"HAC" (space) message & send to 7575

بعد از کورونا عالمی سیاست

دنیا بھر میں پھیلے کورونا وائرس نے مقامی و عالمی سیاست کو تہ و بالا کر دیا ہے۔ کورونا وائرس کے ان وسیع اثرات کا ایک پہلو یہ ہے کہ وبا سے بچائو کے لیے عالمی تعاون پر مبنی کاوشیں جاری ہیں۔ ترقی پذیر ممالک کو بیرونی مالی و تکنیکی مدد فراہم کی جا رہی ہے تاکہ یہ ممالک اس وائرس کے منفی اثرات کا مقابلہ کر سکیں۔ ان ممالک کے قرضے معاف یا ملتوی کیے جا رہے ہیں اور انہیں نئی مالی معاونت بھی فراہم کی جا رہی ہے۔ وبا اتنی شدید ہے کہ صنعتی لحاظ سے ترقی یافتہ معیشتیں بھی اس کی وجہ سے دبائو کا شکار ہو گئی ہیں اور ان ممالک میں بھی ہزارہا لوگ بیروزگاری یا کاروباری مندی کا شکار ہیں۔ ان ترقی یافتہ ممالک کو بعد از کورونا جن کلیدی چیلنجز کا سامنا ہے ان میں ریاستی معیشت کی بحالی اور لوگوں کے روزگار اور کاروبار کو پٹڑی پر ڈالنا نمایاں ترین ہیں۔ اُمید کی واحد کرن یہ ہے کہ ان ممالک کی معیشتیں بحال ہونے کی صلاحیت رکھتی ہیں ؛ تاہم سوال یہ ہے کہ ان معیشتوں کو نارمل معاشی سرگرمیاں شروع کرنے کیلئے کتنا وقت درکار ہوگا؟
وائرس کے وبائی اثرات کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ یہ عالمی سیاست کو کس رُخ پر ڈالے گا اور اب یہ بحث چل رہی ہے کہ کورونا وائرس کے بعد کِس قسم کا عالمی نظام ابھر کر سامنے آئے گا؟ کیا امریکہ کورونا کے بعد ابھرنے والے عالمی نظام میں بھی قائدانہ کردار ادا کرتا دکھائی دے گا؟ مستقبل میں عالمی معاملات میں فیصلہ کُن کردار کون ادا کرے گا؟ تجزیہ نگاروں میں اس بات پر عمومی اتفاق دکھائی دیتا ہے کہ نئے نظام میں امریکہ کا قائدانہ کردار محدود ہو گا کیونکہ اپنی سائنسی اور تکنیکی ترقی و برتری کے باوجود وہ کورونا وائرس سے بالکل بے خبر ثابت ہوا اور وہاں لوگوں کی بہت بڑی تعداد موت کے منہ میں جا پہنچی۔ اس سے یہ بات ظاہر ہو گئی کہ کچھ غیر مرئی قوتیں ایسی ہیں جو امریکی سماج کو اپنے کلاوے میں لے سکیں گی۔ اگر زیادہ نہیں تو کم از کم کچھ وقت کیلئے ایسا ہونا عین ممکن ہے۔ اکثر تجزیہ کاروں کے خیال میں بعد از کورونا دور میں چین عروج پر پہنچتا دکھائی دیتا ہے؛ تاہم کسی کو بھی یہ اندازہ نہیں کہ عالمی نظام میں چین کے عروج کی وجہ سے اس نظام پر کس قسم کے اثرات مرتب ہوں گے لیکن یقینی ہے کہ اب یہ وہ دُنیا نہیں ہوگی جس پر مغرب خصوصاً امریکہ نے اپنی دھاک بٹھا رکھی تھی۔ امریکی کمزوری ظاہر ہونے کے بعد عالمی نظام میں اب کئی طاقتور کھلاڑی موجود ہیں۔ اس بات میں شبے کی گنجائش کم ہے کہ طاقت کے نئے ابھرتے ہوئے مراکز میں چین نمایاں ترین ہوگا۔ چینی امتیاز کا یہ تصور عالمی سیاست میں جاری اُس بحث سے جا مِلتا ہے جو قبل از کورونادُنیا میں جاری تھی کہ اکیسویں صدی ایشیا یا چین کی صدی ہو سکتی ہے۔
چین نے وائرس پر جس طرح قابو پایا اس کا موازنہ صحت کے اُس بحران سے کیا جانا چاہیے جس کا سامنا امریکہ اور یورپ کو کرنا پڑا کہ کس طرح ان ممالک کا نظام صحت وائرس کے حملے سے گھٹنوں کے بل جا گِرا۔ مزید برآں یہ بات بھی یاد رہنی چاہیے کہ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کو بھی اس وائرس کی وجہ سے کوئی بہت زیادہ نقصان نہیں پہنچا؛ اگرچہ فی الحال یہ منصوبہ ترجیحات میں کچھ نیچے ضرور چلا گیا ہے۔ ایک بار جب وائرس پر قابو پا لیا جائے گا تو بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ دوبارہ ابھر کر سامنے آ جائے گا اور ایشیا، افریقہ اور یورپ میں چین کے کردار کو دوبارہ منوا لے گا۔ اس کی وجہ سے چین اور اس منصوبے سے منسلک ممالک کی معیشتوں کو بہت مدد ملے گی۔ پاکستان بھی سی پیک سے مستفید ہو گا کیونکہ اس منصوبے کی وجہ سے پاکستانی عوام کے لیے معاشی مواقع پیدا ہوں گے۔
کورونا وائرس کی وبا سے یہ نکتہ بھی ثابت ہوا ہے کہ ایٹمی یا دوسرے خطرناک ہتھیاروں کی مدد سے عالمی نوعیت کی وبائوں کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ جامع سکیورٹی کا تصور، اب امکان ہے کہ اپنی جگہ بنا لے گا؛ اگرچہ جامع سکیورٹی کا یہ نظریہ کوئی نئی شے نہیں لیکن بعد از کورونا دور میں اب اس خیال کی جانب خاطر خواہ توجہ مرکوز کی جائے گی۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ انسانی و سماجی سکیورٹی کو کہیں زیادہ توجہ دی جائے۔ صحت، تعلیم اور ماحولیاتی بہتری کیلئے پہلے سے کہیں زیادہ وسائل مختص کیے جائیں۔ ریاست کو اپنے شہریوں کو بہرصورت یہ ضمانت دینا ہوگی کہ وہ انہیں غربت و بیروزگاری کا شکار نہیں ہونے دے گی۔ اس ضمانت کا مطلب یہ ہوگا کہ ریاست کو بجائے ہتھیاروں کی خرید و فروخت پر اندھا دھند خرچ کرنے کے یہی وسائل انسانی فلاح و ترقی کے لیے مختص کرنا ہوں گے۔
کسی ملک کی خود مختاری و جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کیلئے طاقتور فوج کے ساتھ ساتھ ریاست کو ایک مضبوط اور مستحکم سماج بھی درکار ہوتا ہے۔ سماج کا بڑا حصہ غُربت، بیروزگاری اور صحت کے ٹوٹے پھوٹے نظام کا شکارہو تو ایسا سماج گھن لگے درخت کی مانند اندر سے ہی گِر جائے گا۔ ایسے سماجوں میں سماجی، نسلی اور دیگر تنازعات اتنے پھیل جاتے ہیں کہ سماجی وحدت کوپارہ پارہ کر دیتے ہیں۔
کورونا وائرس کے حوالے سے عالمی نظام میں آج کل ایک اور بحث بھی چل رہی ہے کہ کیا یہ وائرس فطرت کا پیدا کردہ تھا یا اسے دُنیا کی کسی جدید ترین لیبارٹری میں تیار کیا گیا تھا۔ بہت سے تجزیہ نگاروں اور حکومتوں کا خیال ہے کہ یہ وائرس انسان کی تخلیق ہے جسے کسی لیبارٹری میں بنایا گیا۔ یا تو اسے تخلیق کر کے باقاعدہ طور پر اسے پھیلایا گیا یا یہ لیبارٹری سے حادثاتی طور پر نکلا اور اس نے ساری دُنیا میں اس قدر افراتفری پھیلا دی۔ یہ بالکل کسی سائنس فکشن فلم کی مانند محسوس ہوتا ہے لیکن لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ یہ وائرس انسانی تخلیق ہی ہے۔ اگر تو اسے جان بوجھ کر پھیلایا گیا ہے تو یقینا یہ اپنے دُشمن ممالک کے خلاف ایک نئی طرح کی جنگ چھیڑنے کے مترادف ہے۔ 
چونکہ وائرس نے ساری دُنیا میں ہر طرح کے ملکوں کو بری طرح متاثر کیا ہے اور یہ مختلف قسم کے موسموں سے بھی بچ نکلا ہے تو اس بنیاد پر بہت سے ماہرین اسے کسی لیبارٹری میں تیار شُدہ وائرس قرار دے رہے ہیں۔ اگر اس دلیل کو مان لیا جائے تو اس سے اس دعوے پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے کہ یہ وائرس چین میں کسی جانور سے انسانوں میں منتقل ہوا اور پھر انسانوں کے ایک سے دوسرے ملک میں سفر کے نتیجے میں ساری دُنیا میں پھیل گیا۔ کورونا وائرس کی پیدائش کے بارے میں یہ تمام دلائل صرف اور صرف شبہات ہیں۔ ابھی تک ان دعووں کو ثابت کرنے کیلئے کوئی موثر دلیل یا ثبوت سامنے نہیں آیا۔ عالمی سطح پر اس حوالے سے تنازعہ اس لیے پیدا ہوا کہ امریکہ کے سرکاری حکام چین کو اس وائرس کی تخلیق اور اس کے پھیلائو کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ ابتدا میں صدر ٹرمپ اور ان کے ساتھی اس وائرس کو چینی وائرس یا ووہان وائرس کہہ کر ہی پکارتے تھے۔ صدر ٹرمپ چاہتے تھے کہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اس کو چینی وائرس قرار دے۔ ڈبلیو ایچ او نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا تو صدر ٹرمپ نے اس کی مالی امداد معطل کر دی۔
کچھ ایسے بھی لوگ ہیں جن کا دعویٰ ہے کہ یہ وائرس امریکی حکومت کی سرپرستی میں تیار کیا گیا تھا۔ اس کا مقصد مخالف ممالک کو نشانہ بنانا تھا لیکن خود امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک ہی اس کا نشانہ بن گئے۔ الزامات اور جوابی الزامات نے امریکہ اور چین کے مابین سفارتی تنائو پیدا کر دیا۔ اب امریکی صدر چین اور روس دونوں کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں کہ وائرس کے معاملے پر امریکہ کے خلاف پروپیگنڈا کر رہے ہیں۔ دونوں ممالک نے اس الزام کی تردید کی ہے۔
اب تک کورونا وائرس کے متعلق کوئی قابل اطمینان وضاحت دستیاب نہیں؛ تاہم اس وائرس نے دُنیا کے اکثر ممالک کی کمزوریوں کو عیاں کر دیا ہے اور اس کی وجہ سے تمام ممالک کے راہنما عالمی نظام کے بارے میں نئی سوچ اپنانے پر مجبور دکھائی دیتے ہیں۔ ایک نئی قِسم کا خطرہ ان کے سامنے چیلنج بن چکا ہے۔ بعد از کورونا دُنیا میں وہی ممالک محفوظ ہوں گے جو غیر ریاستی ماخذات سے ابھرنے والے خطرات کا موثر انداز میں مقابلہ کرنے کی اہلیت رکھتے ہوں گے۔ یہ چیلنجز کسی فطری یا انسان کی پیدا کردہ تباہی یا وبا یا دہشت گردی کی شکل میں ابھر سکتے ہیں۔ پاکستان جیسے ممالک کو بھی اس پہلو پر سنجیدگی سے غور کرنا پڑے گا جنہوں نے اب تک عام لوگوں کی فلاح و بہبود کو نظر انداز کیے رکھا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں