پاکستان سمیت تمام ترقی پذیر ممالک میں سیاسی غیر یقینی ایک عام خصوصیت ہے؛ تاہم پاکستانی سیاست میں جو غیر یقینی صورتحال اس وقت نظر آتی ہے ماضی میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ حکومت اور حزب اختلاف میں شامل لوگوں کی اکثریت موجودہ سیاسی بندوبست کے مستقبل کے بارے میں یکساں طور پر پریشان ہے۔ اس کی وجہ سے ہر طرح کی قیاس آرائیوں کے در وا ہیں اور مرکزی حکومت کی قیادت اور موجودہ نیم فعال پارلیمانی نظام میں تبدیلیوں کی باتیں عام ہیں۔حکومت اور اپوزیشن‘ دونوں نے ہی اس صورتحال کے پیدا کرنے میں اپنا اپنا حصہ ڈالا ہے جس کی وجہ سے یہ غیر یقینی سیاسی عمل میں سرایت کر گئی۔ اس پریشان کن ترین صورتحال کا منبع حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف اور حزب اختلاف کی جماعتیں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی ہیں‘ جو سیاسی عمل کو اطمینان بخش انداز میں آگے بڑھانے کے لیے کوئی ورکنگ ریلیشن شپ قائم کرنے میں ناکام رہی ہیں‘ اور اب حزب اختلاف کی جماعتیں کسی بھی قیمت پر حکومت کو گرانے کے لیے کوشاں ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اور حزب اختلاف کی جماعتوں، خصوصاً پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی، کے مابین متواتر کھینچا تانی جمہوری عمل کو ادارہ جاتی شکل دینے میں سب سے بڑی رُکاوٹ ہے۔ تحریک انصاف حکومت اور اپوزیشن، خصوصاً مسلم لیگ (ن) کے مابین جاری مسابقتی مباحث پارلیمانی آداب حتیٰ کہ معاشرتی شائستگی سے بھی کوسوں دور ہیں۔ کچھ سیاسی کارکنان تو متحارب جماعتوں کی قیادت کے بارے میں دشنام طرازی اور بہتان سازی میں ید طولیٰ رکھتے ہیں۔ اگر قومی اسمبلی کے اجلاس دیکھیں تو بہت سے ممبران بعض اوقات الزام اور جوابی الزام سازی، یا مخالف جماعت کے مقرر پر جملے کسنے یا سپیکر کی کرسی کے سامنے موجود کھلی جگہ پر پُر شور احتجاج کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ رواں ماہ تو سینیٹ کے اجلاسوں میں بھی ایسی ہی صورتحال دیکھنے کو مل رہی ہے۔
غیر یقینی صورتحال کی ایک اور وجہ مولانا فضل الرحمن کی جماعت جمعیت علمائے اسلام کا مارچ بھی بنا ہے۔ اگرچہ اس سیاسی مشق کے نتیجے میں تحریک انصاف کی وفاقی حکومت گری نہیں؛ تاہم اس نے طویل مدتی حکومتی استحکام پر سوالیہ نشان ضرور کھڑا کر دیا ہے۔ مولانا نے حزب اختلاف کی جماعتوں میں موجود لیڈرشپ کے خلا کو سیاسی سٹیج پر اپنی واپسی کے لیے استعمال کیا۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی قیادت کی عدم موجودگی (علاج کے لیے بیرون ملک جانے یا احتساب کے سلسلے میں پابند سلاسل ہونے کی وجہ سے) نے مولانا کو حوصلہ دیا کہ وہ حزب اختلاف کی قیادت کے لیے سامنے آئیں۔ وہ اور اکرم دُرّانی‘ دونوں چاہتے ہیں کہ حزب اختلاف کی دونوں بڑی جماعتیں ان کے پیچھے چلتی دکھائی دیں۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی‘ دونوں ہی عمران حکومت گرانے کے ان کے ہدف کی حامی ہیں؛ تاہم وہ حزب اختلاف کی قیادت ایک چھوٹی مذہبی جماعت کے سپُرد کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اسی لیے انہوں نے ہچکچاتے ہوئے مولانا کے مارچ کے لیے حمایت کی تاکہ وہ حکومت پر دبائو ڈالنے میں تو کامیاب رہیں لیکن حزب اختلاف کی قیادت کا ہما ان کے سر پر نہ بیٹھ سکے؛ تاہم اس ساری مشق سے تحریک انصاف حکومت کی سردردی اور سیاسی انتشار میں مزید اضافہ ہو گیا۔حکومت اور حزب اختلاف‘ دونوں کو یہ بات باور کر لینی چاہیے کہ اگر ان کی باہمی لڑائی کی وجہ سے پارلیمان اپنا حقیقی کردار موثر طور پر ادا نہ کر سکی تو یہ عضو معطل بن کر رہ جائے گی۔ حکومت اور حزب اختلاف کے مابین عدم تعاون کی وجہ سے کئی دیگر امور کا سر انجام پانا بھی بہت مشکل ہو جائے گا‘ مثلاً الیکشن کمیشن کے چیئرمین اور ممبران کی نامزدگی، پارلیمانی کمیٹیوں کا کام اور قانون سازی وغیرہ۔ اس کی وجہ سے جمہوری نظام کی افادیت متاثر ہو گی‘ جو حکومت اور اپوزیشن دونوں کے لیے ضرر رساں ہے۔
اندازہ یہ ہے کہ آئینی اداروں اور ان کی فعالیت کو مسلسل نظر انداز کرنے سے سویلین فعالیت اور سویلین سیاسی قوتیں کمزور پڑیں گی۔ اس لئے حکومت اور حزب اختلاف کو ہر مدعے پر ایک دوسرے کی مخالفت کی موجودہ روش ترک کرنا پڑے گی۔ ان دونوں کو ایک دوسرے کے ساتھ کم از کم اتنا تعاون ضرور کرنا پڑے گا‘ جس سے نظام رواں دواں رہے۔ حکومت اور حزب اختلاف کے مابین تعاون کے سلسلے میںاُمید کی ایک چھوٹی سی کرن حکومت کی جانب سے قومی اسمبلی میں عددی اکثریت کے بل پر پاس کرائے گئے گیارہ آرڈیننسوں کی واپسی کی شکل میں نظر آئی ہے۔ اس کے جواب میں حزب اختلاف نے ڈپٹی سپیکر کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک واپس لے لی۔ ایک اور نشانی یہ ملی ہے کہ حکومت نے پبلک اکائونٹس کمیٹی کی چیئرمینی کیلئے مسلم لیگ (ن) کے مقابل اپنا اُمیدوار نہ لانے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ حکومت کے خیال میں اس کمیٹی کی قیادت اپوزیشن کو ملنی چاہیے۔ ہمیں ایسے تعاون کی مزید ضرورت ہے۔ مزید یہ کہ حزب اختلاف اور تحریک انصاف کے راہنمائوں کو اپنی زبانوں اور اپنے سیاسی اندازِ بیان پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔اسی طرح پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور پارٹی کے کچھ کلیدی راہنمائوں کو پی ٹی آئی اور عمران خان کے بارے میں اپنے بیانات پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ آصف علی زرداری اور ان کی ہمشیرہ کی نیب کے ہاتھوں گرفتاری کے بعد سے پیپلز پارٹی کا رویہ حکومت کے بارے میں بہت تلخ ہو گیا ہے۔ انہیں اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ جب تک حکومت اور حزب اختلاف ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی سوچ پیدا نہیں کریں گے تب تک جمہوری نظام کا چلنا ممکن نہیں۔ جہاں حزب اختلاف کو اپنی سیاست پر نظر ثانی کی ضرورت ہے وہیں وفاق اور دو صوبوں (پنجاب اور کے پی کے) میں موجود تحریک انصاف حکومت کو حزب اختلاف کی جماعتوں کے بارے میں اپنی حکمت عملی سے رجوع کرنے کی ضرورت ہے۔ عمران خان صاحب کو اب ''این آر او نہیں ملے گا‘‘ ، ''بد عنوان سیاست دانوں کو نہیں چھوڑوں گا‘‘ اور ''ریاست مدینہ‘‘ والے بیانیے سے نکل کر گورننس پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ انہیں ایسی پالیسیاں تشکیل دینے کی ضرورت ہے جن کی بدولت عام لوگوں کو تعلیم، صحت، روزگار اور شہری سہولیات براہ راست اور تیزی سے مہیا ہوں۔ علاج کے لیے انگلستان چلے جانے کے بعد نواز شریف کی صحت بارے سوالات کھڑے کرنے سے تحریک انصاف کے راہنمائوں کو کوئی سیاسی فائدہ حاصل نہیں ہو گا۔
عمران خان کو گورننس، معاشی مسائل کے حل، عام لوگوں کے لیے روزگار کے ذرائع پیدا کرنے اور انسانی وسائل کی ترقی پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو ضرورت ہے کہ وہ عام آدمی کے دل میں بہتر اور محفوظ مستقبل کی جوت جگائے۔ انہیں منڈی کی ان قوتوں پر نظر رکھنا ہو گی جو اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں اضافہ کر کے سماج میں بے چینی پیدا کرنے کا سبب بنتی ہیں۔ اگر عمران خان صاحب کی حکومت سیاسی نظام کو استحکام دینا اور اپنی کارکردگی میں بہتری لانے کی خواہش مند ہے تو اسے اپنے کچھ چہروں اور پالیسیوں میں تبدیلی لانا ہو گی۔ حکومتیں اپنی کارکردگی اور پالیسیوں کی وجہ سے پرکھی جاتی ہیں نہ کہ حکومتی جماعت کے راہنمائوں کی جارحانہ تقاریر اور ان کے ضدی پن کی بنیاد پر۔
پی ٹی آئی حکومت کے لیے یہ بات اہم ہے کہ وہ ایک آزادانہ جائزہ مرتب کرائے کہ دو بڑی پارٹیوں کو چھوڑ کر انہیں ووٹ دینے والے اب ان سے مایوس کیوں ہیں۔ اگرچہ حکومتی کارکردگی سے برگشتہ یہ سارے لوگ واپس ان پرانی جماعتوں کی جانب نہیں لوٹیں گے‘ لیکن خطرہ ہے کہ ان لوگوں کا دل پورے سیاسی نظام سے ہی اچاٹ نہ ہو جائے۔ یہ ایک خطرناک رجحان ہو گا کیونکہ اگر لوگ اس حد تک مایوس ہو گئے تو وہ سیاسی نظام اور اس کے راہنمائوں پر اپنا اعتماد کھو بیٹھیں گے اور سیاسی نظام غیر منتخب بیوروکریسی اور قوتوں کا دست نگر بن کر رہ جائے گا۔
صورتحال اب بھی سنبھالی جا سکتی ہے اگر پی ٹی آئی حکومت اور حزب اختلاف اپنی مخاصمانہ طرز سیاست پر نظر ثانی کرنے کے لیے تیار ہوں اور ریاست کے جمہوری خدوخال اور بڑی پالیسیوں کے متعلق ایک کم از کم ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے متفق ہو سکیں تو۔ جب تک یہ جماعتیں پارلیمان اور حکومت کو موثر نہیں بناتیں‘ تب تک سیاسی نظام میں سویلین اداروں کو بالادست کردار حاصل نہیں ہو سکتا۔