ہم نے ماضی میں دیکھا ہے کہ جب کبھی کسی پاکستانی صدر، وزیراعظم اور وزیر خارجہ نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس سے خطاب کیا تو وہ کشمیر پر ایک دو جملے ہی بولنے پر اکتفا کرتے تھے۔ کشمیر کے بارے میں کمنٹس دو تین منٹ سے زائد نہیں ہوتے تھے۔ پاکستانی وفد کا سربراہ مسئلہ کشمیر کے پُرامن مذاکرات کے ذریعے حل کی خواہش کا اظہار کیا کرتا تھا۔ مگر اس سال 27 ستمبر کو وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے وہاں نہ صرف کشمیر کا کیس بھرپور انداز میں لڑا بلکہ ان ایشوز پر بھی سیر حاصل گفتگو کی‘ جو مغربی ممالک اور اسلامی دنیا کے باہمی تعلقات کو بری طرح متاثر کرتے ہیں۔
وزیر اعظم پاکستان اور ان کی ٹیم نے جنرل اسمبلی کے سیشن کے دوران جس اعلیٰ پائے کی سائیڈ لائن سفارت کاری کا مظاہرہ کیا اور جتنا بھرپور خطاب کیا‘ پاکستان میں بیٹھے ان کے ناقدین اس میں نقائص نکالنے کی جتنی مرضی کوشش کر کے دیکھ لیں‘ وہ حقائق کو تبدیل نہیں کر سکتے۔ اس خطاب سے کشمیر نہ صرف ایک مرتبہ پھر بھرپور انداز میں عالمی سطح پر اجاگر ہوا ہے بلکہ وہ دو اہم ایشوز بھی کھل کر سامنے آ گئے جو دنیا بھر کے مسلمانوں کے لئے پریشانی کا باعث بنتے تھے۔
عمران خان نے جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں دنیا کو بتایا کہ مغربی ممالک نے کس طرح دہشت گردی کو اسلام کے ساتھ جوڑا اور پھر مغربی معاشروں اور حکومتوں کو اسلام کے بارے میں ایک خود ساختہ خوف میں مبتلا کیا۔ عمران خان نے اسلام اور دہشت گردی میں کسی تعلق کو دوٹوک انداز میں مسترد کیا اور انہیں اس بے بنیاد تعصب پر قابو پانے کا مشورہ دیا۔ پھر انہوں نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ کس طرح بعض مغربی ممالک میں آزادیٔ اظہار کے نام پر توہینِ رسالت کا ارتکاب کیا جاتا ہے (معاذ اللہ) جس سے مسلمانوں کو شدید تکلیف ہوتی ہے۔ عمران خان نے ان ایشوز پر مسلمان ممالک کے ایک اجلاس میں بھی شرکت کی‘ جس میں ان کے ساتھ ترکی کے صدر طیب اردوان بھی تھے۔
ان کی تقریر کا سب سے متاثر کن حصہ وہ تھا جس میں انہوں نے کشمیر پر بات کی۔ انہوں نے نہ صرف 5 اگست کے بعد سے بھارتی مقبوضہ کشمیر کے عوام کی حالت زار اور مشکلات کو اجاگر کیا بلکہ مودی کے زیر سرپرستی بھارتی حکومت کے مائنڈ سیٹ کا تجزیہ بھی کیا۔ انہوں نے مودی کی آر ایس ایس سے وابستگی کا بھی ذکر کیا جو نسل کشی، ہندوئوں کی برتری اور مذہبی اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں اور مسیحیوں سے نفرت پر یقین رکھتی ہے۔ انہوں نے مغربی ممالک کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا کہ وہ مقبوضہ کشمیر کے شہریوں کے انسانی حقوق اور ان پر ہونے والے مظالم پر اس لئے آواز نہیں اٹھا رہے کہ بھارت کی ایک ارب بیس کروڑ افراد کی بڑی مارکیٹ سے ان کے معاشی مفادات وابستہ ہیں۔
