"HAC" (space) message & send to 7575

چین ایران تعاون اور پاکستان

امکان ہے کہ ایران اور چین کے مابین ہونے والا کئی بلین امریکی ڈالر کی معاشی و تکنیکی معاونت کا معاہدہ عالمی سطح پر بہت زیادہ توجہ حاصل کرے گا۔ اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ چین اب خلیج فارس اور مشرقِ وُسطیٰ میں کہیں زیادہ فعال کردار ادا کرنے کی جانب بڑھ رہا ہے۔
ایران اور چین کے مابین ہونے والا یہ نیا معاہدہ عالمی سطح پر چین کی اس پالیسی کی توسیع ہے جس کے تحت وہ مختلف براعظموں کو معاشی طور پر ایک دوسرے سے جوڑنے کے لیے سرگرداں ہے۔ اس کا ایک مظہر بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے۔ چین براہ راست وسطی ایشیا اور یورپ تک رسائی کے لیے ریل کے ایک ایسے نیٹ ورک پر کام کر رہا ہے جس کا ایک مختصر حصہ ایران سے بھی گزرے گا۔ ایران اور چین کے مابین ہونے والا نیا معاہدہ اگر مکمل ہو جاتا ہے تو اس سے نہ صرف ایران دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ عمدہ طریقے سے منسلک ہو جائے گا بلکہ اس کے ساتھ جو منصوبے جڑے ہیں وہ ایران کی سماجی و معاشی ترقی کے لیے بہت اہم ثابت ہوں گے۔
دو برس قبل، ایران نے اس بات کی خواہش ظاہر کی تھی کہ وہ چین پاکستان اکنامک کوریڈور (سی پیک) کا حصہ بننا چاہتا ہے اور اس کے لیے ایران چاہتا تھا کہ چاہ بہار اور گوادر کے مابین جدید سڑکوں کا ایک رابطہ قائم کیا جائے۔ اب یہ رابطہ چین اور پاکستان کی رضامندی سے استوار کیا جا سکتا ہے۔ اس نئے رابطے کی بدولت ایران کو چین کے سنکیانگ علاقے (مغربی خطہ) تک تجارتی رسائی حاصل ہو جائے گی۔ اس کی بدولت پاکستان اور ایران کے مابین معاشی روابط بھی مزید مضبوط کرنے کا موقع پیدا ہوگا۔
چین اور ایران جو قدم اٹھانے جا رہے ہیں وہ عالمی سیاست کی ایک حقیقت کا اظہار ہے۔ دونوں ملکوں کے امریکہ کے ساتھ تعلقات میں مختلف وجوہ کی بِنا پر مسائل موجود ہیں۔ امریکہ چاہتا ہے کہ وہ ایران کو پابندیوں کے ذریعے جکڑے رکھے۔ ایران ہی کی مانند چین کے بھی امریکہ کے ساتھ تعلقات میں مسائل موجود ہیں۔ چین نے حال ہی میں ہانگ کانگ پر اپنا انتظامی کنٹرول مضبوط بنانے کے لیے جو اقدامات کیے‘ امریکہ نے ان پر سوالات اٹھائے ہیں۔ اس کے علاوہ سائوتھ چائنہ سی کے کچھ جزائر پر بھی امریکہ اور چین کے مابین ٹھنی ہوئی ہے۔ امریکہ، بھارت، آسٹریلیا اور جاپان کے درمیان ایشیا پیسفک خطے میں معاشی تعاون و استحکام کے فروغ کے لیے ہونے والے معاہدے کو چین اپنی سفارتی و معاشی سرگرمیوں پر روک لگانے کا ایک حربہ خیال کرتا ہے؛ چنانچہ چین، ایران کو سیڑھی بناکر خلیج و مشرقِ وسطیٰ کے علاقے میں تگڑے قدم جمانے کا آرزومند ہے۔
ایران بھی اس تگ و دو میں ہے کہ کسی طرح امریکی شکنجہ ڈھیلا کرے اور اس کے لیے وہ چاہتا ہے کہ وہ اپنے ہمسایہ و نزدیکی ممالک کے ساتھ مضبوط معاشی روابط قائم کرے۔ عرب ممالک مددگار نہیں ہو سکتے۔ ترکی ایران سے اپنے معاشی تعلقات کو اسی سطح پر رکھے گا۔ اگر نیا چینی منصوبہ کامیاب ہو جاتا ہے تو یقینا ایران کو تجارت کے لیے ایک اچھی راہ گزر مل جائے گی جس سے وہ وسطی ایشیا اور پاکستان تک اپنے معاشی و تجارتی تعلقات کو فروغ دے سکے گا۔ ایران اور پاکستان کے مابین معیشت و تجارت کے فروغ کے روشن امکانات موجود ہیں، لیکن بوجوہ یہ تعلقات بلند سطح پر نہیں پہنچ پاتے۔ چین سے قائم ہونے والا ربط ایران کو یہ موقع بھی فراہم کرے گاکہ وہ نہ صرف اپنی موجودہ صنعت میں جدت لائے بلکہ اس کے علاوہ نئی صنعتیں بھی قائم کرسکے اور یوں یہ نئی پیش رفت ایران کے لئے مفید ثابت ہو گی۔ چین اور ایران کے مابین اس نئے معاملے کی تفصیلات پوری طرح سامنے نہیں آئیں۔ یہ چیزیں اگلے ایک دو برسوں میں کھلیں گی۔ پاک چین اکنامک کوریڈور کی طرح نیا ایران چین انیشی ایٹو بھی، اندیشہ ہے کہ انڈیا اور امریکہ کی جانب سے منفی سفارتی مہم کا سامنا کرے گا۔
پاکستان اور چین کے مابین فعال معاشی تعلقات کی جڑیں ساٹھ کی دہائی تک جاتی ہیں اور امکان ہے کہ سی پیک کی تکمیل کے بعد یہ تعاون نئی بلندیوں کو چھو لے گا۔ یہ منصوبہ صرف گوادر بندرگاہ کی تعمیر اور سڑکوں کے ذریعے مغربی چین سے منسلک ہونے تک محدود نہیں ہے بلکہ اس میں پاکستان میں بجلی گھروں کی تعمیر، صنعتوں اور انفراسٹرکچر کے کئی منصوبے بھی شامل ہیں۔ اگر چین پاکستان اکنامک کوریڈور ایران اور افغانستان کے ساتھ منسلک ہو جاتا ہے تو اس کوریڈور کی معاشی اہمیت کئی گنا بڑھ جائے گی۔ افغانستان سڑکوں کے ایک نیٹ ورک کے ذریعے وسطی ایشیا سے منسلک ہے۔ اس نیٹ ورک کو اپ گریڈ کیا جا سکتا ہے تاکہ پاکستان اور افغانستان سے وسطی ایشیاء کے ممالک تک اشیاء و خدمات کی زیادہ تیز رفتاری سے نقل و حرکت ممکن ہو سکے۔
چین اور پاکستان کے مابین موجود معاشی تعاون کو اس وقت امریکہ اور انڈیا کی جانب سے دو قسم کی تنقید کا سامنا ہے۔ اول: ان کا دعویٰ ہے کہ سی پیک ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرح کا منصوبہ ثابت ہو گا۔ دوم: پاکستان چینی قرض واپس کرنے میں ناکام ہو جائے گا اور چین کو پاکستانی معیشت کو تاراج کرنے کا بہت تگڑا موقع مل جائے گا۔ کچھ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ چین کسی حد تک پاکستانی معیشت پر قابض ہو جائے گا، بالکل ویسے ہی جیسے سری لنکا کی معیشت میں چین کا عمل دخل بہت زیادہ ہو چکا ہے۔ مندرجہ بالا دونوں ہی تقابل غلط ہیں۔ جو کچھ سترہویں صدی میں حاصل کیا جا سکتا تھا اب اکیسویں صدی میں وہ حاصل کرنا ممکنات میں سے نہیں۔ کالونی گیری کا دور بڑا عرصہ ہوا دم توڑ چکا ہے۔ سری لنکا میں چین کی بڑھتی ہوئی موجودگی کے سبب کسی صورت بھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس کی وجہ سے سری لنکا کی معاشی و سیاسی آزادی پر کوئی زد آئی ہے۔ چین نے افریقی ممالک میں بھی بہت بڑی سرمایہ کاری کی ہے لیکن اس کاکردار صرف سرمایہ کاری اور تجارت تک ہی محدود رہا ہے۔ اس کے سفارتی اثرورسوخ میں اضافہ ہوا ہے لیکن اس بات کا کوئی ثبوت موجود نہیں کہ چین کسی بھی طرح سے ان ممالک کو کنٹرول کرنے کی کوئی کوشش کر رہا ہو۔
اکثر ممالک میں چین نے جو سرمایہ کاری کی ہے اس کا براہِ راست اسے فائدہ نہیں ہوتا؛ تاہم پاک چین اکنامک کوریڈور کے معاملے میں چین کو براہِ راست ٹھوس معاشی فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ چین کو اس راہداری کی اتنی ہی اشد ضرورت ہے جتنی یہ پاکستان کے لیے اہمیت کی حامل ہے۔ یہ راہداری اور گوادر کی بندرگاہ‘ دونوں براہِ راست مغربی چین کو جدید بنانے کے اس کے منصوبوں کے لیے اہمیت کی حامل ہیں۔ سائوتھ چائنہ سی میں موجود چینی بندرگاہیں مغربی چین سے بہت دور ہیں۔ سی پیک براہِ راست اسے مغربی چین کے ساحلوں تک رسائی فراہم کرتا ہے۔ اگر پاکستان مغربی مالیاتی اداروں مثلاً آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے کڑے سلوک کا سامنا کر سکتا ہے تو اس بات پر شبہ کرنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ کیوں وہ چینی کمپنیوں اور بینکوں سے معاملہ نہیں کر سکتا۔ چونکہ پاکستان کے ساتھ کئی ممالک کی سرحدیں لگتی ہیں اس لیے افغانستان‘ جنوبی ایشیا اور بحر ہند کے علاقے میں چین کی پالیسیوں میں پاکستان کی اہمیت برقرار رہے گی۔ اس کے علاوہ پاکستان کا تعاون چین کی ان نئی کوششوں میں بھی ممد و معاون ثابت ہوگا جو وہ خلیج کے علاقے میں اپنی معاشی تعلقات استوار کرنے کے لیے کر رہا ہے۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ بیرونی ممالک میں چین کی سرمایہ کاری میں پاکستان کی معاشی راہداری کا منصوبہ منفرد ہے کیونکہ اس میں چین کے لیے ٹھوس فوائد موجود ہیں۔ یقینا پاکستان کو بھی اس سے فائدہ پہنچے گا۔ بجلی و صنعتی منصوبے اور خصوصاً سی پیک کے تحت بننے والا سڑکوں کا نیٹ ورک پاکستان کو اس قابل بنا سکتا ہے کہ وہ بعد از کورونا دور میں اپنی معیشت بحال کر سکے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں