"HAC" (space) message & send to 7575

پی ٹی آئی کے اندر اور ارد گرد ہوتی سیاست

آج کل پاکستان میں حزب مخالف کی جماعتیں نسبتاً خاموش ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی قیادت اپنے ووٹرز کو سرکشی کا سبق پڑھا کر اب لندن جا بیٹھی ہے اور مقامی قیادت یا تو نیب کی پیشیاں بھگت رہی ہے یا اس مخمصے کا شکار ہے کہ اُسے کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا کیونکہ لندن میں بیٹھی قیادت کے طویل مدتی منصوبوں کے بارے میں انہیں کچھ علم نہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی پوری توجہ بھی اپنے رہنمائوں کے نیب مقدمات کو نپٹانے پر مرکوز ہے۔ بلاول بھٹو گاہے بگاہے پی ٹی آئی حکومت کے خلاف بیانات دیتے ہیں لیکن مجموعی سیاسی ماحول پر ان بیانات سے بہت کم اثر پڑتا ہے۔
یہ خیال مت کیجیے گا کہ حزب مخالف کی دو بڑی جماعتوں کے سیاسی طور پر غیر فعال ہونے سے پاکستانی سیاست ٹھس ہو گئی ہے۔ سیاست کا محور اب حکمران پی ٹی آئی کے اندر اور اپنی اتحادی جماعتوں کے ساتھ اس کے تعلقات میں در آنے والی مشکلات بن گئی ہیں۔ ہم بہ آسانی پنجاب، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں حکمران حلقے کے اندر جاری کھینچا تانی دیکھ سکتے ہیں۔ اتحادی جماعتیں اور خود پی ٹی آئی کے کچھ اراکین یا تو صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کو ہدف بنائے ہوئے ہیں یا وہ وفاقی حکومت سے اپنے مطالبات نظر انداز کیے جانے کی شکایات کرتے دکھائی دیتے ہیں؛ تاہم وزیر اعظم عمران خان کے گزشتہ ہفتے کے دورہ لاہور اور خیبر پختون خوا کابینہ سے نکالے جانے والے دو وُزرا سے ہونے والی ملاقات کے بعد صورتحال کچھ ٹھنڈی پڑتی نظر آتی ہے۔ بلوچستان حکومت کے لیے پیدا ہونے والا چیلنج بھی ابتدا ہی میں نپٹا لیا گیا ہے۔ اتحادی جماعتوں کے حکومت کی حمایت سے دستبردار ہونے یا پی ٹی آئی کے اراکین کا پارٹی چھوڑنے کا کوئی فوری اندیشہ نظر نہیں آتا۔ پی ٹی آئی کے اندر اور اس کے ارد گرد جو قدرے سیاسی سکون پیدا ہوا ہے اُس کی وجہ عمران خان کی تگڑی سیاسی قیادت ہے۔ اس کے باوجود پی ٹی آئی کو اس وقت دو طرح کے مسائل کا سامنا ہے: اُن اتحادی جماعتوں کے ساتھ کھینچاتانی جن کی وجہ سے پی ٹی آئی کو قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل ہے؛ دوسرے‘ جماعت کے اندر پیدا ہونے والی ہلچل اور شکوے شکایات۔
پی ٹی آئی کی اتحادی جماعتوں میں ایم کیو ایم (پاکستان)، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جس کی قیادت پیر صاحب پگاڑا کرتے ہیں)‘ پی ایم ایل (ق)، بی این پی (جس کی قیادت اختر مینگل کے پاس ہے)‘ اور بلوچستان عوامی پارٹی (جس کے پاس بلوچستان کی مخلوط حکومت بھی ہے) شامل ہیں۔ یہ سب جماعتیں پی ٹی آئی کے اپنے اتحادیوں کے ساتھ رویے پر شاکی ہیں؛ تاہم ابھی تک کسی اتحادی کی جانب سے اس مرحلے پر حکومت سے الگ ہونے کی بات سُننے میں نہیں آئی‘ لیکن اگر اتحادیوں سے اجنبیوں والا سلوک جاری رہا تو ان میں سے کچھ جماعتیں حکومتی اتحاد سے نکلنے کا فیصلہ کر سکتی ہیں اور اس کے نتیجے میں پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت مشکلات کا شکار ہو سکتی ہے۔
اتحادی جماعتوں کے سینئر ممبران کا اعتراض ہے کہ پی ٹی آئی کے وہ لیڈران جو موجودہ حکومتی معاملات میں مؤثر کردار کے حامل ہیں‘ انہیں نہیں ملتے۔ اتحادیوں کو محسوس ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت انہیں احترام نہیں دیتی‘ پی ٹی آئی پالیسیاں تن تنہا بناتی ہے لیکن اتحادیوں سے توقع رکھتی ہے کہ وہ ان پالیسیوں کا دفاع کریں گے۔ مستقل نوعیت کے روابط کی عدم موجودگی کے سبب اتحادی جماعتوں کے لیے اپنے ووٹرز اور سپورٹرز کو بھی حکومت کے بارے میں مطمئن رکھنے کا کام مشکل تر بنتا جا رہا ہے۔ جب وہ اپنے حمایتیوں کو مطمئن نہیں کر پا رہے تو حلقے کی سطح پر ان کی پوزیشن کمزور پڑ رہی ہے۔
ایک اور شکایت یہ ہے کہ حکومتی وسائل اور ترقیاتی فنڈز‘ جو لوگوں کی فلاح کے لیے مختص کیے جاتے ہیں‘ پی ایم ایل (ق) کے اراکین قومی اسمبلی کے حلقوں میں صرف نہیں کیے جا رہے ہیں۔ تنائو کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ پی ایم ایل (ق) اور ایم کیو ایم (پ) کی قیادت سمجھتی ہے کہ پی ٹی آئی نے جولائی 2018ء کے انتخابات کے فوری بعد ان سے جو معاہدے کیے تھے اُن کی پاسداری نہیں کی جا رہی۔ ان معاہدوں کی ایک شق وفاقی کابینہ میں ان جماعتوں کی نمائندگی سے متعلق ہے۔ پی ایم ایل (ق) اور ایم کیو ایم (پ) وفاقی سطح پر اپنی پسند کی وزارتیں حاصل کرنے کے معاملے پر ڈٹی ہوئی ہیں۔ جی ڈی اے اور بی این پی کو بھی شکوہ ہے کہ ان سے ترقیاتی فنڈز اور نوکریوں کے جو وعدے کیے گئے تھے وہ پورے نہیں کیے جا رہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے اپنے اتحادیوں کے مسائل حل کرنے کے لیے تین کمیٹیاں تشکیل دی ہیں۔ پی ایم ایل (ق) سے معاملہ کرنے کے لیے جو کمیٹی بنائی گئی اُس کے اراکین کا ق لیگ کی قیادت سے تعلق برائے نام قسم کا ہے۔ یہ کمیٹیاں اُس وقت تک حکومت اور اتحادی جماعتوں کے مابین تنائو کم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتیں جب تک وہ اقتدار کی سانجھ کے لیے کوئی قابل عمل فارمولا پیش نہیں کرتیں۔ 
پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت کو سیاسی حسد اور دھڑے بندی کی وجہ سے بھی مسائل کا سامنا ہے۔ پنجاب کابینہ اور پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ کی کارکردگی کے بارے میں شدید تحفظات پائے جاتے ہیں، وزیر اعلیٰ کے بارے میں عمومی خیال یہی ہے کہ اُن کے اندر صوبہ چلانے کے لیے درکار صلاحیتوں کا فقدان ہے۔ پھر پی ٹی آئی پنجاب کے اندر وزیر اعلیٰ کے پاس ذاتی حمایت برائے نام ہے۔ ان کی سیاسی بقا کا انحصار صرف اور صرف عمران خان کی حمایت پر ہے۔
پی ٹی آئی کے اراکین پارلیمان کو حکومت کی جانب سے انتظامی امور چلائے جانے کے انداز پر بھی اعتراضات ہیں۔ انتہا پر پہنچی مہنگائی اور خصوصاً گندم و آٹے کے حالیہ بحران نے اس کو عام لوگوں سے دور کر دیا ہے۔ پی ٹی آئی کے اراکین پارلیمنٹ کیلئے حکومت کی معاشی پالیسیوں کا دفاع کرنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ ان میں سے کچھ لوگ تو وفاقی وُزرا اور پنجاب حکومت کے کارپردازان کو بری گورننس اور معاشی پالیسیوں کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔
پی ٹی آئی پنجاب میں جاری سیاسی کشمکش، بری گورننس اور کمزور سیاسی قیادت کے معاملات کو عمران خان صاحب کے جنوری 2020 کے دورہ لاہور کے دوران حل کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس دورے میں عمران خان نے اعلان کیا کہ پنجاب کے موجودہ وزیر اعلیٰ اپنا کام جاری رکھیں گے۔ اس سے ذہنوں میں یہ سوال ابھرتے ہیں کہ کیا پی ٹی آئی پنجاب کے پاس صوبائی اسمبلی میں کوئی ایسا لیڈر موجود نہیں جو صوبائی سطح کی سیاسی پہچان رکھتا ہو اور جو پنجاب کے معاملات سنبھال سکے؟ پی ٹی آئی کے اندر موجود اس خلا کی وجہ سے جب بھی تبدیلی کی بات ہوتی ہے تو انہیں لامحالہ متبادل کے لیے پی ایم ایل (ق) کے رہنما اور موجودہ سپیکر چوہدری پرویز الٰہی کی جانب دیکھنا پڑتا ہے۔ ماضی میں وہ بطور وزیر اعلیٰ موثر انداز میں کام کر چکے ہیں؛ تاہم ابھی تک یہ بات عمران خان اور ان کے قریبی ساتھیوں کے لیے قابل قبول نہیں، ان کے خیال میں ایسا کرنے سے صوبے میں پی ٹی آئی کے مفادات کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔
عمران خان صاحب نے پی ٹی آئی کے اندر جاری کشمکش کو یہ فیصلہ کرکے فی الوقت دبا دیا ہے کہ موجودہ سیاسی بندوبست جاری رہے گا۔ اس دورے کے دوران ان کی پی ایم ایل (ق) والوں سے کوئی براہِ راست بات نہیں ہوئی جس کا مطلب یہ ہے کہ دونوں اتحادی جماعتوں کے مابین معاملات موجودہ شکل میں ہی چلیں گے۔ یہ پی ایم ایل (ق) والوں کے لیے واضح پیغام تھا کہ انہیں عمران خان کی مرضی و منشا پر ہی چلنا پڑے گا۔ اب کلید ی سوال یہ ہے کہ عمران خان پنجاب میں پارٹی کے معاملات کو کب تک ایسے ہی چلائیں گے اور اس حوالے سے حقیقت پسندانہ فیصلہ سازی کب کی جائے گی اور یہ کہ کب تک اتحادی اپنے تحفظات پر خاموش رہیں گے؟ کچھ فیصلوں سے جاری کشمکش میں قدرے فوری ریلیف تو مل سکتا ہے لیکن پی ٹی آئی کے لیے یہ چیز پنجاب میں جلد ہی دوبارہ آسیب بن کر لوٹ آئے گی خصوصاً اس لیے کہ اب پی ٹی آئی کی مقبولیت میں گراوٹ آتی جا رہی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں