شپ کا کردار بہت اہم ہوتا ہے ۔کیا لیڈرز پارلیمنٹ‘قانون کی حکمرانی اور جمہوری عمل کواہمیت اور عزت و احترام دیتے ہیں ؟1988-1999ء اور پھر 2008ء سے لے کر آج تک کے تجربے سے یہی دیکھنے میں آیا ہے کہ اعلیٰ سیاسی قیادت نے منتخب پارلیمنٹ کو اقتدار کا محور بنانے کے لئے کبھی کوئی کام نہیں کیا۔وزرائے اعظم باقاعدگی سے پارلیمنٹ کے اجلاس میں نہیں جاتے ؛چنانچہ قومی اسمبلی کو اکثر کورم پورا نہ ہونے کے مسئلے کا سامنا رہتا ہے ۔کئی مرتبہ اسمبلی سیشن شروع ہونے کے بعد پہلے ہی گھنٹے میں اجلاس کو ملتوی کرنا پڑگیا ۔
حکومت او راپوزیشن کے کشیدہ تعلقات کی وجہ سے بھی جمہوری ادارے اور سیاسی عمل کمزور ہوا ہے۔روایتی طور پر یہ تعلقات اس قدر کشیدہ رہے ہیں کہ بر سر اقتدار جماعت اور اپوزیشن ایک دوسرے پر ہر طرح کے الزامات اور جوابی الزامات عائد کرتے رہے ۔اپوزیشن جماعتیں پارلیمنٹ یا صوبائی اسمبلیوں کے اجلاس کی کارروائی میں خلل ڈالنے کی کوشش میں رہتی ہیں۔حکمران جماعت اور اپوزیشن دونوں پارلیمنٹ کے اندر اور باہر ایک دوسرے کے خلاف غیر شائستہ زبان استعمال کرتی ہیں۔اس طرح نہ صرف یہ کہ قانون سازی کا عمل متاثرہوتا ہے بلکہ اس سے معاشرے کے نوجوان طبقات کے مابین عمومی گفتگو پر بھی اس کے برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ہر بڑی پارٹی جمہوری اداروں اور سیاسی عمل سے اپنے من پسند نتائج حاصل کرنا چاہتی ہے۔جب کوئی جماعت اپنے فائدے کے نتائج حاصل نہیں کر سکتی تو وہ جمہوری اداروں اور جمہوری عمل کی قانونی ساکھ پر سوال اٹھا دیتی ہے ۔پاکستان میں آج تک کوئی ایسی مثال نہیں ملتی کہ ہارنے والی سیاسی جماعت نے اپنی انتخابی شکست تسلیم کی ہو۔
12ستمبر 2019ء کو صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کے دوران اپوزیشن جماعتوں نے شدید ہنگامہ آرائی کی‘حکومت مخالف نعرے بازی کی اور سپیکر کی نشست کے سامنے احتجاج کے لئے جمع ہو گئے۔ اس سے ہمیں 1988-1999ء کے عرصے میں صدر کے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاسوں سے خطاب کے دوران شور شرابے اوربدترین احتجاجی صورت حال کی یاد تازہ ہو گئی۔ مسلم لیگ (ن )اور پیپلز پارٹی دونوں کو جب کبھی اپوزیشن میں بیٹھنا پڑا تو اسی طرح کے غیر پارلیمانی طرز عمل کا مظاہرہ دیکھنے میں آیا۔اس وقت نیب کی جانب سے مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کی قیادت کے احتساب کی وجہ سے ان کے پی ٹی آئی کے ساتھ انتہائی کشیدہ تعلقات ہیںجس کی بدولت وہ معمولی یا اہم نوعیت کے ایشوز پر بھی تعاو ن کرنے پر بھی آمادہ نہیں ہیں۔الفاظ کی جنگ جاری ہے جس سے ملک کا سیاسی ماحول خراب ہو رہا ہے‘ جس سے پارلیمنٹ کا کردار متاثر ہو رہا ہے‘ جبکہ وفاقی اور صوبائی سطح پر حکومتیں اچھی گورننس کا مظاہرہ کرنے سے قاصر نظر آر ہی ہیں۔ریاستی ادارے عوام کو بنیادی ضروریا ت اور سروسز فراہم کرنے میںناکام ہیںجن کی اکثریت بیروزگاری اور غربت کا اس لئے سامنا کرنے پر مجبور ہے‘ کیونکہ ملکی معیشت ہمارے سماجی اور معاشی مطالبات پورے کر نے کی سکت نہیں رکھتی۔یہ تمام عوامل جمہوری اداروںاور سیاسی عمل سے عوام کی وابستگی کو کمزور کرتے ہیں جس کے نتیجے میں ان کا جمہوری کردار کمزور ہو جاتا ہے۔سیاسی رہنمائوں ‘اداروں اور جمہوری عمل کی خراب کار کردگی کا حل جمہوری عمل کے دروازے بند کر کے اس کی جگہ انتظامی یا مطلق العنان حکومت لانا نہیں ہے ۔اس طرح کی تبدیلی لانے سے پاکستان کے داخلی مسائل میں اضافہ ہوگا ۔
ایک جمہوری فریم ورک کے اندر تبدیلی کا تقاضا ہے کہ سیاسی قیادت کے درمیان قومی ‘سیاسی اور معاشی امور کے حوالے سے بنیادی پیرا میٹرز پر اتفاق رائے پیدا کیا جائے۔تحریک انصاف کی حکومت کو چاہئے کہ بعض رعایتی اقدامات کے لئے وفاقی سطح پر اپوزیشن کے ساتھ بات چیت کا سلسلہ شروع کرنے میں پہل کرے مثلاً لفظوںکی جاری جنگ کو روکا جائے ۔ان نیب قوانین میں ترامیم کی جائیں جن کے تحت تفتیشی عمل کے دوران نیب کو ملزم کوگرفتار کرنے اور ضمانت نہ دینے سے متعلق اختیارات شامل ہیں ‘تاکہ یہ تاثر ختم ہو کہ یک طرفہ احتساب ہو رہا ہے مزید یہ کہ ملکی معیشت میں بہتری لانے کے لئے باہمی تعاون کی فضا پیدا ہو سکے۔اپوزیشن جماعتوںکو بھی پی ٹی آئی حکومت کے جمہوری جواز پر سوالات کا سلسلہ روک دینا چاہئے۔
ترکی سمیت کئی ممالک جہاں پچھلی دو دہائیوں کے دوران سیاسی اداروں اور سیاسی عمل کے کردار اور ساکھ میں نمایاں بہتری دیکھنے میںآئی ہے‘ان ممالک نے معیشت کی بہتری ‘حکومت میں پائی جانے والی کرپشن کو کنٹرول کرنے اور اس امر پر توجہ دی ہے تا کہ عوام کو معاشی ترقی کے منصفانہ ثمرات ملیں۔پاکستان کے سیاسی اور سماجی رہنمائوں کو چاہئے کہ وہ اپنے سیاسی ایجنڈے کی تکمیل کے طریقۂ کار اور وسائل پر نظر ثانی کریں ۔سیاسی اداروںاور سیاسی عمل کی کامیابی میں ان کا کردار بنیادی ہوگا۔اگر وہ ان اداروںکو مؤثر طریقے سے کام کرنے کے قابل بنا دیں کہ وہ عوام کے سماجی سیاسی اور معاشی مسائل کے حل پر بھرپور توجہ دے سکیں‘ تو ان کی بقا کی ضمانت دی جا سکتی ہے۔معاشرہ ان کے ساتھ کھڑا ہے اور یہی بات جمہوریت اور سیاسی اداروں کے لئے سب سے قوی یقین دہانی ہے ۔