کشمیر اور بھارتی اقلیتوں کے بارے میں بھارت کی حالیہ پالیسیوں پر اپنے کیس کے حق میں انہوں نے یورپی اور مغربی ممالک کی تاریخ سے کئی حوالے دیئے۔ انہوں نے ہٹلر کی نسلی برتری کے نظریے اور اس پر عمل کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ کس طرح برطانیہ نے 1938-39 میں ہٹلر کو خوش اور مطمئن رکھنے کی پالیسی اپنائی تھی‘ جس کا نتیجہ ہولوکاسٹ کی صورت میں نکلا تھا۔ انہوں نے عالمی برادری سے اپیل کی کہ وہ بھارت کی جانب سے اقوام متحدہ کی قراردادوں، انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور کشمیری عوام کے حق خود ارادیت کو مسترد کرتے ہوئے وہاں جاری رکھی گئی ظالمانہ پالیسیوں کے خلاف واضح موقف اپنائیں۔
جنرل اسمبلی سے خطاب میں ان کے دوسرے موضوعات میں ماحولیاتی تبدیلی، ترقی پذیر ممالک کی اشرافیہ کی لوٹ مار اور منی لانڈرنگ کے ذریعے اس دولت کی مغربی ممالک میں منتقلی شامل تھے۔ عمران خان اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے علاوہ کئی دوسرے ممالک کے جتنے اعلیٰ رہنمائوں سے بھی ملے‘ ماضی میں جنرل اسمبلی کے اجلاس میں آنے والے کسی پاکستانی حکمران نے اتنی ملاقاتیں کبھی نہیں کی تھیں۔ انہوں نے کونسل فار فارن ریلیشنز اور ایشیا سوسائٹی سے بھی خطاب کیا۔ انہوں نے امریکن میڈیا کو انٹرویوز بھی دیئے۔
جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں تین دیگر رہنمائوں نے کشمیری عوام کی مشکلات اور ان کے حق خود ارادیت کا ذکر کیا۔ یہ ترکی کے صدر طیب اردوان، ملائیشیا کے وزیر اعظم مہاتیر محمد اور چین کے وزیر خارجہ ہیں۔ یہ بھی جنرل اسمبلی میں ایک نئی پیش رفت تھی۔ پاکستان کی اس سفارتی کامیابی کا سہرہ دو فیکٹرز کے سر جاتا ہے۔ اول: جب سے بھارت نے کشمیری عوام کی خود مختاری سے انکار کرتے ہوئے وہاں کرفیو نافذ کیا ہے‘ پاکستانی حکومت ایک متحرک اور سرگرم سفارت کاری میں مصروف ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کو مسلم ممالک کی طرف سے مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ جن مسلم ممالک نے کشمیری عوام اور کشمیر پر پاکستانی موقف کی کھل کر حمایت کی‘ ان میں ترکی، ایران اور ملائیشیا شامل ہیں۔ بعض مسلمان ملکوں نے خاموش رہنے کو ترجیح دی۔ متحدہ عرب امارات اور بنگلہ دیش نے کشمیر میں بھارتی اقدام کو اس کا داخلی معاملہ قرار دیا۔ کچھ مسلم ملکوں نے پاکستان اور بھارت کے مذاکرات کے ذریعے کشمیر ایشو حل کرنے کی بات کی۔
پاکستان کی کشمیر ڈپلومیسی میں دوسرا اہم کردار اوورسیز پاکستانیوں اور کشمیری عوام نے ادا کیا‘ خاص طور پر وہ لوگ جو امریکہ، برطانیہ، کینیڈا اور یورپی یونین میں مقیم تھے۔ پاکستانی اور کشمیری تارکینِ وطن کے اپنے اپنے ملک میں کشمیر ایشو کو اٹھانے سے وہاں سے بھرپور عوامی حمایت حاصل ہوئی۔ وہاں کا میڈیا متحرک ہو گیا۔ ان پاکستانی تارکین وطن کو چاہیے کہ وہ مقامی پارلیمنٹیرینز اور میڈیا کے ساتھ ملاقاتوں کا یہ سلسلہ جاری رکھیں۔ یورپی پارلیمنٹ میں بھی کشمیر ایشو پر بحث ہوئی اور برطانوی لیبر پارٹی نے بھی اپنے سالانہ اجلاس میں کشمیری عوام کے حق میں ایک قرارداد پاس کی۔ اسی طرح کئی امریکی اور برطانوی اخبارات نے کشمیری عوام کے مصائب پر مبنی رپورٹس شائع کیں‘ جس سے اس مسئلے کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے میں بہت مدد ملی۔ پاکستان کا سارا فوکس ڈپلومیسی پر ہے۔ چونکہ پاکستان اور بھارت‘ دونوں کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں‘ اس لئے روایتی جنگ کے بارے میں سوچنا انتہائی خطرناک عمل ہو گا کیونکہ ایسی جنگ ایٹمی جنگ میں بھی بدل سکتی ہے۔ نتیجہ دونوں ممالک کی مکمل تباہی کی صورت میں نکلے گا اور اس کے مضمرات پاک بھارت سرحدوں سے کہیں دور تک نظر آئیں گے۔
بھارت کی پوری کوشش رہی ہے کہ وہ کشمیر کی تحریک آزادی کو دہشت گردی کا رنگ دے دے۔ اسی لئے وہ پاکستان پر کشمیر میں دہشت گردی سپانسر کرنے کا الزام لگاتا ہے۔ فروری 2019ء کے آخری ہفتے میں بھارت نے بالا کوٹ میں دو فضائی حملوں کا دعویٰ کیا اور یہ دعویٰ بھی کہ ان حملوں میں دہشت گردوںکے کیمپوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس فضائی حملے میں کوئی مدرسہ یا عمارت تباہ نہیں ہوئی؛ البتہ چند درخت ضرور تباہ ہو گئے تھے کیونکہ بھارتی بم ایک جنگل میں گرے تھے۔ پاکستان نے بھی فوری جواب دیا‘ جس میں دو بھارتی طیارے مار گرائے گئے اور ایک بھارتی پائلٹ کو گرفتار کر لیا گیا۔ مقبوضہ کشمیر میں بھی بمبار طیارے بھیجے گئے‘ جنہوں نے وہاں علامتی بمباری کی۔ صورت حال زیادہ کشیدہ نہ ہوئی کیونکہ بھارت نے دوبارہ ایسی حکمت عملی سے گریز کیا۔ عین ممکن ہے کہ بھارت دہشت گردی کے مراکز تباہ کرنے کی آڑ میں ایک مرتبہ پھر محدود فوجی کارروائی کرے۔ پاکستان نے ایسے کسی بھی اقدام کے بارے میں متنبہ کیا ہے کہ وہ اینٹ کا جواب پتھر سے دے گا۔ اسی وجہ سے عمران خان نے جذبات سے بپھرے عوام کو لائن آف کنٹرول کراس نہ کرنے کی ہدایت کی تھی۔ اس اقدام سے کشمیریوں کی کوئی مدد نہیں ہو گی بلکہ اس سے بھارت کو انہیں شوٹ کرنے اور پاکستان پر مقبوضہ کشمیر میں دہشت گرد بھیجنے کا الزام لگانے کا موقع مل جائے گا۔
جنرل اسمبلی میں عمران خان کی تقریر کا مقصد کشمیر پر اپنا موقف پیش کرنا اور عالمی حمایت حاصل کرنا تھا۔ مسئلہ کشمیر اب پوری شد و مد کے ساتھ ایک عالمی ایشو بن کر ابھرا ہے؛ تاہم ڈپلومیسی سست روی کا شکار نظر آتی ہے۔ بھارت پر دبائو ہے وہ کشمیر سے کرفیو اٹھائے اور وہاں انسانی حقوق کی صورتحال بہتر بنائے۔ جب بھی مذاکرات ہوں گے تو کوئی ایسا حل تلاش کرنے کی کوشش کی جائے گی‘ جو کشمیری عوام سمیت تمام فریقوں کیلئے قابل قبول ہو اور ایسا حل پاکستان اور بھارت‘ دونوں کے موجودہ موقف کے بین بین کہیں ملنے کا امکان ہے۔